ہارون رشید بنی عباس کا ایک بادشاہ گزرا ہے۔ بنی عباس کیونکہ رسول اللہؐ کے چچا عباس کی اولاد ہیں اس لیے وہ بھی بنی ہاشم ہیں۔ مگر حکومت پر قابض ہونے کے بعد اس خاندان نے اولاد فاطمہؑ اور اولاد علیؑ سے حد درجہ دشمنی کا اظہار کیا۔ یہ لوگ اسلامی مملکت پر قابض رہنے کے لیے یہ دعویٰ کرتے تھے کہ کیوں کہ ان کا تعلق خاندان رسالت سے ہے اس لیے وہ حکومت کے حقدار ہیں۔ یہی حب ریاست تھی کہ جس کی وجہ سے ان کو حقیقی نسل پیغمبر یعنی اولاد فاطمہؑ سے دشمنی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ان کا کوئ بیٹا بطور وارث موجود نہیں تھا۔ بنی عباس کا یہ دعویٰ ہے کہ اس وقت آنحضرتؐ کے چچا عباس باحیات تھے لہذا وہ اور ان کی اولادیں رسولؐ اللہ کے حقیقی وارث ہیں۔ لہذا حضور اکرم سے اس خاندانی قربتداری کی بناپر وہ مسلمانوں پر حکومت کرنے کو اپنا حق سمجھتے تھے۔ اپنی بات کو مستحکم بنانے کے لیے اس
جھوٹ کی تجارت کرتے تھے کہ اولاد فاطمہ (س) حقیقی نسلِ رسولؐ نہیں ہیں۔ ان کے اس منسوبے کی مخالفت علوی سادات (اولاد علیؑ اور فاطمہ (س)) اور علوی غیر سادات (صرف اولاد علیؑ) مسلسل کرتے رہے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بنی عباس کا دور حکومت اولاد علیؑ و فاطمہؑ کے لیے بنی امیہ کے زمانے سے بھی زیادہ سخت ترین ثابت ہوا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بنی عباس کے بادشاہوں نے اپنے اپنے دور میں لاکھوں سادات کو قتل کیا اور ان کا خون پانی کی طرح بہایا۔
پوری امت کے اجماع کے باوجود یہ حکمران اعلانیہ طور پر بھی اولاد فاطمہؑ کو آلِ محمدؐ شمار نہیں کرتے تھے بلکہ ان سے اس معاملے میں بحث و مباحثہ کرتے تھے۔ ایسی ہی ایک مجلس میں بنی عباس کے بادشاہ ہارون رشید نے امام موسیٰ کاظم (ع) سے کہا: آپ یہ کیونکر کہتے ہیں کہ ہم نبی (ص) کی نسل سے ہیں حالانکہ نبی (ص) کی کوئی نسل نہیں ہے، کیونکہ نسل بیٹے سے چلتی ہے نہ کہ بیٹی سے، اور آپ رسول خدا (ص) کی بیٹی کی اولاد ہیں؟
امام کاظم (ع) نہیں چاہتے تھے کہ اس بات کو طول دی جائے. لہذا آپؑ نے ہارون سے اس بات سے رخصت لینے کے لیے کہا: مجھے اس سوال کے جواب سے معذور رکھو۔
ہارون نے اسرار کرتے ہوئے کہا: اے فرزند علی (ع)، آپ کو اس بارے میں اپنی دلیل بیان کرنا ہی پڑے گی۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ آپ اے موسی (ع) ! اپنے خاندان کے سربراہ ہیں اور ان کے زمانے کے امام بھی ہیں ـ مجھے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آپ سے جو کچھ بھی پوچھا جاتا ہے آپ اس کا جواب رکھتے ہیں اس لیے آپ کو اس سوال کے جواب سے معذور نہيں رکھوں گا حتی کہ ان سوالات کی دلیل آپ قرآن سے پیش کریں آپ فرزندان علی (ع) یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ قرآن میں کوئی بھی ایسی بات نہیں ہے جس کی تاویل آپ کے پاس نہ ہو، اور اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ مَّا فَرَّطْنَا فِي الكِتَابِ مِن شَيْءٍ ( ترجمہ: ہم نے اس کتاب میں کوئی چیز لکھے بغیر نہیں چھوڑی) اور یوں اپنے آپ کو رأی اور قیاس کے حاجتمند نہیں سمجھتے ہیں۔
