مذہب شیعہ میں منسب امامت کو ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ مکتب اہلبیتؑ میں امامت نبوّت کا لازمہ ہے۔ امام کو ‘عِدل النبی’ کہا گیا ہے یعنی امام کو وہی بزرگی حاصل ہے جو ایک نبی کو حاصل ہے۔ امامت کی منزلت کو سمجھنے کے لیے خود امام کی زبان سے ادا کیے ہوئے الفاظ سے زیادہ کیا فائدہ مند ہوسکتا ہے۔
یہ حدیث ثقۃ الاسلام جناب شیخ یعقوب كلینی علیہ الرحمہ نے اپنی گراں قدر كتاب ‘الكافی’ میں نقل فرمائی ہے۔ امام كی صفات عصمت كی زبان سے سنتے ہیں۔
عبدالعزیز بن مسلم كا بیان ہے۔ حضرت امام علی رضاؑ ’’مرو‘‘ میں قیام پذیرتھے ابتدائی دنوں میں بروز جمعہ مسجد میں ایك جلسہ تشكیل دیا۔ حاضرین نے امامت كے موضوع پر بحث شروع كی اور آپس میں كافی زیادہ اختلاف رونما ہوئے ۔
میں حضرت امام علی رضاعلیہ السلام كی خدمت میں حاضر ہوا اور لوگوں كی گفتگو بیان كی۔ حضرتؑ نے مسكرا كر فرمایا۔
“اے عبدالعزیز!! یہ لوگ حقیقت سے ناواقف ہیں اور اپنے نظریات كو صحیح خیال كرتے ہوئے دھوكہ میں ہیں۔ خداوند عالم نے اپنے پیغمبر اكرم (ص) كی روح اس وقت تك قبض نہیں كی جب تك دین كو كامل نہیں كردیا۔ ان پر قرآن نازل كیا جس میں ہر چیز كا بیان ہے اور حلال و حرام كی وضاحت ہے۔ حدود احكام اور لوگوں كی ضرورت كی تمام چیزیں اس میں موجود ہیں۔ جیسا كہ خداوند عالم كا ارشاد ہے۔ ’’ہم نے قرآن میں كوئی چیز فروگذاشت نہیں كی ہے۔‘‘
(سورہ انعام، آیت ۳۸)
حجۃ الوداع كے موقع پر جوحضرت رسول خدا (ص) كی زندگی كا آخری سال تھا۔ اس وقت یہ آیت نازل فرمائی۔
’’آج تمہاری خاطر دین كو كامل كردیا، اپنی نعمتیں تم پر تمام كردیں اور تمہارے لئے دین اسلام كو پسند كیا۔‘‘
(سورہ مائدہ، آیت ۳)
امامت تكمیل دین ہے۔ رسول خدا (ص) اس وقت تك دنیا سے رخصت نہیں ہوئے جب تك دین كی تعلیمات امت كے لئے واضح نہیں كردیں، راستے روشن نہیں كردئے، اور امت كو شاہراہ حق پر كھڑا كردیا۔ اور حضرت علی علیہ السلام كو امت كے لئے پیشوا اور امام معین كیا امت كی ضرورت كی ساری چیزیں بیان كردیں۔ جو یہ خیال كرتا ہے كہ خداوند عالم نے اپنا دین كامل نہیں كیا وہ خدا كی كتاب كا انكار كرتا ہے اور جو خدا كی كتاب كو رد كرے وہ كافر ہے۔
كیا لوگ امامت كی قدر و منزلت سے واقف ہیں اور ان كو معلوم ہے كہ (نظام) امت میں اس كی كیا اہمیت ہے؟ تاكہ لوگ اپنی مرضی سے كسی كا انتخاب كر سكیں اور كسی كو اپنے لئے اختیار كرسكیں؟
یقیناً امامت اعلیٰ قدر، عظیم الشان، بلند مكان اور جلیل منزلت ہے۔ اس قدر عمیق ہے كہ اس كی تہوں تك كسی عقل كی رسائی ممكن نہیں ہے، انسانی نظریات كی وہاں تك پہنچ نہیں ہے (جب لوگ امامت كی قدر و منزلت سےواقف نہیں ہیں تو كس طرح) یہ لوگ اپنے لئے كسی كو امام معین كرسكتے ہیں؟
