حدیث ‘ضحضحاح’ کی رد

جناب ابوطالبؑ کے مشرک ہونے کے جو ناقص دلائل پیش کیے جاتے ہیں ان میں سرِ فہرست یہ حدیث ہے جس کو ‘حدیث ضَحضاح’ کے نام سے مشہور کیا گیا ہے۔ اصطلاحی معنوں میں ‘ضَحضاح’ جہنم کا وہ مقام ہے جو سب سے اوپر ہے اور جہاں پر سب سے کم درجے کا عذاب ہوگا۔ اس روایت کو بنی امیہ کے نمک خوار مغیرہ بن شعبہ نے رسولؐ اللہ کے چچا عباس بن عبد المطلب سے نقل کیا ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس روایت کو بخاری اور مسلم دونوں نے اپنے اپنے طریقوں سے نقل کیا ہے۔ اس کے جملے کچھ اس طرح ہیں-
عن العباس بن عبد المطلب رضي الله عنه أنه قال: يا رسول الله: هل نفعت أبا طالب بشيء؟ فإنه كان يحوطك ويغضب لك، قال: نعم، هو في ضحضاح من نار، لولا أنا لكان في الدرك الأسفل من النار.
(مسلم ١/١١١۵)

عباس بن عبد المطلب کہتے ہیں کہ میں نے رسولؐ اکرم سے سوال کیا:”یا رسول اللہؐ ! ابوطالبؑ زندگی بھر آپ کے لیے جاں نثاری کرتے رہے، انھوں نے آپ کو ہر طرح کے دشمنوں اور پریشانیوں سے محفوظ رکھا۔ وہ آپؐ کی خاطر آپؐ کے دشمنوں سے غضبناک ہوتے تھے۔ کیا ان کو اِن چیزوں کے عوض آخرت میں کوئ فائدہ حاصل ہوگا؟” آنحضرتؐ نے جواب دیا: “ہاں، وہ میری شفاعت کی وجہ سے جہنم کے سب سے اوپر والے درجے ‘ضحضاح’ میں ہوں گے ورنہ وہ (اپنے شرک و کفر کی وجہ سے-نعوذ بااللہ-) جہنم کے نچلے درجے میں ہوتے۔”

بخاری نے اس روایت کو اس انداز سے نقل کیا ہے۔ ایک شخص نے رسول خدا(ص) کے پاس ابو طالب(ع) کا ذکر کیا تو آپ(ص) نے فرمایا: “مجھے امید ہے کہ میری شفاعت قیامت کے روز ان کے لئے مفید ہو، وہ آگ کے ذریعہ ابلے ہوئے پانی میں قرار پائیں گے اور پانی ان کے ٹخنوں تک پہنچے گا اور وہاں سے ان کے مغز تک کو ابال دے گا۔”
(بخاری، ج4، ص247)

اہل تسنن کے یہاں بخاری اور مسلم یہ دونوں کتابیں صحاح میں شمار ہوتی ہیں۔ لہذٰا اہل تسنن کی اکثریت ان کی تمام روایات کو آنکھ بند کرکے معتبر قبول کر لیتی ہے۔ مگر کچھ انصاف پسند ذہن رکھنے والے حضرات روایات کے متن کو دیکھ کر اس کی صحت پر سوال اٹھاتے ہیں اور ان کی تفتیش کرتے ہیں۔ ان دونوں روایات میں راوی نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے کہ جناب ابوطالبؑ نے (نعوذ باللہ) حالت کفر و شرک میں رحلت فرمائ اس لیے ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ دوسری بات یہ کہ راوی نے بھی جتانے کی کوشش کی ہے کہ رسولؐ اللہ کی شفاعت ان کے شامل حال ہوگی جس کے سبب سے ان کے عذاب میں تخفیف بھی کی جائے گی۔

