اسلام کی اس چودہ سو سال سے بھی زیادہ کی تاریخ میں بہت سے فرقوں کا بننا اور بگڈنا دیکھا گیا ہے ۔ اس طویل عرصے میں بہت سے مختلف اور متضاد نظریات وجود میں آئے اور ان کے افکار نے مسلمانوں کی زندگی پر اپنے اثرات بھی چھوڑے ہیں.بعض نظریات کبھی کسی نئے فرقہ کے وجود کا سبب بنے تو کبھی کسی شخصیت کی ذاتی رائے بن کر ہی رہ گئے. آج عالمِ اسلام میں دو بڑے مسلک شیعہ اور سنّی ہیں.مگر اسلام کی ابتدائ تاریخ میں ایک گروہ ایسا پیدا ہوا تھا جو ان دونوں سے الگ تھا اور ان دونوں کو کافر سمجھتا تھا بلکہ اپنے علاوہ سب کو کافر سمجھتا تھا. اس گروہ نے چونکہ اہل تسننّ کے چوتھے خلیفہ اور شیعوں کے پہلے امام امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے خلاف بغاوت کی تھی اس لیے یہ دونوں فرقے ان لوگوں کو دین سے خارج مانتے ہیں اور ان کو تاریخ میں خوارج کے نام سے جانا جاتا ہے.
ایسا نہیں ہے کہ صرف اسی گروہ نے اس زمانے کے خلیفہ وقت حضرت علیؑ کے خلاف علمِ بغاوت بلند کیا تھا,حضرت علیؑ کے خلاف بغاوت کرنے والوں کی فہرست میں اور بھی نام ہیں مگر اہل تسننّ صرف خوارج کو ہی دین سے خارج جانتے ہیں…حالانکہ اُن کے یہاں جو خارجی کی تعریف بیان ہوتی ہے اس سے تو جنگ جمل میں اور جنگ صفّین میں جن لوگوں نے مسلمانوں کے خلیفہ کے خلاف لشکر کشی کی وہ بھی دین سے خارج ہیں.
ابن حجر عسقلانی اپنی کتاب فتح الباری میں اس گروہ کے بارے میں لکھتے ہیں:- “قاضی ابوبکر بن عربی نے فرمایا: خوارج کی دو قسمیں ہیں- جن میں سے ایک گروہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ……وہ تمام لوگ جو جنگ صفّین کے بعد جو تحکیم(arbitration)سے راضی ہوے سب کافر ہیں. اور دوسرا گروہ یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ جس شخص نے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کیا وہ کافر ہے اوروہ ہمیشہ جہنّم میں رہے گا…..”یہ خوارج کا عقیدہ ہے. اس کے مطابق مولا علیؑ, معاویہ, جنگ جمل میں اور جنگ صفّین میں شامل ہونے والے سب کے سب کافر ہیں. اُن کی صفات و علامت کے بارے میں ابن تیمیہ نے اپنی کتاب مجموع فتاوی میں یہ لکھا ہے”….فکانوا کما نعتہم النبیؐ “یقتلون اہل الاسلام ویدعون اہل الاوثان” وکفروا علیؑ ابن ابی طالبؑ و عثمان بن عفّان…….
“خوارج ایسے لوگ تھے جن کی صفت رسولؐ اکرم نے یہ بیان کی تھی کہ”-وہ اہل اسلام سے لڑیں گے اور بت پرستوں سے صلح کریں گے-” انہوں نے حضرت علیؑ ابن ابی طالبؑ اور عثمان بن عفّان اور کو اُن کا ساتھ دینے والوں کی تکفیر کی اور حضرت علیؑ کے خون کو مباح قرار دیتے ہوےانہیں شہید کیا…..پھر انہوں نے ہر اس شخص کی بھی تکفیر شروع کردی جنہوں نے اُن کی مخالفت کی…”
اگر آج ہم وہابیوں (جو اپنے آپ کو سلفی کہتے ہیں) کے عقائد پر نظر ڈالیں تو بعینہ اُن کا عقیدہ خوارج کی ہی طرح ہے. یہ بھی اپنے علاوہ کسی کومسلمان نہیں سمجھتے.ہر ایک مسلمان کے عمل میں اُن کو شرک دکھائی دیتا ہے. یہ لوگ بھی خوارج کی طرح ہی مولا علیؑ کے چاہنے والوں کے قتل کو مباح قرار دیتے ہیں اور انہیں بے گناہ, صرف شیعہ ہونے کے جرم میں قتل کردیتے ہیں. سعودی عرب کی وہابی حکومت بھی ,رسولؐ الله کے قولِ صادق کے مطابق جس میں آپ ؐ نے خوارج کی صفت کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کو اپنا دوست بناۓ ہوے ہے اور اپنے پڑوسی مسلمان حکومتوں سے بیر رکّھے ہے اور اُن سے جنگ کرنے پر آمادہ ہے۔
اگر خوارج کے عقائد اور اُن کی خصوصیات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اُنہوں نے نہ صرف یہ کہ سنّت نبویؐ سے بغاوت کی ہے بلکہ مسلمانوں کا خون بہانابھی جائز قرار دیا ہے۔ ابن تیمیہ نے خوارج کی مشہور خصوصیات بیان کرتے ہوۓ لکھا ہے”….خوارج میں دو خصوصیات ایسی ہیں جو انہی کا خاصّہ ہیں جن کی آڑ لے کر انہوں نے اہل اسلام کا اور اسلامی ریاست کا ساتھ چھوڑا:ایک یہ کہ انہوں نے سنّت سے انحراف کیا اور دوسرے یہ کہ “اُمور حسنہ” کو اُمور سیئہ” میں اور “اُمور سیئہ” کو “اُمور حسنہ” میں تبدیل کر دیا۔
ابن تیمیہ کی بات صحیح ہے مگر اِن صفات میں خوارج اکیلے نہیں ہیں بلکہ یہ الزام معاویہ پر بھی لگایا جاسکتا ہے کہ اُس نے اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت کی ہے اور بہت سے مسلمانوں کا خون بہایا ہے. اس کے دور میں بھی بہت سے امور سیئہ کو امور حسنہ بنایا گیا, مثلا امیر المومنین پر منبروں سے لعنت کرنا(معاذاللہ). افسوس ہے کہ مسلمان معاویہ کو خارجِ اسلام نہیں مانتے حالانکہ دراصل خوارج کو فروغ اسی نے دیا ہے تاکہ وہ خوارج امیرالمومنین کی اسلامی حکومت کو کمزور کردیں. مورخین کا ایک گروہ یہ بھی مانتا ہے کہ عبد الرحمان ابن ملجم (لعنت الله علیہ) ,جس خارجی نے مولا علیؑ کو شہید کیا, کو اس کام کےلئےمعاویہ کی مدد حاصل تھی.
مختصر یہ کہ جتنے گنہگار خوارج ہیں اتنے ہی گنہگار معاویہ اور اس کے ساتھی بھی ہیں. صرف خوارج کو برا کہہ کر معاویہ کو بچالینا خلافِ عدل ہے. دوسرے یہ کہ اس دور کے خوارج وہابی ہیں جو انہی کی طرح قرآن اپنے گلے میں لٹکائے ہیں اور عبادت کا ڈھونگ کرتے پھر تے ہیں.جبکہ ان کےہاتھ بہت سے بےگناہ مسلمانوں کے خون سے رنگین ہیں.
خدا وند عالم اسلام کو اِن کے فتنوں سے محفوظ رکّھے.
بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر…
بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…
بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…
بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…
دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…
مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…