کسی شئی کی خصوصیت یا اہمیت کیا صرف مادیت ہی میں منحصر ہوسکتی ہے؟
کسی واقعہ کا تاریخی ہونا کیا یہ اس کی کم اہمیت کی دلیل ہو سکتی ہے؟
شیعہ لوگ کیوں غدیر کے جشن کو پر کشش اور با عظمت طور سے منعقد کرتے ہیں؟
۱۸؍ذی الحجۃ اس عظیم دن کی یاد ہے جسے ہم شیعہ لوگ عید غدیر کے نام سے یاد کرتے ہیں اور اس دن انتہائی مسرت و شادمانی کی فضا قائم کر کے خوشیوں کا اظہار کرتے ہیں یہاں تک کہ بعض لوگ اس جشن پُر مسرت کے موقع پر بہت پہلے سے اپنی تیاریوں کا آغاز کردیتے ہیں تا کہ اسے پہلے سے بہتر طریقہ سے انجام دے سکیں۔اور اس امر میں نہ جانے کتنے محققین اور دانشمندوں کی محنتیں اور زحمتیں صرف ہوجاتی ہیں۔
اس بارے میں کبھی کبھی یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ !آخر کیوں اس سلسلہ میں اتنی جسمانی و ذھنی قوتیں اور محنتیں صرف کی جاتی ہیں۔جبکہ اگر یہی محنت اور زحمت قوم اپنی اقتصادی اور تعلیمی شعبوں اور اس کے نقائص کے بر طرف کرنے میں صرف کرے تو آج علمی پیمانہ پر بچھڑا ہوا مسلمان دنیا کے ترقی یافتہ قوموں اور ملکوں کی برابری کر سکتا ہے۔اور ایک غدیر کے جشن کی خاطر اتنا اہتمام کیا جاتا ہے۔آخر ہر سال غدیر کے واقعہ کی تکرار کرنا اور پیغمبراسلام کے بعد امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہما السلام کی جانشینی بلا فصل کے اثبات کے اصرار نے ابتک انسانی معاشرے کی روز افزوں مشکلات میں سے کس مشکل کو حل کیا ہے یا مسلمانوں کے اتنے مسائل میں سے کس مسئلہ کو حل کر دیا ہے ؟کیا بہتر نہیں ہے آج ہم اپنی با صلاحت و با استعداد افکار و نظریات سے زندگانی روز مرّہ کے مختلف النوع دائمی بن جانے والے مشکلوں کا حل تلاش کریں اور گذرے ہوئے حالات و مسائل کو انھیں دنوں کے لوگوں کے تفکرات و حالات پر چھوڑدیں اور حال اور مستقبل کی تلاش میں سب مل کر قدم آگے بڑھائیں؟
یہ کوئی نیا اعتراض نہیں ہے مذہب شیعہ اثنا عشری کے مخالفوں نے اس سوال کو ہر دور میں مختلف طریقہ سے لوگوں کے ذہنوں اور دلوں میں پھیلایا ہے لیکن یہ سوال آج ہمیں پہلے سے کچھ زیادہ اس کے تمام پہلوؤں پر غور کرنے کی دعوت دے رہا ہے اور اس کے سد راہ کی خاطر یعنی اس کے منفی اثرات کے اثر انداز ہونے کے بارے میں گہرائی سے کوئی مثبت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔
حیرت و استعجاب اور ساتھ ساتھ دلچسپ بھی ہے کہ شیعہ مذھب کے مخالفین، شیعی مکتب فکر کے مطابق انجام دیئے جانے والے تمام محفلوں اور جشن وغیرہ کی مخالفت میں یہی اعتراض پیش کرتے ہیں۔ مگر ان لوگوں نے اس حربہ کو دشمنانِ اسلام سے سیکھا ہےاس لئے کہ جب اسلام و قرآن کے دشمن، اسلام پر اعتراض کرتے ہیں تو اسی طرح کے سوالات پیش کرتے ہیں مثلاً کہتے ہیں آخر اتنی قوت و طاقت اور سرمایہ مذھبی مراسم جیسے نماز روزہ قرآن وغیرہ کی قرأت میں خرچ کرتے ہیں اسے ملک کی مادی ترقی اور قوم کی پیش رفت میں کیوں نہیں صرف کرتے تاکہ عالمی پیمانے پر ان قوموں کے ساتھ شمار کیئے جائیں جواس وقت ترقی یافتہ قوموں میں شمار ہوتی ہیں۔سچ بتائیے ہر سال خانہ خدا کی زیارت اور قرآن و اسلام کی حقانیت کے ثابت کرنے پر اصرار نے ابتک روز افزوں مشکلات و پریشانیوں میں سے کس مشکل کو حل کر دیا ہے؟
اس اعتراض کا جائزہ لینے کے لیئے دوباتوں کی طرف اشارہ کروں گا۔
۱۔ کسی بھی امر کو اس کے صرف مادی پہلوؤں کے لحاظ سے نہیں دیکھنا چاہیئے یعنی اگر کوئی شئی کا رآمد ہے تو اسکا صرف کار آمد ہونا مادی نہیں ہوتا۔
۲۔ کسی واقعہ یا روئیداد کے تاریخی ہونے سے اہمیت ختم نہیں ہوتی ہے۔
جہاں تک پہلی بات ہے تو معلوم ہونا چاہئے كہ علم و دانش کی وادی ایک ایسی وادی ہے جہاں ایک خاص فضا اور ماحول کی حکمرانی ہوتی ہے آج بھی مغربی ممالک کے اہم اور معتبر یو نیورسیٹیوں میں۔جو ٹکنالوجی کے اعتبار سے بھی نہایت ترقی یافتہ ہیں۔ارسطو اور افلاطون کے فلسفہ کی تدریس ہوتی ہے اور یونیورسٹی کے دانشمند افراد بحث وتدریس میں مشغول ہیں ہم دیکھتے ہیں کہ ان بزرگوں کے نظریات سے استفادہ کرتے ہوئے ترقی کررہے ہیں اور ان کے اصول و قوانین طلبہ کے درسی نظام کا حصہ ہیں جن سے وہ مستفید ہو رہے ہیں اور اس كی سے ایک خاص پہچان ہے۔
ہر ماں باپ اپنے بچے کو سچ بولنے کی کی دعوت دیتے ہیں اور جھوٹ اور جھوٹ بولنے کو برا سمجھتے ہیں اور اپنے بیٹوں کو اس سے دور رہنے کی تاکید کرتے ہیں،تو کیا اس طرح کی تربیت انسانی زندگی میں کار آمد نہیں ہے اور کیا یہ کار آمد ہونا مادی ہے ؟
دنیا کے تمام انسانی معاشرے میں لوگ نا پسند چیز کو اذیت اور تکلیف دہ شمار کرتے ہیں ہر انسان ایک دوسرے کو مظلوم کی مدد کرنے کی سفارش کرتا ہے دنیا کا کون انسان اس اخلاقی تعلیم اور انسانی معاشرے کی ترقی کے اصلاح میں اس میں شک کرے گا۔اسی طرح کون ہے جو یہ کہے کہ جھوٹ نہ بولنا اور سچ بولنا آفتاب و مہتاب کو تسخیر کرنے میں رابطہ پایا جاتاہے۔کوئی اس بات کا قائل نہ ہوگا۔
اسی بات کو دوسرے انداز سے پیش کرتا ہوں تاکہ اندازہ ہو جائے کہ کوئی بھی چیز صرف مادیت میں محدود نہیں ہوتی ہے۔
ہر مسلمان خاندان میں کم از کم ایک جلد قرآن کریم بعنوان آسمانی اور الٰہی کتاب کے موجود ہوتی ہے اور لوگ اپنے وقت کی مناسبت سے اسے پڑھتے رہتے ہیں جبکہ تمام مسلمان اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ نہ صرف قرائت بلکہ اس کے معانی میں غور و فکر اور تامل کرنے سے بھی ظاہری لحاظ سے ان کی مادی مشکلات میں سے کسی ایک مشکل کا بھی جبران نہیں ہوا ہے،لیکن یہ ایک حقیقت اور واقعیت ہے کہ ہم قرائت قران سے امید رکھتے ہیں بلکہ ایمان رکھتے ہیں کہ ہماری ہدایت کریگا، پروردگار سے نزدیک کریگا، اور ہم اسے انتہائی اور غیر معمولی اہمیت کا درجہ دیتے ہیں جسکا مادیت سے کوئی مقابلہ نہیں ہو سکتا۔