‘حدیث ضحضاح’ کی صحت پر مختصر تبصرہ:
کسی بھی حدیث کی صحت جانچنے کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ اس کے راویان کی پڑتال کی جاے۔’حدیث ضحضاح’ کے بارے میں تمام منقولہ اقوال کا راوی مغیرہ بن شعبہ ہے۔ یہ شخص بنی ہاشم کا کھلا دشمن تھا اور ان کے بارے میں بد گمان رہتا تھا۔ بنی ہاشم کی برائ کرنے کے کسی موقع کو فراموش نہیں کرتا تھا۔ بنی ہاشم کے افراد کے فضائل بیان کرنے میں بخل سے کام لیتا تھا بلکہ ان کے بارے میں بہتان طرازی کرتا تھا۔ اہلبیت رسولؐ اور بنی ہاشم سے اس کی دشمنی سب پر آشکار ہے۔ مروی ہے کہ ایک دفعہ اس نے شراب نوشی کی اور جب نشہ چڑھ گیا تو کسی نے پوچھا: بنی ہاشم کی امامت کے بارے میں تمھاری کیا رائے ہے؟ تو اس نے کہا: خدا کی قسم! میں کبھی بھی کسی ہاشمی کے لئے خیر و خوبی نہیں چاہتا؛ مغیرہ علاوہ ازيں فاسق شخص تھا۔
(بحار الانوار، ج35 ص112۔)

شیعہ علماءِ کے نزدیک یہ شخص کھلا ناصبی اور فاسق تھا اس لیے اس کی روایات ہرگز قابل قبول نہیں ہیں۔ مغیرہ بن شعبہ کے بارے میں یہی رائے اہل تسنن کے کچھ علماء بھی رکھتے ہیں۔ مشہور سنی عالم اور شارح نھج البلاغہ ابن ابی الحدید معتزلی کہتے ہیں:
محدثین و مفسرین کا کہنا ہے کہ حدیث ‘ضحضاح’ کو سب نے ایک ہی شخص سے نقل کیا ہے اور وہ شخص مغیرہ بن شعبہ ہے جس کا بغض بنی ہاشم بالخصوص علی (علیہ السلام) کی نسبت مشہور و معلوم ہے اور اس کا قصہ (قصۂ زنا) اور اس کا فسق ایک غیر مخفی امر ہے۔
( شرح نهج البلاغه، ج14 ص70)۔

اس کے علاوہ ان روایات میں رسولؐ اللہ کا قول نقل ہوا ہے کہ ‘میری شفاعت سے ان کو نچلے درجے سے نکال کر جہنم کے سب سے بلند مقام پر رکّھا جائے گا’ یہ جملہ سراسر بیہودہ ہے۔ اس کی دو وجہیں ہیں، پہلی یہ کہ یہی لوگ جو جناب ابوطالبؑ کے مومن ہونے کا انکار کرتے ہیں یہ بھی کہتے ہیں کہ قرآن کریم کی جن آیتوں میں اللہ نے رسولؐ اللہ کو مشرکوں کے لیے دعا کرنے سے روکا ہے وہ (نعوذ باللہ) جناب ابوطالبؑ ہیں۔ ان سے سوال یہ ہے کہ جب دنیا میں اللہ اپنے حبیب کو منع کرچکا ہے تو پھر روزِ حساب کیونکر ان کی سفارش کو قبول کرے گا۔ قرآن کا واضح فرمان ہے کہ مشرکین کے لیے دعا مت کیا کرو۔
مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُواْ أَن يَسْتَغْفِرُواْ لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُواْ أُوْلِي قُرْبَى مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ۔ (توبہ:١١٣)
پیغمبر کو اور انھیں جو ایمان لائے ہیں، یہ حق نہیں ہے کہ وہ دعائے مغفرت کریں مشرکوں کے لیے، چاہے وہ ان کے کتنے ہی قریبی رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، بعد اس کے کہ ان پر ثابت ہو گیا کہ وہ دوزخی ہیں۔

اسی طرح اس روایت میں اور بھی قرآنی اصولوں کی خلاف ورزی نظر آتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس نے بھی روایت گھڑی ہے اس نے قرآن کی ان آیتوں کو نہیں پڑھا ہے۔ قرآن نے متعدد مقامات پر یہ اعلان کیا ہے کہ مشرکوں اور کافروں کی اللہ کے حضور میں کوئ سنوائ نہ ہوگی۔ ان کے لیے کسی کی شفاعت قبول نہیں کی جائے گی اور نہ ہی ان کے عذاب میں ذرّہ برابر تخفیف ہوگی۔ مثال کے طور پر سوره بقرہ کی یہ آیت بتاتی ہے کہ کافر کے ساتھ کوئ نرمی نہیں برتی جائے گی اور نہ ہی ان کے عذاب میں کوئ کمی کی گنجائش ہے۔
خَالِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ (2:162)

