یہ بات تمام مسلمان علماء جانتے ہیں کہ شیعہ حضرات مولا علیؑ ابن ابی طالبؑ کو رسولؐ اللہ کا خلیفئہ بلا فصل مانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سقیفہ کی حکومت کے منکر ہیں اور شیخین کو غاصبان خلافت تصور کرتے ہیں۔ اس کے برعکس اہل تسنن علماء شیخین کی خلافت کو ‘خلافت راشدہ’ تصور کرتے ہیں۔ پھر ان دونوں کی فضیلت ظاہر کرنے کے لیے جعلی احادیث کا سہارا لیتے ہیں جن میں شیخین کی تعریفوں کے پل باندھے گۓ ہیں ، چنانچہ جب کسی شیعہ کو سر عام گھیرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور الگ الگ زاویوں سے شیخین کی بابت ان سے سوالات پوچھے جاتے ہیں تو بات بڑھ جاتی ہے، ہوتا یہ ہے کہ دوران گفتگو اگر کوئ شیعہ اپنے عقیدے کی بنیاد پر شیخین کی فضیلت کا منکر نظر آۓ تو اس پر ‘رافضی’ ہونے کا الزام عاید کر دیا جاتا ہے ۔ ایسا ہی ایک واقعہ نویں امام – جواد الائمہ امام محمد تقی علیہ السلام کے ساتھ پیش آیا۔ مامون رشید نے امام جوادؑ کے علم و فراست سے مرعوب ہوکر اپنی بیٹی ام الفضل سے ان کی شادی کردی۔ یہ بات ما مون کے خاندان، بنی عباس کے بہت سے لوگوں کو ناگوار گزری۔ ان لوگوں نے امام جوادؑ (جو اس وقت ظاہرًا دس یا بارہ سال کے تھے) کو علمی مناظرے میں شکست دینے کے لیے بصرہ کے ایک بزرگ عالم اور مفتیء اعظم یحییٰ بن اکثم کو مامون کے دربار میں طلب کیا۔ ایک روز خلیفہ کی موجودگی میں جب امام جوادؑ، یحییٰ بن اکثم اور دوسرے لوگ بیٹھے ہوئے تھے، یحییٰ نے امام علیہ السلام سے کہا :
روایت ہوئی ہے کہ جبرئیلؑ ،پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں پہنچے اور کہا : یا محمدؐ ! خداوند عالم نے آپ پر سلام کہا ہے اور کہا ہے : میں ابوبکر سے راضی ہوں، اس سے پوچھو کہ کیا وہ بھی مجھ سے راضی ہے؟ اس حدیث کے متعلق آپ کا کیا نظریہ ہے؟
امامؑ نے فرمایا : جس راوی نے یہ خبر نقل کی ہے اس کو دوسری وہ خبر بھی بیان کرنی چاہئے تھی جو پیغمبرؐ اکرم نے حجة الوداع میں بیان کی تھی ، پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا تھا : جو بھی میرے اوپر جھوٹی تہمت لگائے گا اس کا ٹھکانہ جہنم ہوگا، لہذا اگر میری کوئی حدیث تمھارے سامنے پیش کی جائے تو اس کو کتاب خدا اور میری سنّت سے ملا کر دیکھو، جو بھی کتاب خدا اور میری سنّت کے مطابق ہو اس کو لے لو اور جو کچھ کتاب خدا اور میری سنت کے خلاف ہو اس کو چھوڑ دو ۔ امام محمد تقی (علیہ السلام) نے مزید فرمایا : (ابوبکر کے متعلق) یہ روایت خدا کی کتاب سے موافقت نہیں رکھتی کیونکہ خداوند عالم نے فرمایا ہے : ہم نے انسان کو خلق کیا ہے اور ہم ہی جانتے ہیں کہ اس کے دل میں کیا ہے اور ہم اپنے بندے سے اس کی شہ رگ سے زیادہ نزدیک ہیں (سورهّ ق: 16)۔
کیا ابوبکر کی خوشنودی یا ناراضگی خدا کے لیے پوشیدہ تھی کہ وہ اس کے بارے میں پیغمبر اکرم (ص) سے پوچھتا؟ یہ بات عقلی طور پر محال ہے۔
یحییٰ نے کہا : اس طرح بھی روایت ہوئی ہے : ابوبکر اور عمر زمین پر اس طرح ہیں جیسے آسمان پر جبرئیلؑ و میکائیلؑ ہیں ۔