امامت اس قدر عظیم منزلت ہے كہ خداوند عالم نے نبوت اور خلت كے منصب جلیل كے بعد جناب ابراہیمؑ كو امامت كا عظیم منصب عطا فرمایا اور ان كی منزلت و رفعت میں اضافہ كیا ان كے نام كو بلند كیا اور فرمایا:
’’میں نے تم كو لوگوں كا امام قرار دیا۔‘‘
(سورہ بقرہ، آیت ۱۲۴)
حصول منزلت امامت سے شاد و مسرور ہوكر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا كی بارگاہ میں عرض كی ’’و من ذریتی‘‘ کیا میری نسل میں بھی امام ہوں گے؟ خداوند عالم نے جواب دیا “میرا عہدہ و منصب ظالموں كو نصیب نہیں ہوگا۔” اس آیت نے صبح قیامت تك ہر ظالم كی امامت كو باطل كردیا اور صرف پاكیزہ اور منتخب افراد سے مخصوص قرار دیا۔ خداوند عالم نے جناب ابراہیم ؑ كو ایك اور فضیلت عطا فرمائی ہے كہ ان كی ذریت میں پاكیزہ اور منتخب افراد قرار دیئے جیسا كہ ارشاد فرمایا:
’’ہم نے ان كو اسحاق اور اسحاق كے بعد یعقوب عطا كئے اور ہم نے ہر ایك كو نیكوكار قرار دیا۔ ہم نے ان كو امام قرار دیا یہ ہمارے امر سے ہدایت كرتے ہیں۔” تمام نیك اعمال – قیام نماز، ادائے زكوٰۃ كی ان كی طرف وحی كی اور یہ سب ہمارے عبادت گذار تھے۔‘‘
(سورہ انبیاء، آیت ۷۲)
اس طرح ہمیشہ امامت ان كی ذریت میں رہی، وہ ایك دوسرے كے وارث بنتے رہے ایك كے بعد ایك آتے رہے یہاں تك كہ خداوند عالم نے ہمارے نبی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كو اس كا وارث قرار دیا۔ اس سلسلے میں ارشاد فرمایا:
’’جناب ابراہیمؑ سے سب سے زیادہ نزدیك اور سزا وار وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان كی پیروی كی اور یہ نبیؐ اور وہ لوگ جو ایمان لائے، اور خدا تو مؤمنین كا ولی ہے۔‘‘
(سورہ آل عمران، آیت ۶۸)
لہٰذا امامت آنحضرت (ص) سے مخصوص تھی اور آنحضرتؐ نے خدا كے حكم سے اور اس كے بتائے ہوئے انداز سے یہ امامت حضرت علی علیہ السلام كے حوالے كر دی۔
پھر ان كی ذریت میں منتخب افراد آتے رہے جن كو خداوند عالم نے علم و ایمان عطا كیا اور اس سلسلے میں ارشاد فرمایا:
’’جن كے پاس علم و ایمان تھا انہوں نے كہا تم قیامت تك خدا كی كتاب كے مطابق زندگی بسر كرتے رہے۔‘‘
(سورہ روم، آیت ۵۶)
امامت قیامت تك حضرت علی ؑ كی اولاد میں رہے گی۔ اب محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے بعد كوئی نبی نہیں ہے۔ تو یہ جاہل افراد كس طرح اپنی طرف سے امام منتخب كرسكتے ہیں؟
بے شك امامت انبیاء كی منزلت اور اوصیاء كی میراث ہے یقینا امامت خدا كی خلافت اور رسول خدا (ص) كی جانشینی ہے۔ یہ امیر المؤمنینؑ کا مقام ہے۔ یقیناً امامت دین كی زمام، مسلمانوں كانظام، دنیا كی نیكی اور مؤمنین كی عزت ہے۔ یقیناً امامت سرسبز و شاداب اسلام كی اساس اور اس كی بلند شاخ ہے۔ امام كی بدولت نماز، زكوٰۃ، روزہ، حج اور جہاد كامل و تمام ہوتا ہے امام كی خاطر غنیمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ صدقات فراوان ہوتے ہیں حدود جاری كی جاتی ہیں۔ احكام نافذ ہوتے ہیں۔ سرحدوں كی حفاظت ہوتی ہے۔ مضافات كی نگہداری ہوتی ہے۔
