رسول اللہ ﷺنے سن ۷ ہجری میں باغِ فدک بحکمِ خدااپنی جگر پارہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کو ہبہ کیا۔ اور تب سے یہ باغ خاتونِ محشرکی ملکیت میں رہا۔ جب رسول اللہ ﷺکی وفات ہوئی تو خلیفۂ اوّل ابوبکرنے فوراً اِس باغ کو اپنی ملکیت میں لے لیا۔ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا سے اپنے دعویٰ کی صداقت کے لئے گواہ طلب کئے گئے اور پھر اُن گواہوں کی گواہی کو رد کر دیا گیا۔ جب سیّدہ سلام اللہ علیہا نے اپنی میراث طلب کی تو فرضی حدیث کا سہارا لیا گیا۔ آخر یہ باغ کیوں غصب کیا گیا؟ تاریخ اسلام اور سیاست کے طالب علم کے لئے اس سوال کا جواب ڈھونڈھنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ اس کی چند واضح وجوہات ہیں۔
پہلی اور خاص وجہ جو فدک کو غصب کرنے کی تھی وہ یہ کہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا اور اہل بیت رسولﷺ کو معاشی طور سے کمزور کر دیا جائے۔ مولا علی علیہ السلام، جو جناب زہراسلام اللہ علیہا کے شوہر ہیں، نے اپنی خلافت کو دعویٰ پیش کیا تھا اور ابوبکر کی خلافت کو قبول نہیں کیا تھا۔ فدک کو چھین کر انھیں اقتصادی طور پر کمزور کر دیا جائے۔ اس جانب سے وہ آپ علیہا السلام کی معاشی اور معاشرتی حیثیت پر ایک گہری ضرب لگانا چاہتے تھے۔ یہی راستہ کفّارِ قریش نے رسالتمآبﷺ کے ابتدائی ایّام میں اختیار کیا تھا جس کے ذریعہ انھوں نے مسلمانوں پر ایک طرح کی اقتصادی پابندی لگا دی تھی تا کہ بذاتِ خود آنحضرتﷺ اور اُن کا مشن دونوں کمزور پڑ جائیں۔
یہ تھی کہ فدک کی آمدنی کثیر تھی۔ ابن ابی الحدید معتزلی کے مطابق باغِ فدک کے پیڑوں کی تعداد کوفہ کے پیڑوں کے برابر تھی۔علّامہ مجلسی رحمة اللہ علیہ نے اپنی کتاب کشف المحجہ میں فدک کی سالانہ آمدنی ۲۴۰۰۰ دینار بتائی ہے۔ دوسری روایت میں اسے ۷۰۰۰۰ دینار بتایا گیا ہے۔ ظاہر ہے اتنی بڑی آمدنی سرکاری نظر سے کیسے بچ سکتی تھی، بالخصوص تب جب کہ بنی ہاشم اُس سے فیضیاب ہو رہے ہوں۔
ابوبکر نے اپنی خلافت کا دعویٰ اور اعلان کر تو دیا مگر کچھ نہایت محترم اور باوثوق اصحابِ رسولﷺ اُن کی خلافت کے مخالف ہو گئے جیسے مولا علی علیہ السلام، مالک بن نویرہ، زبیر بن عوام وغیرہ۔ حکومت پر اپنی پکڑ جمانے کے لئے اور مخالفت کو کمزور کرنے کے لئے ضروری تھا کہ اِن بغاوتوں کو کچلا جائے۔ باغِ فدک کا غصب کرنا اور مالک بن نویرہ جیسے جلیل القدر صحابی کا قتل کروا دینا اسی مقصد کا پیش خیمہ تھا۔
باغِ فدک کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ رسول اللہ ﷺمسلمانوں کے فوج کی دیکھ ریکھ پر خرچ کیا کرتے تھے۔ اگر جناب سیّدہ سلام اللہ علیہا اس ملکیت کی آمدنی کو ابوبکر کو دینے سے انکار کر دیتیں تو اس سے ابوبکر کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ کھڑا ہو سکتا تھا۔ فوج کے اخراجات کا مسئلہ تو کھڑا ہوتا ہی ساتھ ہی اس کے سبب ابوبکر کی فوج پر گرفت کمزور ہو جاتی۔
رسول اللہﷺ نے یہ باغ اپنی دختر کو دیا تھا اور اُن کے عامل اس باغ کی دیکھ ریکھ کیا کرتے تھے۔ اس باغ کو چھین کر ابوبکر نے یہ ظاہرکرنا چاہا کہ اب میں حاکم ہوں اور میرا حکم چلے گا۔ یعنی میں اور میرا فیصلہ حکومت کی باگ ڈور سنبھالیں گے۔ میں رسول اللہ ﷺکے فیصلے کو بھی پلٹ سکتا ہوں۔
یہ تھی کہ یہ غصب فدک سے تمام مدینہ والوں اور اطراف کے علاقوں پر پوری طرح کا قبضہ جمع لینا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ سب جان لیں کہ جب علی و فاطمہ علیہما السلام کی مخالفت کو کچلا جا سکتا ہے تو انصار و مہاجرین کی کیا بساط ہے۔
بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر…
بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…
بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…
بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…
دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…
مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…
View Comments
جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیها آپ سے راضی ہوں.