امام جعفر صادق علیہ السلام سے یہ روایت کتاب ‘الکافی’ میں موجود ہے کہ آپؑ نے فرمایا:
عن أبي عبد الله (ع) قال: إن الأشعث بن قيس شرك في دم أمير المؤمنين (ع) وابنته جعدة سمت الحسن (ع) ومحمد ابنه شرك في دم الحسين (ع).
یقینًا اشعث بن قیس امیرالمومنین ع کے قتل میں شریک تھا۔ اس کی بیٹی جعدہ نے امام حسنؑ کو زہر دیا اور اس کا بیٹا محمد بن اشعث کربلا میں امام حسینؑ کے قاتلوں میں شامل تھا۔
(الکافی ج ٨ – ص ١٦٧)
اس روایت سے آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ یہ پورا گھرانا دشمنِ اہلبیتؑ تھا۔
تاریخ بتاتی ہے کہ اشعث بن قیس کا شمار ان اصحاب پیغمبرؐ میں ہوتا ہے جنھوں نے ابتدا میں ابوبکر کی خلافت قبول نہیں کی تھی۔ مگر پھر حالات یوں بدلے کہ نہ صرف یہ کہ اشعث نے ابوبکر کو خلیفہ تسلیم کیا بلکہ ابوبکر نے اپنی ایک بیٹی سے اس کی شادی بھی کروادی۔ دوسری اور تیسری خلافت کے دور میں اشعث بن قیس الکندی آذربایجان کا گورنر تھا۔ مختصر یہ کہ اس شخص سے خلفاء ثلاثہ خوش رہتے تھے اور اس پر بھی حکومت کا رنگ چڑھا ہوا تھا۔ مگر جب تیسری خلافت ختم ہوئ اور خلافت کی باگ ڈور حضرت علیؑ کے ہاتھوں میں آئ تو آپؑ نے نااہل گورنروں کو معزول کرنا شروع کردیا۔ لہٰذا خلافت کی مسند پر بیٹھتے ہی حضرت علیؑ نے اشعث کو بھی آذربایجان کی گورنری سے برطرف کردیا اور اسے حکم دیا کہ وہ حکومت کے سارے اموال کو حضرت علیؑ کے سپرد کردے۔ اس بات سے ناراض ہوکر وہ شام جا کر معاویہ کا ساتھ دینے پر آمادہ ہوگیا مگر اس کی قوم و قبیلے کے لوگوں نے اسے اس بات سے روک دیا۔ (الامامہ و السیاسہ ج ١ ص ١١٢)
یہی تاریخی پس منظر تھا جس کی بنا پر اس دنیا پرست انسان نے نفسِ رسولؐ، شوہر بتول، ابو الحسنینؑ حضرت علیؑ ابن ابی طالبؑ کے قتل پر اس کو آمادہ کیا۔ یوں تو اس کا شمار اصحابِ رسولؐ میں ہوتا ہے مگر اشعث بن قیس الکندی کا برتاو مولائے کائنات کی حکومت میں اسی طرح تھا جس طرح عہد رسالت کے مشہور منافق عبد اللہ بن اُبیّ کا رویّہ تھا۔ وہ عوام کو امیرالمومنینؑ کی حکومت کے خلاف بھڑکاتا اور لوگوں کو معاویہ کے خلاف جنگ میں شامل ہونے سے روکتا۔ یہ خفیہ طور پر معاویہ سے ملا ہوا تھا۔ جب جنگ صفین میں معاویہ نے اپنی فوج کی شکست ہوتے دیکھا تو نیزے پر قرآن بلند کیا اور جنگ روکنے کی بات کی اور قرآن سے فیصلہ حاصل کرنے کا نعرہ بلند کیا۔ امیرالمومنینؑ اور ان کے باوفا اصحاب جنگ کو جاری رکھنے کے حق میں تھے تاکہ معاویہ کا برپا کیا ہوا فتنہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے۔ مگر اشعث اور اس کے ساتھیوں نے جنگ کو فورًا بند کرنے کی ٹھان لی۔ تو مولا علیؑ کو جنگ موقوف کرنی پڑی۔ اس کے بعد جو ہوا وہ تاریخ کے میں موجود ہے مگر حقیقت یہی ہے کہ معاویہ کی اس چال نے اور اشعث کے اس نفاق نے خوارج کی بنیاد رکھی۔
• قتلِ امیرِؑ کائنات (علیہ السلام) میں اشعث کی براہ راست شمولیت:-
• تاریخ بتاتی ہے کہ جب قاتل امام علیؑ (ع) عبد الرحمٰن ابن ملجم ملعون حضرت کو شہید کرنے کی غرض سے کوفہ آیا تو اشعث کے گھر پر ایک ماہ تک مقیم رہا۔
( تاریخ یعقوبی ج٢ ص ٢١٢)
• اسی دوران عبد الرحمٰن ابن ملجم مرادی نے اشعث کی مدد سے امام علیہ السلام کے قتل کا منصوبہ بنایا اور ماہ رمضان کی ایک صبح کو اپنے ناپاک ارادے پر عمل کرتے ہوئے امیرالمومنینؑ پر حملہ کیا۔ (الاصابہ ج ١، ص ٨٧)
تاریخی حوالوں میں اس بات کا ذکر بھی ملتا ہے کہ اس ملعون اشعث بن قیس اور اس کی اولاد کا تعلّق معاویہ اور بنی امیہ کے ساتھ رہا ہے۔ قرائن بتاتے ہیں کہ جس طرح معاویہ نے اشعث کی بیٹی کے ذریعے امام حسنؑ کو زہر دلوایا اسی طرح ابن ملجم (لعنت اللہ علیہ) اور اشعث کے ذریعے سے حضرت علیؑ کی شہادت کی سازش بھی رچی ورنہ خبر شہادت سن کر چشن منانے کے کیا معنی ہوتے ہیں؟!
-اللہم العنھم جمیعًا۔
بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر…
بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…
بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…
بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…
دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…
مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…