الله نے انسانوں کی ہدایت کے لیےمسلسل انبیاء اور مرسلین بھیجے تاکہ وہ بنی آدم کو انسانیت کا درس دیں اور ان کا کردار اس بلندی پر لے جائیں کہ فرشتے ان کی خدمت کرنے پر فخر کریں۔ الله نے اپنے لطف و کرم کی بناپر ان انبیاء کے ساتھ ساتھ کتابیں بھی نازل فرمائیں۔ پھر قیامت تک کے انسانوں کی رہنمائ کے لیے خالقِ کائنات نے نورِ اوّل، خاتم المرسلین، سید الانبیاء حضرت محمّد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و الہ کو بشریت کی ہدایت کے لیے مبعوث کیا۔ آپؐ کو انسانوں کے لیے ‘اسوہ حسنہ’ بناکر بھیجا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و الہ وسلم مظہرِ خدا بن کر ظاہر ہوئے۔ قرآن نے رسول کی جو تصویر پیش کی ہے وہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ تمام انسانوں کے لیے نمونہء عمل ہے۔ آپؐ کی ذات کو ‘رحمة للعالمین’ کہا گیا۔ آپؐ کی گفتار کو ‘وٙحی یُوحیٰ’بتایا گیا۔ یہی چہرہ اسلام کا حقیقی چہرہ ہے۔ یہی وہ تصویر ہے جو مسلمانوں کو دنیا کے سامنے پیش کرنی چاہیے تھی۔
مگر افسوس بنی امیہ اور بنی عباس کے بادشاہوں نے اس تصویر کو مسخ کر کے پیش کیا، ان بادشاہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ کی وہ تصویر پیش کی جو خود ان دنیوی سربراہوں کی بد عملی کو جائز ثابت کرنےکا جواز بن سکے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقشِ قدم پر چلتے اور دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کرتے مگر ان بادشاہوں نے مسلمان علماء کی مدد سے اسلام کے حقیقی چہرے کو بگاڑ دیا۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ کی ایسی مسخ شدہ شکل پیش کی،جو خود ان کے کردار سے مطابقت رکھتی ہو۔ یہ بادشاہ بد کار تھے تو انھوں نے اپنی بدکاری کو صحیح بتانے کے لیے ایسی حدیثیں گڑھوائیں کہ یہ افعال سنّت نبوی میں ظاہر ہوں۔ یہ لوگ حکومت پرست درندے تھے تو انہوں نے اپنے ظلم و ستم کو صحیح ٹھہرانے کے لیےظالمانہ افعال رسولؐ اکرم سے منسوب کر دیے۔ پھر ان کتابوں کو مستند بنانے کے لیے ان کو مقدّس بنادیا گیا کہ یہ ‘صحیح’ کتابیں ہیں اور ان کی روایتوں کے متعلق سوال نہیں کیا جاسکتا۔ حالانکہ یہ روایات صریحًا قرآنی اصولوں کے منافی ہیں۔ اہل تسنن کی دو سب سے زیادہ معتبر کتابوں- صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں اس طرح کی متعدد روایتیں موجود ہیں۔ بطور نمونہ یہاں پر صرف ایسی ہی دو (جھوٹی) روایت بیان کر رہے ہیں۔صحیح بخاری (باب- گھر میں داخل ہونے کی اجازت لینا) اور صحیح مسلم (باب- کسی کے گھر میں جھانکنے کی ممانعت) ان دونوں میں یہ روایت انس بن مالک سے نقل ہوئ ہے کہ “ایک شخص رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ کے کسی ایک گھر میں جھانک رہا تھا۔ جب آنحضرت صلی الله علیہ والہ نے اسے دیکھاتو اس کی طرف بڑھے اور اس پر حملہ کردیا۔ یہ منظر میری آنکھ کے سامنے اب بھی ہےکہ کس طرح آپؐ نے تیر کی نوک چبھا کر اس کی آنکھ کو شدید زخمی کردیا تھا۔” غور طلب ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ جس کو کلام الٰہی ‘رحمتہ لا لعالمین’ کہہ رہا ہے ،اس سے نعوذباللہ ایسا عمل سرزد ہوگا ؟ ۔کسی عام انسان سے بھی ایسی توقع نہیں کی جاسکتی۔ ایسے موقع پر بہت ہوتا ہے تو جھانکنے والے کو ڈانٹ دیا جاتا ہے۔ اس طرح کی جھوٹی روایت سے ان کا مقصد تھا کہ وہ اپنے اس طرح کی سزا دینے کو جائز ثابت کر دیں۔
