ایک قدیم کہاوت ہے “جسکی لاٹهی اسکی بهینس” اور یہ کہاوت معرکہ کربلا پر پوری طرح سے صادق آتی ہے۔ یہ کب ہوتا ہے، جب حاکم وقت اپنی من مانی کرنا چاہتا ہے اور جو کوئی بهی اس کے راستہ میں آئے اسے بے دردی سے کچل دیتا ہے۔ جس پر ظلم کیا گیا یا جسے قتل کیا گیا اس کی شخصیت کے لحاظ سے اگر ضرورت ہوتو اس کے خلاف ایک مہم، نشرو اشاعت کے ذریعہ شروع کر تا ہے تاکہ اپنے آپ کو سچا اور مخالف کو جهوٹا ثابت کرسکے۔
یزید ملعون نے بهی امام حسین عليه السلام کے قتل کو جائز قرار دینے کے لئے بالکل یہی عمل کیا اس فرق کے ساتھ کہ اس عمل میں اس کا باپ معاویہ ابن ابی سفیان بهی اُس وقت سے شامل تها جِس وقت سے اس نے حاکم شام بننے میں رد و بدل کی جس کی بناء پر بنی امیہ اسلام کے محافظ اور سردار تصور کئے گئے جبکہ بنی هاشم جو حقیقت میں الٰہی نمائندے تهے باغی اور کافر (نعوذ با لله) کے طور پر پیش کئے گئے۔
معرکہ کربلا کے اختتام پر یزید ملعون یہ سمجها کہ جنگ پوری ہو گئی ہے۔ لیکن اس بات کو سمجهنے میں ناکام رہا کہ جنگ ابهی پوری نہیں ہوئی تهی بلکہ جنگ جاری تهی جس کا ثبوت وہ سفر تها جسے امام حسین عليه السلام کے خانواده کو جن میں بیمار معصوم بچے اور مستورات بهی تهیں کربلا سے کوفہ اور کوفہ سے شام تک طے فرمانا تها۔
امام زین العابدین کے ہاتهوں ایک ناصبی کا مؤمن ہونا۔
یہاں پر ہماری گفتگو کا مقصد یہ نہیں ہے کہ ان گوشوں کو اُبهارا جائے مگر کس طرح عبید الله ابن زیاد ملعون اور یزید ملعون کو ذلیل ہونا پڑا، ہم تو صرف ایک دلچسپ واقعہ پر روشنی ڈالنا چاہتے ہیں جو اُس وقت وقوع پذیر ہوا جب امام سجاد عليه السلام یزید ملعون کے دربار جاتے ہوۓ بازار شام میں ایک ناصبی سے گفتگو کی تهی۔
جب اہل حرم کو اسیر کر کے شام میں لایا گیا اور شام کی ایک مسجد کے قریب روکا گیا، ایک بوڑها شامی آگے بڑها اور کہنے لگا “شکر ہے اس خدا کا جس نے تم لوگوں کو ہلاک کیا اور بغاوت کی آگ کو بجهایا” (نعوذ بالله) اور اہل حرم کو مسلسل بے عزت کرتا رہا اور الٹی سیدهی باتیں کہتا رہا۔
امام: میں نے تمھاری باتیں سنی اور جتنے بهی بغض و حسد اور کینہ کی آگ تمھارے دل میں تهی اس کو تم نے اگل دیا۔ لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ جس طرح سے میں نے تمھاری باتیں سنی تم بهی میری بات غور سے سنو۔
شامی : جی فرمائیے
امام : کیا تم نے قرآن پڑها ہے؟
شامی : ہاں پڑھا ہے
امام : کیا تم نے اس آیت کو بهی پڑها ہے؟
قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ (سوره شورٰی آیت ۲۳)
اے رسول خدا! آپ کہہ دیجئے کہ میں تم لوگوں سے کوئی اجر نہیں چاہتا ہوں سوائے یہ کے میرے اہل بیت سے محبت کرو۔
شامی: ہاں پڑهی ہے۔
امام: وہ رسول خدا کے قریبی رشتے دار ہم ہی ہیں۔ کیا تو نے قرآن میں اُس حق کے بارے میں پڑها ہے جو صرف اور صرف ہمارے بارے میں ہے اور دوسرے مسلمانوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں؟
شامی: نہیں پڑها۔
امام: کیا تو نے یہ آیت نہیں پڑهی ” وَآتِ ذَا الْقُرْبَىٰ حَقَّهُ” – اور قرابت داروں کو ان کا حق دے دیجئے
شامی: جی ہاں پڑها
امام: ہم وہی ہیں جن کے بارے میں الله نے اپنے نبی کو حکم دیا ہمارے حقوق کا خاص خیال رکهیں انهیں محترم جانیں۔
شامی: کیا آپ وہی لوگ ہیں؟
امام: ہاں! پهر امام نے پوچها کیا تو نے یہ آیت نہیں پڑهی؟
وَاعْلَمُوا أَنَّمَا غَنِمْتُم مِّن شَيْءٍ فَأَنَّ لِلَّـهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ (سوره انفال آیت ٤١)
یہ جان لو جو کچه تمہیں مال غنیمت ملے تو اس میں سے پانچواں حصہ خدا، رسول اور قرابت داروں کا حق ہے۔
شامی: ہاں پڑها ہے۔
امام: وہ قرابت دار ہم ہی ہیں پهر امام نے پوچها کیا تو نے سوره احزاب کی وہ آیت نہیں پڑهی جو ہمارے حق کے بارے میں ہے اور دوسرے مسلمانوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے؟
شامی: نہیں
امام: تو نے یہ آیت نہیں پڑهی…؟
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا (سوره أحزاب آیت ۳۳)
خدا نے یہ اراده کرلیا ہے کہ اے اهل بیت ! وہ تم کو ہر قسم کی نجاست اور پلیدگی سے دور رکهے اور اس طرح پاک و پاکیزه قرار دے جو پاک و پاکیزه قرار دینے کا حق ہے۔
یہ سننا تها کہ بوڑھے شامی نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹها کر تین مرتبہ کہا:
خدایا! میں نے توبہ کی اور میں اهل بیت عليهم السلام کی دشمنی سے بهی توبہ کرتا ہوں، بار الٰہا میں ان لوگوں سے بیزار ہوں کہ جنہوں نے اهل بیت عليهم السلام کو قتل کیا۔ میں نے اس سے پہلے بهی بارها قرآن پڑها تھا مگر حقایقِ قرآن سے آشنا نہ تها۔
● الاحتجاج، شیخ طبرسی جلد ٢، صفحات ٣٠٧-٣٠٨
● بحار الأنوار، علامہ مجلسی جلد ٤٥، صفحہ ١٦٦
بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر…
بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…
بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…
بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…
دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…
مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…