ماہ رمضان کو سال کے دوسرے مہینوں پر جو فضیلت حاصل ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس مہینے میں قرآن نازل ہوا – جس شب قرآن نازل ہوا ہے اسے شب قدر کہا جاتا ہے۔ اس شب کی فضیلت ظاہر کرنے کے لیے الله تعالیٰ نے اپنی کتاب میں “لیلة القدر خیر من الف شہر” فرمایا ہے یعنی “شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے”۔ احادیث میں وارد ہوا ہے کہ اس رات کو لوگوں کی قسمت کا فیصلہ بھی ہوتا ہے۔ اس رات لوگوں کی سال بھر کی تقدیر لکھی جاتی ہے۔لہذا اس شب کا ہر ایک لمحہ قیمتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اس رات شب بیداری کرے اور پوری رات عبادت میں گزارے۔ شبہائے قدر کے لیے کچھ نمازوں اور دعاءوں کے ساتھ ساتھ کچھ اذکار بھی وارد ہوے ہیں ۔
انیسویں رمضان کی شب اور اکیسویں شب میں جو مخصوص اعمال ہیں ان میں اس جملہ کو کم ازکم سو مرتبہ پڑھنے کا ذکر ملتا ہے۔
اللَّهُمَّ الْعَنْ قَتَلَةَ أَمِيرِالْمُؤْمِنِين؛
خدایا امیرالمؤمنین(علیہ السلام) کے قاتلوں پر لعنت کر۔ (مفاتیح الجنان – اعمال شبہائے قدر)
[بحار الانوار، ج۹۸، ص۱۸۱]
تاریخ میں موجود ہے کہ چالیس ہجری میں ماہ مبارک کی انیسویں شب کی سحر میں امام عالی مقام کے فرقِ اقدس پر ایک شخص جس کا نام عبد الرحمٰن ابن ملجم مرادی تھا، نے ضربت لگائ تھی جس کی وجہ سے آپؑ کی شہادت واقع ہوئ۔ مگر اس ذکر میں لفظ ‘قتلة’ یعنی ‘قاتلوں’ پر لعنت کی گئ ہے جبکہ بظاہر قاتل ایک ہی شخص تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مولا علی علیہ السلام کے قتل میں اور بھی لوگ شامل ہیں جو اس لعنت کے مستحق ہیں۔ کون ہیں وہ لوگ؟؟ اس کا جواب ہم کو سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کی زیارتوں میں ملتا ہے۔ زیارت عاشورہ میں ہم پڑھتے ہیں۔ “اللہم العن العصابة التی جاہدت الحسین (علیہ السلام) و شایعت و بایعت و تابعت علیٰ قتلہ-” ان سب پر لعنت ہو جنھوں نے کسی بھی لحاظ سے اس جنگ کی تیاّری کی ہے۔ اسی طرح قاتلان امیر الموءمنین علیہ السلام میں بھی ان سب پر لعنت ہے جن لوگوں نے اس منصوبے میں حصہ لیا -یعنی اس عورت پر بھی لعنت جس نے ابن ملجم لعنت اللہ علیہ کو قتلِ امیرِ کائنات پر اکسایا، اس شام کے باغی پر بھی لعنت جس نے اس قتل کا راستہ ہموار کیا، ان تمام لوگوں پر لعنت جن کی کسی بھی طرز پر اس قتل میں شمولیت رہی ہو۔ اسی طرح ہم زیارت وارثہ میں یہ فقرے پڑھتے ہیں۔”لعن الله امة قتلتک، و لعن الله امة ظلمتک، و لعن الله امة سمعت بذالک فرضیت بہ” اس امت پر لعنت جس نے حسینِؑ مظلوم کو قتل کیا، اس امت پر لعنت جس نے فرزند زہراء (سلام اللہ علیہا) پر ظلم کیا اور ان لوگوں پر بھی خدا کی لعنت ہو جو اس شہادت کی خبر کو سن کر اس کے واقع ہونے پر راضی ہوئے۔ اسی طرح جن افراد نے امیر الموءمنین کے خلاف جنگ کی، ان پر ظلم کیا اور ان کی شہادت کی خبر سن کر راضی ہوئے ان سب کا شمار قاتلانِ امیر الموءمنین علیہ السلام میں ہوگا اور ان سب پر خدا کی لعنت طے ہے۔ پس جس شخص کو بھی آپؑ کی شہادت کی خبر نے مسرور کیا،وہ اس لعنت کا سزاوار اور مستحق ہے چاہے وہ اس قتل میں براہ راست شامل نہ رہا ہو۔ تاریخ نے ان افراد کا بھی ذکر کیا ہے، جو مدینہ میں تھے اور جب ان کو شہادتِ علی (علیہ السلام) کی خبر ملی تو انھوں نے خوشی میں سجدہء شکر ادا کیا۔
(تاریخ طبری جلد5 صفحہ150 ،مقاتل الطالبین صفحہ 55، الجمل صفحہ 46)
ان پر اور ان کے اس سجدے پر خدا کی لعنت ہو کیونکہ یہ بھی قاتلانِ مولاءے کائنات میں شامل ہیں۔
شبہائے قدر میں اس ذکر کو فراموش نہ کریں بلکہ ان ایام میں اس کو کثرت سے ادا کریں اور اہل بیت علیہم السلام کی خوشنودی حاصل کریں۔
اللہم العن قتلة امیرالموءمنین علیہ السلام
بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر…
بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…
بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…
بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…
دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…
مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…