حضرت علی علیہ السلام نے اپنے گھر پر ہوئے حملہ کا دفاع کیوں نہیں کیا؟

اس سوال اوراعتراض کے جواب کے لئے مناسب ہے کہ تاریخ اسلام کے کسی قدیم ترین منبع کی طرف رجوع کیا جائے۔

ا۔ یعقوبی ایک مشہور و معروف مورخ جن کی وفات 290 ہجری قمری میں ہوئی لکھتے ہیں کہ:

ابوبکر اور عمر کو یہ خبر دی گئی کہ حضرت علی علیہ السلام انصار و مہاجرین میں سے کچھ لوگوں کے ساتھ حضرت فاطمہؐ زہرا، دختر رسولؐ خدا کے گھر میں موجود ہیں چنانچہ ابوبکر و عمر نے ایک گروہ کے ساتھ بنت رسولؐ کے گھر پر حملہ کردیا (چنانچہ حضرت علیؑ ہاتھ میں تلوار لئے گھر سے باہر عمر کے سامنے آئے حضرت علی اور عمر نے ایک دوسرے کا گریباں پکڑا اور زمین پر گرایا اسی اثناء میں عمر نے حضرت علی کی تلوار توڑ دی اور کچھ لوگ جو عمر کے ساتھ آئے تھے شہزادی کے گھر میں گھس گئے) شہزادی حضرت فاطمہؐ زہرا جب ان لوگوں کی اس حرکت پر متوجہ ہوئیں تو کہا خدا کی قسم اگر گھر سے باہر نہ نکلے تو اپنے بالوں کو پریشان کرلوں گی اور خدا سے شکایت کروں گی ۔ (١)

ب۔ شہاب الدین آلوسی شافعی جن کی وفات 1270 میں ہوئی سلیم بن قیس کی کتاب سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
جس وقت حضرت علیؑ نے ابوبکر کی بیعت سے انکار کیا عمر نے ناراض ہوکر حضرت علیؑ کے گھر کو آگ لگادیا اور پھر گھر میں داخل ہوگئے، حضرت فاطمہؐ زہرا نے جب یہ منظر دیکھا تو اپنے بابا رسولؐ خدا کا واسطہ دے کر فریاد کیا “یا ابتاہ و یا رسول اللہ “۔ پھر عمر نے نیام میں رکھی ہوئی اپنی تلوار سے شہزادی کے پہلو پر وار کیا اور اپنے پاس موجود تازیانہ سے بھی شہزادی کو مارا چنانچہ شہزادی نے دوبارہ رسول خدا سے توسل کیا اور انہیں پکارا۔ حضرت علیؑ نے عمر کی جب یہ حرکت دیکھی تو برداشت نہ کرسکے اور عمر کا گریبان پکڑ کر زمین پر پٹکا اور اور اس کی گردن پکڑ کر ناک کو زمین پر رگڑ دیا ۔ (٢)
————————————————————————————————-

(١) ((و بلغ ابا بکر و عمر أنّ جماعة من المھاجرین و الانصار قد اجتمعوا مع علی بن ابی طالب فی منزل فاطمة بنت رسول اللہ، فأتوا فی جماعة حتیٰ حجموا الدار، فخرجت فاطمة فقالت: و اللہ لتخرجنّ أو لأکشفنّ شعری و لأعجنّ الی اللہ! فخرجوا و خرج من کان فی الدار))۔ تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۲۶، خبر سقیفہ بنی ساعدۃ و بیعۃ ابی بکر۔

(٢) ((غضب عمر واضرم النار بباب علی و احرقہ و دخل، فاستقبلتہ فاطمة و صاحت یا ابتاہ و یا رسول اللہ! فرفع عمر السیف و ھو فی غمدہ فوجأ بہ جنبھا المبارک و رفع السوط فضرب بہ ضرعھا، فصاحط یا ابتاہ! فأخذ علی بتلابیب عمر و ھزہ و وجأ انفہ و رقبتہ))۔ روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم و السبع المثانی، ج۳، ص۱۶۵۔ ۱۶۶، ذیل تفسیر آیۃ۲۸ سورۃ آل عمران

Short URL : https://saqlain.org/m7mt