امامؑ زمانہ عج نے غیبت کے دوران اپنے کچھ خاص اور معتمد شیعوں سے تواقیع کے ذریئے رابطہ قائم رکّھا ہے۔ اور ان کے ذریئعے سے اس پیغام کو اپنے تمام چاہنے والوں تک پہنچاتے ر ہے ہیں ۔ ذیل میں نقل کیا گیایہ مبارک خط غیبت صغری کے ابتدعائ دور کا ہے مگر اس میں نصیحت ہر زمانے کے شیعوں کے لیئے ہے۔
محقق داماد علیہ الرحمہ اپنی کتاب “صراط مستقیم” میں تحریر فرماتے ہیں کہ مورداطمینان اور باوثوق شیخ عثمان بن سعید عمری نقل کرتے ہیں کہ “ابن ابی غانم قزوینی” کابیان ہے کہ امام حسن عسکری علیہ السّلام نے جب رحلت فرمائی تو ان کے کوئی اولاد نہیں تھی، اس سلسلہ میں شیعوں نے ان سے بحث کی اور خدمت امام زمان عج میں بغیر روشنائی کے خط لکھا، یعنی اپنی باتیں خشک قلم سے سفید کاغذ پر لکھیں تاکہ اس خط کا جواب ایک معجزہ اور نشانی ہو۔اور امام نے جو جواب تحریر فرمایا وہ یہ تھا:
“خداوند عالم ہمیں اور تمہیں گمراہی اور فتنے سے دور رکھّے. دین،ولایت اور تمهارے ولی امر کے سلسلے میں تم میں سے ایک گروه کے شکوک و شبہات کی خبریں مجھ تک پہنچیں.اس خبر نے ہمیں متاثر اور غمگین کیا. البته یه تاثر اور غم تمہارے لیے ہے خود اپنے لیے نہیں ، کیونکه خدا ہمارے ساتھ ہے اور حق ہمارے پاس ہے. اگر کوئی ہم سے دور ہوجاۓگا تو ہم پر اثر نہیں پڑے گا ہم اپنے خدا کے خواسته اور پر داخته ہیں اور کائنات ہماری ساخته اور پرداخته (هم خدا کے فیض سے بہرور ہیں اور لوگ ہمارے فیوض سے بهروند ہیں) کیوں شک میں غوطه لگا رہے ہو کیا تمہیں اسکا علم نہیں ہے که جو کچھ تمھارے آئمه بیان کر چکے ہیں وه ہو کر رہے گا ( گذشته اماموں نے خبر دی ہے که امام قائم علیه السلام غیبت اختیار کریں گے) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آدم سے لے کر گذشتہ امام (حسن عسکری علیہ السلام ) تک ہمیشہ ایک پناہ گاہ معین کی ہے,
تاکہ لوگ اس طرف جائیں اور ایسےنشانات قرار دئیے ہیں جس سے لوگ ہدایت حاصل کریں. جب کبھی ایک پرچم پوشیدہ ہوا تو دوسرا پرچم آشکار ہوگیا. جب کبھی ایک ستارہ ڈوبا دوسرا ستارہ چمکنے لگا.کیا تمھارا یہ خیال ہے کہ جس وقت خداوند عالم نے گذشتہ امامؑ کی روح قبض کی اور انکو اپنے پاس بلالیا تو کیا اس نے اپنے دین کو باطل کردیا.اپنے اور مخلوقات کے درمیان رابطہ کو منقطع کردیا.ہر گز ایسا نہیں ہے اور نہ ہوگا یہاں تک کے قیامت برپا ہوجاۓ اور امر الہی ظاہر ہوجاۓ.گرچہ یہ بات انھیں پسند نہ آۓ. پس خدا سے ڈرو اور ہمارے سامنے تسلیم رہو. اور ہمارے احکام سے روگرداں نہ ہو. میں نے تمھیں نصیحت کردی اور خدا میری طرف سے تم لوگوں پر گواہ ہے.”
اس مبارک تحریر میں جہاں امامؑ نے جواب کے ذرئیے اپنی امامت کو ثابت کیا ہے وہیں اپنے شیعوں کو اہم نصیحت بھی فرمائ ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ امامؑ کے سامنے ہمیشہ تسلیم رہیں امام ہی ان کے لئیے ایک مضبوط پناہگاہ ہے ۔ ان کی امامت کو ہمیشہ اپنے اوپر فرض سمجہیں ان کی غیبت کو ان کی غیر موجودگی نہ سمجھیں۔ وہ ہمارے تمام حالات سے باخبر رہتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ خدا کا تقوی بھی اختیار کرنے کا حکم ہے۔ اس توقیع میں بھی متعدّد اقوال معصومینؑ کی طرح اس بات کا ذکر ہوا ہے کہ الله کی مخالفت کرنے والے کو ائمہؑ کی ولایت کوئ فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ اس بات کی بھی تلقین کی گئی ہے کہ احکام الہی کا خیال رکھیں۔ حلال محمّدؐ تا قیامت حلال ہیں اور حرام محمّدؐ تاقیامت حرام ہیں اس لئے ان کی ہر حال میں اور ہر زمانہ میں پابندی کریں چاہے غیبت کتنی ہی طولانی کیوں نہ ہو جائے۔
بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر…
بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…
بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…
بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…
دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…
مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…