اسی طرح ایک اور حقیقت ہے جسکا تعلق گذشتہ زمانہ سے بھی رہا ہے اور آئندہ زمانہ میں بھی اس کی غیر معمولی اہمیت ثابت ہے جس کو معاد کہتے ہیں قیامت اور روز حشر اور اس کی تمام خصوصیات یہ وہ حقائق ہیں جنکا قرآن میں ذکر ہوا ہے،یہ اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ ہم سب کو پہلی ہی فرصت میں اپنی طرف متوجہ کر لیتا ہے ہم سب اس بات کی کوشش کرتے ہیں کہ کچھ اس طرح اعمال انجام دیں کہ آتش جہنم سے محفوظ ہو جائیں،معاد سے متعلق آیتوں کی تلاوت نیز پیغمبر اکرم ﷺ کی معاد کی کیفیت کے بارے میں روایتیں کیا ہم سب کو اس بات کی طرف متوجہ نہیں کرتیں کہ معاد ایک طرف تو زمانہ گذشتہ سے پیوستہ بھی ہے اور دوسری طرف اسكا ہماری علمی وفنّی ترقی میں کسی طرح کا کوئی نقش بھی نہیں ہے؟ قیامت اور معاد کے لیئے ہم مسلمانوں کی زندگی میں اور رفتار و گفتار میں جو نقش اور اہمیت ثابت ہے اسکا انکار ممکن نہیں ہے بلکہ یہ وہ واقعیت ہے جسکا انکار کرنے سے دائرہ اسلام سے خارج ہو جائیگا،مگر اس کے باوجو معاد کا با اہمیت ہونا اور ایک مسلمان کی سر نوشت میں معاد کا اہم ترین نقش ہونا الگ بات ہے جسکا مادیت سے کوئی ربط نہیں ہے،معاد اہمیت کا حامل ہے مگر مادی نہیں ہے لھٰذا اب تک کی تمام مثالوں سے یہ بات واضح و آشکار ہو جاتی ہے کہ یہ بات از لحاظ اصول غلط ہے کہ کسی امر کا کار آمد ہونا یا اس امر کا با اہمیت ہونا اس کے مادی پہلؤں میں مضمر ہوتا ہے کہ وہ مادی اعتبار سے جتنا کار آمد ہوگا اتنا ہی اہمیت والا ہوا۔ہر چیز کو مادی نقطہ نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہئے۔
اسی طرح کسی روئیداد کا تاریخی ہونا اس کی کم اہمیت کی دلیل نہیں ہو سکتی ہے۔
اگر ہم میں سے ہر ایک کو اسلام کے بارے میں سوالات کا سامنا کرنا پڑے تو یقیناً اس کے جواب میں ہم آنحضرت ﷺ کی دعوت و تبلیغ اور اسلام کے ابتدائی دور میں رونما ہونے والے واقعات کا سہارا لیں گے اور آئین الٰہی کے معنیٰ و مفاہیم کی وضاحت اور تشریح کرنے پر آمادہ ہو جائیں گے، اس صورت میں یہ بات بلکل واضح و روشن ہے کہ جواب میں اسلام کے وجود اور اسکے آغاز کے بارے میں گفتگو کرنا یقیناً گزرے ہوئے زمانہ میں قدم رکھنا کہا جا ئے گا گویا آج جس دین اسلام نے وجود اختیار کیا ہے اس کی جڑیں گذشتہ زمانے سے پیوستہ ہین سوال یہ ہے کیا تاریخ کی طرف پلٹنا اور اس طرح کی منطقی اور عقلی گقتگو کرنا، بیکار،بیہودہ اور فضول ہے ؟