اسی طرح ایک دوسری فرضی روایت میں نعوذباللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ذریعہ کیا گیا ایک اور دوسرا تشدد بیان کیا گیا ہے-
صحیح بخاری جلد 7 صفحہ 13 پر اس طرح بیان کیا گیا ہے- ثابت کہتا ہے کہ مجھ سے انس بن مالک نے بتایا کہ: کچھ لوگ جو بیمار تھے رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ کے پاس آے اور اپنی شفایابی کے لیے درخواست کی۔ آنحضرتؐ نے ان سے کہا کہ وہ مسلسل اونٹنی کا دودھ اور پیشاب پیا کریں پھر انہوں نے اپنے چرواہے کو حکم دیا کہ ان لوگوں کو اونٹنی کا دودھ اور پیشاب پلائے۔ وہ لوگ چرواہے کے ہمراہ ہوگئے۔ جب ان کا مرض ٹھیک ہوگیا تو انھوں نے اس چرواہے کو قتل کردیا اور اس کی اونٹنیوں پر قبضہ کر لیا۔ جب رسولؐ خدا کو اس بات کا پتہ چلا تو آپؐ نے ان لوگوں کو گرفتار کروایا اور پھر خود ان کے ہاتھ پیر کاٹ ڈالے اور ان کی آنکھ کو لوہے کی سلاخوں سے نکال کر انھیں ایسے ہی دھوپ میں چھوڑ دیا۔ انس کہتا ہے میں نے ان میں سے ایک کو دیکھا کہ وہ زمین کو اپنی زبان سے چاٹ رہاتھا یہاں تک کہ وہ مرگیا”
اس طرح جب ہم غور کرتے ہیں تو یہی پاتے ہیں کہ ان روایتوں سے درندگی کی بو آتی ہے یہ باتیں سنت نبوی سے قطعی میل نہیں کھاتیں ۔یہ فرضی روایات تو ہو بہو انھیں سزاؤں کی یاد دلا رہی ہیں،جو بادشاہان بنی امیہ اپنے مخالفین کو دیتے تھے۔ سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ اس طرح کے فعل سے بہت بلند ہیں۔ آپؐ نے جنگ احد میں شہید اپنے چچا کے قاتل حبشی غلام اور اس کی مالکن ہند کو ان کے اسلام قبول کرنے کے بعد معاف کردیا۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ آپؐ کسی مسلمان کو اس طرح سزا دیں گے۔
یہی اسلام کا وہ چہرہ ہے جس کو دیکھ کر لوگ رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ کی شان میں گستاخیاں کرجاتے ہیں اور یہ الزام لگاتے ہیں کہ اسلام تلوار کے خوف سے پھیلا ہے۔
دوسرا بڑا نقصان ان جعلی روایات کا یہ بھی ہے کہ وہابی فکر سے مرعوب دہشت گرد اپنے مخالف مسلمانوں کو بھی اسی طرح دردناک سزائیں دیتے ہیں۔ ‘داعش’ ‘طالبان’ وغیرہ جو درندگی اسلام کے نام پر کرتے ہیں ان کا سر چشمہ یہی جعلی روایات ہیں۔ یہی اسلام کا بگاڑاہوا چہرہ ہے جو لوگوں کو ڈراتا ہے اور بجائے اپنے سے قریب لانے کے ان کو دور بھگا رہا ہے۔
بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر…
بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…
بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…
بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…
دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…
مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…