امام خدا كے حلال كو حلال، خدا كے حرام كو حرام كرتا ہے۔ حدود قائم كرتا ہے خدا كے دین کی دفاع كرتا ہے۔ اور خدا كے راستے كی طرف حكمت، موعظہ حسنہ اور حجت بالغہ سے دعوت دیتا ہے۔
امام روشن سورج كی طرح ہے جس كے نور سے ساری دنیا منور ہے یہ افق كی اس بلندی پر ہے جہاں لوگوں كے ہاتھوں اور بصارت كا گذر نہیں ہے۔ امام تابندہ چاند، روشن چراغ، پھیلتا نور، رات كی تاریكیوں میں، شہروں كی رہگذر میں، بیابانوں كی وادیوں میں سمندر كی موجوں میں روشن ستارہ ہے۔
امام تشنہ لب كے لئے نہایت خوشگوار پانی ہے، ہدایت كی جانب بہترین رہنما اور ہلاكتوں سے نجات دینے والا ہے۔
امام— پہاڑ كی چوٹیوں پر روشن آگ ہے (تاكہ دور سے بھی لوگ اس كی طرف آسكیں اور ہدایت حاصل كرسكیں)، ٹھنڈك سے ٹھٹھرتے لوگوں كے لئے گرمی كا سبب ہے۔ ہلاكتوں كی جگہوں پر بہترین رہنما ہے۔ جو امام سے جدا ہو گیا وہ ہلاك ہوگیا۔
امام— برسنے والا بادل، موسلا دھار بارش، روشن سورج، سایہ دار آسمان، وسیع زمین، ابلتا چشمہ، جھیل اور گلستاں ہے۔
امام— مانوس دوست، شفیق باپ، مہربان بھائی، چھوٹے بچوں كے لئے رحمدل ماں، سخت مشكلات میں بندگان خدا كی پناہ گاہ ہے۔
امام— خدا كی مخلوقات میں خدا كا امانتدار، بندگان خدا پر اس كی حجت، سر زمین پر خدا كا خلیفہ، خدا كی طرف دعوت دینے والا، حقوق خدا كی حفاظت كرنے والا ہے۔
امام— تمام گناہوں سے پاك و پاكیزہ، ہر عیب سے مبرا، علم سے مخصوص، حلم سے مشہور، دین كا نظام، مسلمانوں كی عزت، منافقوں كے لئے غیض و غضب اور كافروں كی ہلاكت ہے۔
امام— یگانہ روز گار، كوئی اس كے برابر نہیں، كوئی دانشمند اس كا ہمسر نہیں، اس كا بدل ممكن نہیں اس كی كوئی مثال و نظیر نہیں۔ بغیر طلب كئے تمام فضیلتیں اس سے مخصوص ہیں۔ كیونكہ فضیلت عطا كرنے والے خدا نے ساری فضلتیں اس كی ذات كے لئے قرار دی ہیں۔
كون ہے جو امام كی پوری طرح معرفت حاصل كرسكتا ہے؟
كون ہے جو امام كو منتخب كرسكتا ہے؟
افسوس افسوس عقلیں گمراہ ہوگئیں دانشمندیاں راستہ بھٹك گئیں۔ خرد مندیاں حیران ہوگئیں۔ بصارتیں بےنور ہوگئیں۔
صاحبان عظمت اس كے سامنے پست، صاحبان حكمت حیراں، صاحبان خرد اس كے سامنے كوتاہ فكر، صاحبان عقل اس كے سامنے جاہل، صاحبان شعر گونگے، صاحبان ادب عاجز صاحبان بلاغت ناتواں نظر آتے ہیں۔ كس میں یہ مجال اس كی ایك شان كو اجاگر كرسكے یا كوئی ایك فضیلت بیان كرسكے؟ (جب امام كی حقیقت سے واقف نہیں ہیں) تو كس طرح امام كا جانشین بناسكتے ہیں جوان كو امام سے بے نیاز كردے۔ نہیں ہوسكتا ہرگز نہیں ہوسكتا۔
امام ستارے کی طرح لوگوں کی پہنچ اور صفت بیان کرنے والوں کی مدح سرائی سے بہت بلند ہے۔ کہاں امام کہاں انسانوں کا انتخاب!!