امام کاظم (ع) نے اب جواب دینا ضروری سمجھا اور بادشاہ سے کہا: کیا مجھے جواب دینے کی اجازت ہے ؟
ہارون نے کہا: ہاں فرمائیے،
امام (ع) نے جواب دینا شروع کیا:
أَعُوذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ۔ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمـَنِ الرَّحِيمِ۔ قرآن میں اللہ ارشاد فرماتا ہے:
“وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ كُلاًّ هَدَيْنَا وَنُوحاً هَدَيْنَا مِن قَبْلُ وَمِن ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَى وَهَارُونَ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ٭ وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَى وَعِيسَى وَإِلْيَاسَ كُلٌّ مِّنَ الصَّالِحِينَ”۔
(ترجمہ: اور ہم نے عطا کیے انھیں (جناب ابراہیمؑ کو) اسحٰقؑ اور یعقوبؑ (جیسی اولاد، ان میں)، ہر ایک کو ہم نے راستہ دکھایا اور نوحؑ کو اس کے پہلے ہم نے راستہ دکھایا اور ان کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسٰی اور ہارون کو اور اسی طرح ہم صلہ دیتے ہیں نیک اعمال کرنے والوں کو ٭ (اور ان کی اولاد میں) زکریاؑ اور یحییٰؑ اور عیسٰیؑ اور الیاسؑ کو، یہ سب صالحین اور نیکو کاروں میں سے تھے۔
(سورہ انعام ٨۴-٨۵)
امامؑ کاظمؑ پھر ہارون کی طرح مخاطب ہوئے اور سوال کیا: یہ بتاو عیسیٰ (ع) کا باپ کون ہے؟
ہارون نے کہا: ان کا کوئی باپ نہیں ہے۔
امام (ع) نے فرمایا:
اس کا مطالب یہ ہوا کہ قرآن کی آیت کے مطابق اللہ نے مریم (س) کے ذریعے سے عیسیٰ کو اولاد ابراہیم میں شمار کیا ہے اور انہیں ان انبیاء کی نسل سے ملحق فرمایا ہے جو آل ابراہیمؑ ہیں۔ بس اسی طرح اللہ نے ہمیں ہماری والدہ فاطمہ (س) کے ذریعے رسول اللہ (ص) کی نسل سے ملحق فرمایا ہے۔ کہو تو اس بات کے اور قرآنی ثبوت دوں؟
ہارون نے کہا: جی ہاں، ضرور فرمائیے۔
چنانچہ امام (ع) نے آیت مباہلہ کی تلاوت فرمائی اور پھر فرمایا:
کسی (مفسر یا مورّخ) نے کبھی یہ نہیں کہا کہ رسول اللہ (ص) نجران کے نصارا کے ساتھ مباہلے کے لیے علیؑ بن ابی طالبؑ، فاطمہؑ اور حسنؑ و حسینؑ، کے سوا کسی اور کو مباہلہ کے لیے لے گئے ہوں۔ یا یہ کہ ان ہستیوں کے علاوہ کسی اور کو کساء کے نیچے جگہ دی ہو۔ پس آیت میں ہمارے بیٹوں ” ابنائنا ” سے مراد حسنؑ و حسینؑ، ہماری خواتین ” نسائنا ” سے مراد فاطمہؑ اور ہماری جانوں ” انفسنا ” سے مراد علیؑ بن ابی طالبؑ ہیں۔
پس خداوند نے آیت مباہلہ میں امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) کو رسول اللہ (ص) کے بیٹے قرار دیا ہے اور یہ صریح ترین ثبوت ہے اس بات کی کہ امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) اہل بیت (ع) رسول اللہ (ص) کی نسل اور ذریت ہیں۔
(تفسیر عیاشی اور تفسیر البرہان آل عمران:٦١ کے ذیل میں۔)
بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر…
بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…
بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…
بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…
دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…
مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…