کسی بھی شخص کو دیا گیا لقب اس کی صفت یا اس کے منصب کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ بعض اوقات کچھ افراد اپنے نام سے زیادہ اپنے لقب سے جانے پہچانے جاتے ہیں، کیونکہ وہ صفت اس شخص میں اتنی زیادہ ابھر کر ظاہر ہوتی ہے کہ لوگ اس کا اصل نام بھول جاتے ہیں اور اس کا لقب ہی اس کی شناخت بن جاتا ہے۔ اسی طرح کچھ افراد کسی منصب پر پہنچ کر اس کی ذمہ داریوں کو ایسی حسن خوبی سے ادا کرتے ہیں کہ وہ منصب ان کے ساتھ منسلک ہوجاتا ہے۔اور اس بات کی بھی اپنی اہمیت ہے کہ یہ لقب اس شخص کو کس نے دیا ہے۔ بعض اوقات عوام الناس میں سے کچھ لوگ کسی خاص شخص کی خدمات کی وجہ سے یا کسی صفت کی بناپر اسے کوئ نام دے دیتے ہیں اور یہی نام اس کا لقب بن جاتا ہے۔ بعض اوقات کوئ صاحب کمال شخصیّت کسی دوسرے شخص کے کمال کو پہچان کر اسے کسی لقب سے نوازتا ہے تو اس کی اہمیت اور زیادہ ہوتی ہے۔
مولاءے کائنات حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے سارے القاب الله کے عطا کیے ہوئے ہیں۔ اور یہ انسان کے بس کا ہے بھی نہیں کہ وہ اُن کی شخصیّت کو پہچان سکے۔ اسی وجہ سے حضرت سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو القاب اپنے وصی اور خلیفہ بلافصل کے بتائے ہیں ان کو کوئ درک نہیں کرسکتا۔ آپ علیہ السلام کے کمالات اور فضائل اتنے ہیں کہ لفظوں میں ان کو بیان نہیں کیا جاسکتا۔ رسول الله صلی اللہ علیہ و الہ وسلم نے علی علیہ السلام کے بہت سے القاب بیان کیے ہیں مثلاً یعسوب الدین، غر المحجلین، سیف الله، فاروق اعظم، صدیق اکبر، امیر الموءمنین، وغیرہ۔ حضرت علی علیہ السلام کے سارے القاب صرف ان ہی کو زیب دیتے ہیں۔ مگر لوگوں نے ان کے القاب اپنے رہبروں پر فٹ کرنے کی کوشش کی ہے۔ لوگ ان کے القاب- صدیق اکبر اور فاروقِ اعظم کو نااہل لوگوں کے لیے استعمال کرنے لگے۔ اسی طرح ان کے ایک خاص لقب ‘امیر الموءمنین’ کی بھی چوری کی گئ ہے۔
کتاب وسائل الشیعہ میں شیخ حر العاملی نے ایک باب اسی نام سے موسوم کیا ہے۔ اس میں ایک حدیث میں ملتاہے کہ ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو امیر الموءمنین کہہ کر خطاب کیا جس پرامام علیہ السلام نے اس کی سرزنش کی۔
روایت اس طرح سے ہے-
دخل رجل على أبي عبد الله عليه السلام فقال: السلام عليك يا أمير
المؤمنين، فقام على قدميه فقال: مه هذا اسم لا يصلح إلا لأمير المؤمنين،
عليه السلام سماه الله به،…….
وسائل الشیعہ جلد 14 صفحہ 600
ایک شخص امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا ان کو اس طرح سلام کیا :” السلام علیک یا امیر الموءمنین” اے موءمنوں کے امیر آپ پر سلام ہو۔ امام علیہ السلام نے اس سے منع فرمایا کہ یہ لقب صرف(حقیقی) امیر الموءمنین
(علی ابن ابی طالب علیہ السلام) کے لیے مخصوص ہے – الله نے یہ لقب ان کو عطا کیا ہے (اور صرف ان کے لیے مخصوص کیا ہے)
اسی باب میں ایک اور حدیث میں اس طرح نقل ہوا ہے:
عن أبي عبد الله عليه السلام قال: سأله رجل عن القائم يسلم عليه بإمرةالمؤمنين؟ قال: لا ذاك اسم سمى الله به أمير المؤمنين لم يسم به أحد
قبله، ولا يسمى به بعده إلا كافر
وسائل الشیعہ جلد 14 صفحہ 601۔
ایک شخص نے امام مہدی عج سے متعلق سوال کیا کہ کیا ان کو ‘امیر الموءمنین’ کہہ کر سلام کیا جائے گا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا : یہ نام ‘امیر الموءمنین’ الله نے صرف (حضرت علی علیہ السلام) کے لیے مخصوص کیا ہے۔ ان سے پہلے کسی کو یہ لقب نہیں دیا گیا ہے اور ان کے بعد کوئ کافر ہی اس لقب سے پکارا جائےگا۔
بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر…
بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…
بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…
بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…
دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…
مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…