کہاں عقل و خرد کی رسائی امام کی طرح دوسرا کہاں ممکن ہے؟
کیا تم لوگ یہ خیال کرتے ہو کہ ان صفات و خصوصیات کا حامل امام آل محمد علیہم السلام کے علاوہ کہیں اور مل سکتا ہے؟
خدا کی قسم خود اپنے آپ سے جھوٹ بول رہے ہو۔ بے کار کی تمنا کررہے ہو ڈرو ایسی بلندی سے جہاں اگر قدم پھسلے تو سیدھے گہری کھائیوں میں گروگے وہ لوگ اپنی ناقص اور حیران و سرگرداں عقل کے سہارے امام معین کرنا چاہتے ہیں۔ جتنا کوشش کریں گے اتنا ہی حقیقت سے دور ہوتے چلے جائیں گے۔ ’’خدا انہیں غارت کرے کہاں بھٹک رہے ہیں۔‘‘ بڑی سخت چیز کا ارادہ کیا ہے۔ جھوٹ سے کام لیا ہے اور بری طرح گمراہ ہوگئے ہیں۔ حیرتوں میں گر پڑے ہیں۔ کیونکہ آنکھ رکھتے ہوئے امام حق سے روگردانی کی تھی۔
’’شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے لئے سجا کر پیش کیا تھا اور ان کو راستے سے منحرف کردیا جب کہ یہ لوگ خود بصیرت رکھتے تھے۔‘‘
(سورہ عنکبوت، آیت ۳۸)
جس کو خدا و رسولؐ اور اہل بیت علیہم السلام نے منتخب کیا تھا اس سے منہ موڑ لیا اور اپنے انتخاب کردہ کو تسلیم کرلیا۔ جب كہ قرآن آواز دے رہا تھا۔
’’آپ کا رب جوچاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے منتخب کرتا ہے۔ اس سلسلے میں لوگوں کو کوئی اختیار نہیں ہے خداوند عالم ان باتوں سے پاکیزہ اور بلند ہے جس کو یہ لوگ شریک قرار دیتے ہیں۔‘‘
(سورہ قصص، آیت ۶۸)
خداوند عالم نے یہ بھی ارشاد فرمایا:
’’جب خدا اور رسول کسی بات کا فیصلہ کردیں تو کسی مؤمن مرد اور کسی مؤمن عورت کو اپنے امور میں کوئی اختیار نہیں ہے۔‘‘
(سورہ احزاب، آیت ۳۶)
یہ بھی فرمایا:
’’تم کس طرح کے فیصلے کررہے ہو۔ کیا تمہارے پاس کوئی آسمانی کتاب ہے جس میں یہ باتیں تم پڑھتے ہو، جو کچھ تم نے چاہا تم نے وہ لکھا ہے۔ کیا ہمارے اوپر تمہارا کوئی حق ہے کیا قیامت تک کوئی قسم ہے کہ اس طرح اپنے مفاد کے لئے بے بنیاد حکم کیا کرتے ہو۔ ان سے دریافت کیجئے اس کاکوئی ذمہ دار ہے۔ آیا ان کے پاس کوئی گواہ ہے اگر سچے ہیں تو گواہ پیش کریں۔‘‘
(سورہ القلم، آیت ۳۶-۴۱)
خداوند عالم کا ارشاد ہے۔
’’قرآن میں غورو فکر کیوں نہیں کرتے کیا ان کے دلوں پر تالے لگے ہوئے ہیں۔‘‘
(سورہ محمد، آیت ۲۴)
’’کیا خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے کہ یہ سمجھتے نہیں ہیں۔‘‘
(سورہ التوبہ، آیت ۸۷)
یا صرف یہ کہتے ہیں کہ ہم نے سنا در آنحالیکہ وہ سنتے نہیں ہیں۔ خدا کے نزدیک سب سے بدتر چوپایہ۔ گونگے اور بہرے ہیں جو کچھ سمجھتے ہی نہیں ہیں۔
’’اگر خدا کوان میں کسی اچھائی کا علم ہوتا ہے تو ان کو ضرور سُنواتا اگر ان کو سنوابھی دیتا تب بھی یہ پشت کرلیتے اور منہ موڑ لیتے۔‘‘
(سورہ انفال، آیت ۲۱-۳۳)
