اہل تسنن (سنی) علماء شیعوں پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ شیعہ بلا وجہ ان کے خلفاء کو برا بھلا کہتے ہیں۔ ان علماء کا ‘بلا وجہ’ کہنا قطعی غلط ہے۔ شیعوں کے نزدیک اہلبیتؑ رسولؐ پر ظلم کی بنیاد خلیفہ اول اور دوم نے ہی ڈالی ہے۔ خلیفہء اول کے لیے جب جبرًا بیعت طلب کی جارہی تھی اس وقت خانہ علیؑ و فاطمہؑ پر حملے بھی ہوے تھے۔ اہل تسنن علماء اس بات کا سرے ہی سے انکار کرتے ہیں کہ دختر رسولؑ کے گھر پر کوئ حملہ ہوا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہادت کے بعد امت نے اہلبیتِؑ رسولؐ پر بے انتہا مظالم ڈھائے۔ ظلم کی انتہا تو یہ ہے کہ دخترِ رسولؐ کو اتنا شدید زخمی کیا گیا کہ ان کے بطن مبارک میں ان کا بچّہ شہید ہوگیا۔ شیعوں کی کتابوں میں اس بات کا صراحت کے ساتھ ذکر ملتا ہے۔ روایتوں میں ملتا ہے کہ خود سرور کائنات نے اس ہونے والے بچّے کا نام محسن رکھا تھا۔ اس واقعہ کا اکثر اہل تسنن علماء انکار کرتے ہیں اور شیعوں پر اس کو جعل کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ مگر کچھ بزرگ اہل تسنن علماء نے اس واقعے کو اپنی اپنی تالیفات میں رقم کیا ہے۔ ان میں سے چند کا ذکر یہاں کیا جارہا ہے۔
1۔ ابن شہر آشوب نقل کرتے ہیں کہ حضرت فاطمہ زھراء (س) کی اولادوں میں حسنؑ ، حسینؑ ، زینبؑ وامّ کلثوم (علیھم السلام) کے علاوہ جناب محسن (علیہ السلام) بھی تھے جو کہ قنفذ (عمر ابن خطاب کا غلام) کی ضرب شدید سے (شکم مادر ہی میں) شہید ہو گئے ۔
المناقب،ج۳،ص۱۳۲
2۔ مسعودی لکھتے ہیں: حضرت فاطمہ زہراء (علیہا السلام) کے گھر پر حملے کے وقت ان لوگوں نے آپؑ کو درودیوار کے درمیان اس طرح دبا دیا کہ (شکم مادر میں) حضرت محسنؑ کی شہادت واقع ہوگئی ۔
اثبات الوصیہ،ص۱۴۲
3۔شہرستانی نے اس واقعہ کو اس طرح تحریر کیا ہے۔ نظّام (یہ ایک معتزلی عالم تھے) نے کہا :بیعت کے دن عمر نے حضرت فاطمہ زہراء (س) کے شکم مبارک پر اتنی ضربیں لگائیں کہ آپ کا حمل ساقط ہو گیا۔
الملل والنحل،ج۱ ،ص۵۷
4۔علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ “ان عمر رفس فاطمہؑ حتی اسقطت بمحسنؑ”
ترجمہ : یقیناً عمر نے حضرت فاطمہ (س) کے شکم مبارک پر ایسی ضرب لگائی کہ (شکم مبارک میں ہی) جناب محسن کی شہادت ہو گئی ۔
میزان الاعتدال،ج۱،ص۱۳۹
5۔ صفدی (معتزلی عالم) کا نظریہ، یہ تھا کہ بلا شبہہ ابوبکر کی بیعت طلب کرنے والے دن عمر نے حضرت فاطمہؑ کو ایسی ضرب لگائی کہ جناب محسنؑ بطنِ مادر ہی میں شہید ہو گئے۔
الوافی بالوفیات،ج۶،ص۱۷
6۔الاسفرائینی نے بھی یہی کہا ہے کہ بلا شبہہ جب ابوبکر کے لیے بیعت طلب کی جارہی تھی اس دن عمر نے حضرت فاطمہؑ کو ایسی ضرب لگائی کہ جناب محسنؑ بطنِ مادر میں شہید ہو گئے۔
الفرق بین الفرق ،ص۱۰۷