آپؑ نے فرمایا : اس حدیث کے متعلق بھی غور و فکر سے کام لو۔ جبرئیلؑ و میکائیلؑ خداوندعالم کی بارگاہ میں مقرب دو فرشتے ہیں اور ان دونوں سے کبھی بھی کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا ہے اور یہ دونوں ایک لمحہ کے لئے بھی خدا کی اطاعت کے دائرے سے باہر نہیں ہوئے ہیں جبکہ ابوبکر اور عمر ایک عرصے تک مشرک تھے اگر چہ ظہور اسلام کے بعد مسلمان کہلائے مگر ان کی بیشتر عمر حالت شرک اور بت پرستی میں گزری ہے۔ اس بناء پر محال ہے کہ خداوند عالم ان دونوں کو جبرئیلؑ اور میکائیلؑ سے تشبیہ دے ۔
یحییٰ نے کہا : اسی طرح ایک اور روایت ہوئی ہے کہ ابوبکر اور عمر اہل بہشت میں بوڑھے لوگوں کے سردار ہیں۔ اس حدیث کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں؟
آپؑ نے فرمایا : اس روایت کا صحیح ہونا بھی محال ہے کیونکہ تمام اہل بہشت جوان ہوں گے اوران کے درمیان کوئی ایک بھی بوڑھا نہیں ہوگا(تاکہ ابوبکر اور عمر ان کے سردار بن سکیں) یہ روایت بنی امیہ نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی اس حدیث کے مقابلے میں کھڑی کی ہے جو امام حسن اور امام حسین (علیہما السلام ) کے متعلق بیان ہوئی ہے ،نقل ہوا ہے کہ حسنؑ و حسینؑ ،جوانان جنت کے سردار ہیں ۔
یحییٰ نے کہا : یہ بھی ایک روایت نقل ہوتی ہے کہ “عمر بن خطاب اہل بہشت کے چراغ ہیں۔”
آپؑ نے فرمایا : یہ بھی محال ہے کیونکہ بہشت میں خدا کے مقرب فرشتے، انبیاء، جناب آدم، آنحضرتؐ اور تمام فرشتے موجود ہیں پھر کس طرح ممکن ہے کہ بہشت ان کے نور سے روشن نہ ہو لیکن عمر کے نور سے روشن ہوجائے؟
یحییٰ نے کہا : روایت ہوئی ہے کہ “سکینہ” عمر کی زبان سے بولی ہوئ باتیں ہیں۔ (یعنی عمر جو کچھ کہتے ہیں وہ ملائکہ اور فرشتوں کی طرف سے ہے) ۔
امام (علیہ السلام) نے فرمایا : ۔۔۔ ابوبکر جو کہ عمر سے افضل تھے، منبر کے اوپر کہتے تھے : میرے پاس ایک شیطان ہے جو مجھے منحرف کردیتا ہے، لہذا تم جب بھی مجھے منحرف ہوتے ہوئے دیکھو تو میرا ہاتھ پکڑ لینا ۔
یحییٰ نے کہا :یہ بھی روایت ہوئی ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا : اگر میں نبوت کے لئے مبعوث نہ ہوتا تو یقیناً عمر مبعوث ہوتے ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا:یقیناً کتاب خدا (قرآن کریم) اس حدیث سے زیادہ سچی اور صحیح ہے، خداوند عالم نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے : “”وَ اِذْ أَخَذْنا مِنَ النَّبِیِّینَ مِیْثٙاقَہُمْ وَ مِنْکَ وَ مِنْ نُوحٍ وَ اِبْراہِیمَ وَ مُوسٙیٰ وَ عِیسَی ابْنِ مَرْیَمَ وَ أَخَذْنا مِنْہُمْ مِیْثاقاً غَلیظاً”” ( سورہ احزاب، آیت ٧) ۔ اور اس وقت کو یاد کیجئے جب ہم نے تمام انبیاء( علیہم السّلام) سے اور بالخصوص آپؐ سے اور نوح (علیہ السلام)،ابراہیم (علیہ السّلام)، موسیٰ (علیہ السّلام) اور عیسٰی بن مریم (علیہما السلام) سے عہد لیا اور سب سے بہت سخت قسم کا عہد لیا۔ اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہو رہا ہے کہ خداوند عالم نے انبیاء سے عہد و پیمان لیا تھا پھر کس طرح ممکن ہے کہ وہ اپنے عہد و پیمان کو بدل دیتا؟ انبیاء میں سے کسی ایک نبی نے ذرا سی دیر کے لئے بھی شرک اختیار نہیں کیا ، لہذا کس طرح ممکن ہے کہ خداوند عالم ایسے شخص کو نبوت کے لئے مبعوث کرے جس کی عمر کا اکثر و بیشتر حصہ خدا کے شرک میں گزرا ہو؟ نیز پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا : جس وقت آدمؑ آب و گل کے درمیان تھے (یعنی ابھی خلق نہیں ہوئے تھے) میں اس وقت بھی نبی تھا ۔
یحییٰ نے پھر کہا : روایت ہوئی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا : کبھی بھی مجھ سے وحی قطع نہیں ہوئی اور اگر قطع ہوئی تو مجھے یہ خیال آیا کہ وحی خطاب (عمر کے باپ) کے گھر میں منتقل ہوگئی ہے ۔ یعنی نبوت میرے گھر سے ان کے گھر میں منتقل ہوگئی ہے ۔
آپؑ نے فرمایا : یہ بھی محال ہے کیونکہ ممکن نہیں ہے کہ پیغمبرؐ اکرم اپنی نبوت میں شک کریں ، خداوند عالم فرماتا ہے : خداوند فرشتوں اور اسی طرح انسانوں کے درمیان سے انبیاء کا انتخاب کرتا ہے ( سوره حج: 75) ۔ اس بناء پر خدا کے انتخاب کے بعد پیغمبر اکرم (ص) کے لئے کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہ جاتا) ۔
یحییٰ نے کہا : روایت میں ذکر ہوا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا : اگر عذاب نازل ہوتا تو عمر کے علاوہ کسی اور کو نجات نہ ملتی ۔
امام علیہ السلام نے فرمایا :یہ بھی محال ہے کیونکہ خداوند عالم نے پیغمبر اکرم (ص) سے فرمایا ہے : جب تک تم ان کے درمیان ہو اس وقت تک خداوند عالم ان پر عذاب نہیں کرے گا اور جب تک یہ استغفار کرتے رہیں گے اس وقت تک ان پر عذاب نہیں ہوگا (سوره انفال: 33) ۔ اس وجہ سے جب تک پیغمبر اکرم (ص) ان کے درمیان ہیں اور جب تک لوگ استغفار کرتے رہیں گے، خدا ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا.
(علامہ طبرسى، احتجاج، ج 2، ص 247 – 248 – ، علامہ مجلسى، بحار الأنوار، ج 50، ص 80 – 83)
دیکھا آپ نے کتنی خوب صورتی سے قرآنی اور عقلی دلائل کے ذریعہ امام محمد تقی علیہ السلام نے اپنے مقابل ایک بزرگ مفتی کی تمام روایات کو کنارے لگا دیا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ بنی امیہ کے دور میں جعلی احادیث کا ایک کاروبار گرم رہا اور اسی زمانے میں اہلبیتؑ کی عظمت کو کم کرنے کے لیے شیخین کی فضیلت سے متعلق جھوٹی باتیں امت میں عام کی گئیں۔ اس لیے ان تمام احادیث کی جانچ پڑتال ہونی چاہیے۔
(اس سلسلہ میں علامہ میر حامد حسین ہندی کی معرکۃ الاراکتاب
شارق النصوص فی تکذیب فضایل۔۔ قابل مطالعہ ہے۔)
بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر…
بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…
بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…
بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…
دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…
مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…
View Comments
سبحان اللہ