’’یا ان لوگوں کا کہنا ہے کہ ہاں ہم نے سنا اور نافرمانی کی۔‘‘
(سورہ بقرہ، آیت ۹۳)
امامت اکتسابی منصب نہیں ہے بلکہ
’’یہ تو خداوند عالم کا فضل ہے وہ جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔‘‘
(سورہ الجمعہ، آیت ۴)
یہ لوگ کس طرح امام کا انتخاب کرسکتے ہیں؟
کیونکہ
امام وہ عالم ہے جہاں جہالت کا گذر نہیں۔ وہ محافظ ہے جس کے پیچھے ہٹنے کا امکان نہیں۔ وہ قداست و طہارت، عبادت، زہد و علم و طاعت کا معدن ہے پیغمبر اکرم ؐ کا پیغام اس سے مخصوص ہے، جناب زہرا کی پاک و پاکیزہ نسل سے ہے۔ نسب میں کوئی لوچ نہیں کوئی صاحب حسب اس کے برابر نہیں قریش کے خاندان سے، ہاشم کی بلند منزلتوں سے، رسول خدا کی عزت سے، خداوند عالم کی رضا و خوشنودی سے اس کا تعلق ہے۔ شریفوں کا شرف ہے عبدمناف کی سرسبز شاخ ہے۔ اس کا علم نمودار ا سکا حلم کامل ہے، امامت میں قوی سیاست میں ماہر ہے، اس کی اطاعت واجب ہے، خدا کے حکم سے قائم ہے، بندگان خدا کے لئے نصیحت کرنے والا ہے۔ دین خدا کا محافظ ہے۔
بے شک انبیاء اور ائمہ صلوات اللہ علیہم ، کو خدا توفیقات عطا کرتا ہے، اپنے علم و حکمت کے وہ خزانے عطا کرتا جو دوسروں کونہیں دیتا ہے۔ اس بنا پر ان کا علم زمانہ والوں کے علم پر فوقیت رکھتا ہے۔
خداوند عالم کا ارشاد ہے۔
’’جو حق کی طرف ہدایت کرتا ہے وہ پیروی کا زیادہ مستحق ہے بہ نسبت اس شخص کے جو ہدایت نہیں کرتا بلکہ خود ہدایت کا محتاج ہے۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے۔ کس طرح فیصلے کرتے ہو۔‘‘
(سورہ یونس، آیت ۳۵)
خداوند عالم کا یہ بھی ارشاد ہے۔
’’جس کو حکمت دے دی گئی اس کو خیر کثیر دے دیا گیا۔‘‘
(سورہ البقرہ، آیت ۲۶۹)
خداوند عالم نے جناب طالوت کے بارے میں فرمایا:
’’بے شک خداوند عالم نے ان کو تمہارے لئے منتخب کیا ہے علم و جسم میں وسعت دی ہے خدا جسے چاہتا ہے اسے مملکت عطا کرتا ہے خدا صاحب وسعت و علم ہے۔‘‘
(سورہ بقرہ، آیت ۲۴۷)
خداوند عالم نے اپنے پیغمبر اکرمؐ سے ارشاد فرمایا:
’’آپ پر کتاب اور حکمت نازل کی جن چیزوں سے آپ واقف نہیں تھے وہ باتیں آپ کو تعلیم دیں آپ پر خدا کا بہت زیادہ فضل و کرم ہے۔‘‘
(سورۃ النساء، آیت ۱۱۳)
اپنے نبی کریمؐ کے اہلبیت اور ان کی عزت و ذریت صلوات اللہ علیہم کے بارے میں ارشاد فرمایا:
’’کیا لوگ اس پر حسد کرتے ہیں جو خدا نے (انھیں) اپنے فضل و کرم سے عطا کیا ہے۔ ہاں یقینا ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت عطا کی اور ان كو ملک عظیم دیا ہے۔ تو کچھ لوگ ان پر ایمان لائے اور بعض نے ان سے منہ موڑ لیا ہے جہنم کی دہکتی ہوئی آگ ان کے لئے کافی ہے۔‘‘
(سورہ النساء، آیت ۵۴)