جو بھی کافر مرتا ہے وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور اس کے عذاب میں کوئ کمی نہیں کی جائے گی۔
یہی بات اسی انداز میں سورہ آل عمران میں بھی دہرائ گئ ہے۔
خَالِدِينَ فِيهَا لَا يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ۔ (آل عمران:١٨٨)
قرآن نے اپنے اس اصول میں تمام کفار کو شامل کیا ہے یعنی کسی بھی کافر کے ساتھ کو نرمی نہ ہوگی اور ان سب کو ہمیشہ جہنم میں رہنا ہے۔ سوره فاطر کی اس آیت میں اس بات کا واضح بیان ہے۔
وَالَّذِينَ كَفَرُوا لَهُمْ نَارُ جَهَنَّمَ لَا يُقْضَى عَلَيْهِمْ فَيَمُوتُوا وَلَا يُخَفَّفُ عَنْهُمْ مِنْ عَذَابِهَا كَذَلِكَ نَجْزِي كُلَّ كَفُورٍ
(سوره فاطر:36)

اس روایت میں عباس کا سوال یہ ہے کہ کیا ابوطالب کو ان کی نیکیوں کا بدلہ ملے گا؟ راوی یہ بتاتا ہے کہ آنحضرتؐ کا جواب مثبت میں ہے۔ یہ بات بھی قرآنی اصول کے خلاف ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ کفار کے سارے اعمال حبط ہو جائیں گے، ان کو آخرت میں کسی نیکی کا اجر نہیں ملے گا۔ سوره بقرة کی یہ آیت بتاتی ہے کہ جو بھی کفر کی حالت میں اس دنیا سے جاتا ہے،اس کے سارے اعمال حبط ہوجاتے ہیں اور وہ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔
….فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ (البقرة :217)
….پس وہ کافر ہوگیا، یہی وہ لوگ ہیں جن کے اعمال حبط ہوجاتے ہیں، ان کو نیکیوں کی جزا نہ دنیا میں ملتی ہے اور نہ ہی آخرت میں۔ یہ لوگ جہنمی ہیں اور ہمیشہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔

ان کے علاوہ بھی قرآن کی متعدد آیات ہیں جو ان باتوں کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ کافر کے اعمال حبط ہو جاتے ہیں، ان کے ساتھ کسی طرح کی نرمی نہیں ہوگی اور نہ ہی ان کے لیے کسی شفیع کی شفاعت قبول کی جائے گی۔ جبکہ اس روایت میں جناب ابوطالبؑ کی نیکیوں کی جزا میں رسولؐ اللہ کی شفاعت کی بنا پر ان کے عذاب میں کمی ہونے کا ذکر ہے۔ اس وجہ سے اس روایت کا متن قرآنی اصولوں کے خلاف ہے۔

اس روایت کی تردید طرفین کے علماء نے اپنی اپنی دلیلیں پیش کر کے کی ہے۔ ان سب کا یہاں ذکر کرنا غیر مناسب ہے۔ مگر اتنا کہنا ضروری ہے کہ اس روایت میں راوی نے ایک جھوٹی بات رسولؑ کے ایک چچا عباس ابن عبد المطلب سے منسوب کردی اور ان کے دوسرے چچا ابوطالب پر کفر کا الزام لگا دیا ہے۔ خدا ایسے ناصبی راویوں پر لعنت کرے اور ان کو جہنم واصل کرے۔ تعجب یہ نہیں ہے کہ یہ روایت ایک بہتان اور جھوٹ ہے ، تعجب تو اس بات پر ہے کہ بخاری اور مسلم نے ان کو اپنی صحاح میں نقل کیا ہے۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ ایسی ناصبی روایات سے محتاط رہیں، چاہے وہ کسی بھی کتاب میں نقل ہوئ ہوں۔

Short URL : https://saqlain.org/so/ajtm