7۔ علامہ حموئی جوینی الشافعی نے معتبر سندوں کے ساتھ ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا: میں اس لیے رو رہا ہوں کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ میرے بعد میری امت کے اشرار میری بیٹی فاطمہؑ کے ساتھ کیا سلوک کریں گے۔ خانہ فاطمہؑ میں غم کا سماں ہوگا اور اس کی بے حرمتی کی جائے گی اس کا حق غصب کیا جائے گا اس کو میراث تک سے محروم کردیا جائے گا اس کے پہلو کو زخمی کیا جائے گا اور وہ رو ، رو کر مجھے پکارے گی “وا محمداہ” مگر اس کا کوئی جواب دینے والا نہ ہوگا۔
فرائد السمطین،ج۲،ص۳۵
8۔ ابن ابی الحدید معتزلی لکھتے ہیں رسول خدا (ص) کی دختر ربیعہ(جن کا اسم گرامی زینب تھا)جس وقت مکہ سے مدینہ کی طرف جارہی تھیں مشرکین مکہ میں سے ایک گروہ جس ہبار ابن اسود شامل تھا، نے حضرت زینب کو اذیت دینے کی غرض سے ان کے ناقے کا تعاقب کیا۔ سب سے پہلا شخص جو ناقہ زینب کے قریب پہنچا وہ ہبارابن اسود ہی تھا جس نے پہنچتے ہی زینب کی محمل پر نیزہ مارا۔ زینب جو کہ حاملہ تھیں اس کے ناگاہ حملے سے ایسی خوف زدہ ہوگئیں کہ جب وہ مدینے پہنچی تو ان کا حمل ساقط ہو چکا تھا۔ اسی وجہ سے رسولؐ اسلام نے لوگوں کو حکم دیا تھا کہ جہاں کہیں بھی ہبار ابن اسود ، دکھائی دے اسے فوراً قتل کردو۔ اس واقعہ کو نقل کرنے کے بعد ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ میں نے اس واقعہ کو (اپنے استاد) نقیب ابی جعفر سے بیان کیا تو انھوں نے کہا:جب حضرت زینب کے فرزند کے ساقط ہو جانے پر رسولؐ خدا ہبار ابن اسود کا خون مباح کر سکتے ہیں تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ اگر رسولؐ خدا حضرت فاطمہ زہراء (س) کی شہادت کے وقت حیات ہوتے تو ان لوگوں کے خون کو بھی مباح کردیتے کہ جنھوں نے حضرت فاطمہ زہراء (س) کو اس قدر ہراساں کیا اور انھیں اتنی ضربیں لگائیں کہ ان کا حمل ساقط ہو گیا۔
شرح نہج البلاغہ، ج۱۴، ص۱۹۲
اس موضوع پر اہل تسنن کے اور بھی حوالوں کا ذکر کیا جا سکتا ہے مگر مضمون کی طوالت سے بچنے کے لیے اتنا کافی ہے۔
بحر حال ان تمام مستند اور معتبر علماء کے ان بیانات کے بعد اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خلیفہ دوم اور ان کے ساتھیوں نے ہی جناب محسن کو بطن مادر میں شہید کیا تھا۔ چونکہ ان افراد کا ظلم ثابت ہے، اس لیے شیعہ حضرات حکمِ قرآن ہر عمل کرتے ہوئے رسولؐ اور آلِ رسولؐ کو اذیت دینے والوں پر لعنت کرتے ہیں۔ (احزاب: ۵٧)
بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر…
بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…
بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…
بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…
دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…
مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…