ہم دنیا کے بہت سے تاریخی واقعات میں بھی کچھ امور کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ ہر چند وہ مادی پہلو سے کار آمد نہیں ہیں مگر وہ دنیا کی قوموں کے نزدیک خاص اہمیت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں ہم سب ہندوستانی ہیں اور اپنے ملک کی سرحد کے بارے میں نہایت حساس ہیں،انصاف سے بتائیے ہم میں سے کون ایسا ہوگا جو اس بات کو قبول کرے کہ ہمارے ملک کا کوئی پڑوسی ملک یا کوئی اور ملک ہماری سرزمین کا ایک بالشت بھی اپنی سرحد میں شامل کرلے اور سرحد کی حدبندی کو اپنے مفاد میں استعمال کرے ہر گز نہیں ایسا کوئی قبول کرنے کو تیار نہیں ہوگا۔
شیعہ حضرات غدیر کے بارے میں جو کچھ انجام دیتے ہیں یا جو کچھ بیان کرتے ہیں وہ انھیں حکمتوں اور مصلحتوں کی بنیاد پر ہے شیعہ اس لئے غدیر کو اہمیت دیتے ہیں اور اسے عزیز اور باعث برکت شمار کرتے ہیں کہ یہ ایک عقیدہ ہے کہ غدیر اگر چہ ایک تاریخی حقیقت ہے جو زمانہ گذشتہ سے متعلق ہے مگر وہ ایک ایسی حقیقت اور واقعیت کو بیان کر رہا ہے جو دامن اسلام سے ہر گز ہر گز جدا ہونے والی نہیں ہے اور وہ ہے امامت و ولایت یہ وہ حقیقت ہے جو دین اسلام کا ایک انتہائی اہم ستون ہے،جس کے اندر دین و دنیا دونوں کی بھلائی پوشیدہ ہے،اس لحاظ سے غدیر کا رشتہ ہر زمان و مکان سے جڑا ہوا ہے۔
کیا پیغمبر اکرم ﷺ نے غدیر خم میں امیر المؤمنین کو اپنے بعد امام اور ولی کی حیثیت سے نہیں پہچنوایا تھا اور ان کے بارے میں نہیں فرمایا :
یہ علی بن ابی طالب میرے بعد میرے بھائی وصی جانشین اور میرے بعد امام ہیں……وہ خدا اور رسول کے بعد تمہارے نفسوں پر صاحب اختیار ہیں۔[1]
بیشک حضرت ختمی مرتبت ﷺ نے ان نورانی کلمات کو غدیر کے دن بیان فرمایا ہے وہی غدیر خم کہ جس کے نام کے ساتھ امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہم السلام کی ولایت و محبت دل و دماغ میں اتر جاتی ہے۔جس طرح پیغمبر اکرم ﷺ کی بعثت کا واقعہ یقینی وقطعی ہے بالکل اسی طرح غدیر کا واقعہ بھی قطعی و یقینی ہے۔جس کے منابع و مأخذ کا ذکرتاریخی کتابوں میں بے شمار پایا جاتا ہے۔
کیا یہ حقیقت اور پیغمبر اکرم ﷺ کا خاص اہتمام ہمیں اس بات کے لیئے آمادہ نہیں کرتا کہ ہم غدیر کے لیئے خاص توجہ کے قائل ہوں،جس دن آنحضرت ﷺ نے خدا وند عالم کے حکم سے علی بن ابی طالب کو معین فرمایا اور ان کی اطاعت كو ہر عرب و عجم چھوٹے بڑے گورے کالے پر واجب قرار دی ہے۔غدیر کے دن آنحضرت ﷺ نے علی کے حکم اور فرمان کو نافذ قرار دیا۔ان کے مخالف کو ملعون شمار کیا،اور چاہنے والوں کو کامیاب اور نجات یافتہ قرار دیا،رسول خدا ﷺ نے انہیں اپنے اور تمام لوگوں سے افضل اور برتر قرار دیا،ان کے بے شمار صفات بیان كئے،حضرت علی تفسیر قرآن میں بھی آنحضرت ﷺ کے جانشین اور آنحضرت کے علوم کے حامل ہیں۔علی پیشوائے ہدایت ہیں،اور ان کے دشمن پر لعنت اور خدا وند عالم کا قہر ہے۔یہ امیر المومنین کے چند صفات تھے جنھیں حضرت ختمی مرتبت نے لوگوں کے سامنے بیان فرمایا تھا۔[2]
تو پھر حضرت علی کی معرفت و شناخت کے لیئے کوشش کرنا اور لوگوں کو ان کی معرفت سے قریب کرنا کیا اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں عقیدہ کی بنیاد کو مستحکم کرنا نہیں ہے………اور جب انھیں پہچان لیا اور جان لیا کہ امیر المؤمنین خدا وند عالم کی طرف سے امام اور ولی ہیں تو اس دن جس دن ختمی مرتبت نے انھیں پہچنوا کر اپنی ہدایت و تبلیغ کے مشن کو کامل کیا،اہتمام نہیں کرنا چاہیئے؟
غدیر کے اہتمام اور اسے پر کشش انداز سے انجام دینے کے بارے میں اہلبیت علیہم السلام سے بہت سی حدیثیں نقل ہوئی ہیں،بطور نمونہ امیر المؤمنین کے خطبہ غدیر کا کچھ حصہ پیش کر رہا ہوں:
………تم پر خدا کی رحمت ہو !خطبہ کے بعد تم لوگ اپنے اپنے گھر وں میں جا کر اپنے اہل عیال کے لئے آسائش اور وسعت کا اہتمام کرو،اپنے بھائیوں کے ساتھ نیکی کرو۔اور خدا وند عالم نے تمہیں جو نیکی عطا کی ہے اس پر شکر بجا لاؤ خدا کی نعمتوں سے ایک دوسرے کو ہدیہ پیش کرو،جیسا کہ خدا وند عالم نے تم پر احسان کیا ہے، اور اس دن کی نیکی کی جزا کو گزشتہ و آئندہ کی عیدوں کے مقابلہ میں چند برابر قرار دیا ہے۔
اس دن نیکی کرنے سے دولت و ثروت میں اضافہ کا باعث ہوگا عمر طولانی ہو تی ہے۔اس دن ایک دوسرے سے محبت و شفقت کا اظہار، خدا وند عالم کے لطف و عنایت کا سبب ہوتا ہے اس دن………اہل وعیال اور بھائیوں کے لیئے خرچ کرو۔اور ملاقات میں مسرت و شادمانی کا ثبوت پیش کرو۔[3]
اس اعتبار سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ غدیر کا اہتمام کرنا۔بیہودہ فعل نہیں ہے اور نہ اسے بیکار اور لاحاصل قرار دیا جا سکتا ہے۔
اور اگر معاذاللہ بے کار اور لا حاصل قرار دیتے ہیں تو کیا یہ اللہ تعالیٰ کے انتخاب اور پیغمبر اکرم ﷺ کے بیان کو اہمیت نہ دینا اور اس سے منھ موڑ لینا نہیں کہا جائے گا؟
بیشک ہم اہلبیت علیہم السلام کے فرمودات کی روشنی میں غدیر کا اہتمام کرتے ہیں ۔ اور یہ اہتمام – حتی اگر بطور ظاہری مادی پہلوؤں سے خالی بھی ہو-یقیناً خدا وند عالم کی بارگاہ میں تقرب کا ذریعہ ہے،غدیر کا تاریخی ہونا اس کی اہمیت میں ذرہ برابر کسی بھی وجہ سے کوئی کمی واقع نہیں ہوتی ہے۔
[1] خطبٔہ غدیر،۷۱ ؛احتجاج۱/ ۶۶ ؛نحار ۳۷ / ۲۰۱
[2] خطبہ غدیر
[3] مصباح المتہجد، ص۵۲۴
بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر…
بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…
بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…
بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…
دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…
مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…