جب خداوند عالم کسی بندہ کو اپنے بندگان کی اصلاح کے لئے منتخب کرتا ہے خدا اس کے قلب کو کشادہ کردیتا ہے۔ اس کے دل میں حکمت کے سرچشمہ ودیعت کردیتا ہے۔ اسے الہامی علم عطا کرتا ہے۔ جس کے بعد وہ کسی بھی چیز کے جواب میں عاجز نہیں ہوتا ہے، سیدھے راستہ سے منحرف نہیں ہوتا ہے۔ وہ معصوم ہوتا ہے خدا کی جانب سے تائید شدہ، توفیق یافتہ ہوتا ہے۔ خطاؤں سے لغزشوں سے اور غلطیوں سے محفوظ ہوتا ہے۔ خدا یہ تمام خصوصیات اس لئے عطا فرماتا ہے تاکہ وہ اللہ کے بندوں پر خدا کی مکمل حجت ہو مخلوقات پر گواہ ہو اور
’’یہ خداوند عالم کا فضل و کرم ہے جس کو چاہتا ہے اپنے فضل سے نوازتا ہے اور خدا بڑا فضل والا ہے۔‘‘
(سورۃ الجمعہ، آیت ۴)
کیا لوگوں میں اتنی لیاقت و صلاحیت ہے کہ ان خصوصیات کے حامل کسی فرد کو منتخب کرسکیں؟
جس کو انہوں نے منتخب کیا ہے اس میں یہ خصوصیات موجود ہیں؟
تاکہ ان کو اپنا رہنما قرار دے سکیں؟
خدا کی قسم ان لوگوں نے اپنے حق سے تجاوز کیا ہے۔ خدا کی کتاب کو اس طرح پس پشت ڈال دیا ہے گویا اس سے واقف ہی نہیں ہیں۔
جب کہ خدا کی کتاب میں (ہر گمراہی و ضلالت) سے ہدایت ہے اور (ہر مرض کی) شفا ہے ایسی (عظیم) کتاب کو دور پھینک دیا اور اپنے خواہشات نفس کی پیروی کی۔
خدا نے ان لوگوں کی مذمت کی ہے اور ان کو اپنا دشمن قرار دیا ہے اور ان کے لئے تباہی و بربادی معین کی ہے خداوند عالم کا ارشاد ہے۔
’’اس شخص سے زیادہ گمراہ کون ہوگا جو خدا کی ہدایت سے ہٹ کر اپنی خواہشات کی پیروی کرے۔ یقینا خداوند عالم ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا ہے۔‘‘
(سورہ القصص، آیت ۵۰)
اور یہ بھی ارشاد فرمایا:
’’افسوس اور تباہی ہے ان کے حال پر ان کے سارے اعمال برباد ہوگئے۔‘‘
(سورہ محمد، آیت ۸)
خدا نے یہ بھی فرمایا ہے:
’’خدااور صاحبان ایمان کے نزدیک اس طرح کے لوگ سب سے زیادہ عذاب اور دشمنی کے مستحق ہیں۔ خداوند عالم اس طرح ہر متکبر اور جابر کے دل پر مہر لگا دیتا ہے۔‘‘
(سورۃ غافر، آیت ۳۵)
خدا کا درود و سلام ہو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کی آل پاک پر
وَ صَلَّی اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ مُحَمَّدٍ وَ آلِہٖ وَ سَلَّمَ تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا
(اصول کافی، کتاب الحجۃ، باب ’’نادر جامع فی فضل الامام و صفاتہ‘‘ حدیث اول، کافی، ج۱)
بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر…
بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…
بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…
بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…
دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…
مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…