سن ۷ ہجری میں جنگِ خیبر کے بعد یہودیوں نے باغِ فدک بغیر جنگ وجدال رسول اللہﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا۔ آپﷺ نے بحکمِ خدا اس باغ کو اپنی پارۂ جگر فاطمہ زہرا کو ہبہ کر دیا۔ تب سے یہ باغِ جناب سیدہ کی ملکیت میں رہا۔ مگر رسول اللہ ﷺکی رحلت کے فوراً بعد خلیفۂ اوّل ابوبکر نے اُن سے باغ فدک چھین لیا۔ جب بی بی نے مطالبہ کیا تو اُن سے اپنی ملکیت ثابت کر نے کے لئے گواہ مانگے گئے۔ ملکیت کا ہونا اُس شئے کے مالک ہونے کی دلیل ہے مگر پھر بھی رسولﷺ کی بیٹی سے گواہ طلب کئے گئے۔ جناب سیدہ نے بطورِگواہ مولا علی اور جناب اُمِّ ایمن کو پیش کیا۔ اس مختصر مقالے میں ہم جناب اُمِّ ایمن کی شخصیت پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں گے۔
جناب اُمِّ ایمن کی خدمات اور فضائل:-
(۱) رسول اللہ ﷺکمسنی میں یتیم ہو گئے ۔ آپﷺ کی والدہ جناب آمنہ کا انتقال جب ہوا تو آپﷺ کی عمرِ مبارک صرف سات سال تھی۔اُس وقت آپﷺ کے دادا جناب عبدالمطلب نے اپنے یتیم پوتے کو اُمِّ ایمن کی شفقت اورمادری محبت کے حوالے کیا اور جناب اُمِّ ایمن نے رسول اکرم ﷺکی پرورش کا فرض ادا کیا حتیٰ کہ آنحضرتﷺ فرمایا کرتے تھے کہ اُمِّ ایمن میری ماں ہیں۔
(۲) جب آنحضرت کا عقد جناب خدیجہ سے ہوا تو آپ نے اپنی اس نیک کنیز کو آزاد کر دیا اور اُن کا بھی نکاح کروایا۔
(۳) مولا علی نے اپنا پیغامِ نکاح جناب اُمِّ ایمن کے ذریعہ رسول اللہ ﷺتک پہنچایا۔
(۴) آپ ہی کو رسول اللہ ﷺنے اپنی بیٹی کی اِس مبارک شادی شادی کی تیاری اور اہتمام کی ذمہ داری سونپی۔
(۵) آپ نے جنگِ اُحد اور جنگِ خیبر میں حصہ لیا اور مسلمانوں کے لشکر کی خدمت انجام دی۔
(۶) جنگِ اُحد میں جب رسول اللہ ﷺکے ساتھی اُن کو چھوڑ کر اپنی جان بچانے کے لئے فرار ہوئے اُس وقت جناب اُمِّ ایمن نہیں بھاگیں۔ بلکہ آپ نے ڈٹ کر کفارِ مکّہ کا مقابلہ کیا۔
(۷) اس جنگ میں رسول اللہ ﷺکو کافی زخم لگے۔ اُس وقت جناب اُمِّ ایمن نے آنحضرت ﷺ کی تیماداری کی اور اُن کی حفاظت کی۔
(۸) جنگِ خیبر میں اُمِّ ایمن کے شوہر شہید ہو گئے تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا جو اآمِّ ایمن سے نکاح کرے گا وہ خوش قسمت ہو گا کیونکہ یہ بی بی جنتی ہے۔
(۹) اُمِّ ایمن تا حیات اہلبیتؑ کی وفادار رہیں۔ رسول اللہ ﷺکا ارشاد ہے کہ اُمِّ ایمن ہمارے گھرانے سے ہیں۔
(۱) آپ رسول اللہ ﷺکے حالات کو سب سے زیادہ اچھی طرح جانتی تھیں۔ کیونکہ آپ نے بچپن سے ہی حضورﷺکی خدمت و پرورش کی تھی۔
(۲) اُمِّ ایمن رسول اللہ ﷺکے والدین کی کنیز تھیں اور آنحضرتؐ کو میراث میں ملی تھیں۔ اس طرح آپ خود رسول اللہ ﷺکو میراث ملنے پر دلیل تھیں۔
(۳) جتنے پرانے مسلمان ابوبکر تھے اتنی ہی پرانی کلمہ گو اُمِّ ایمن بھی تھیں۔آپ ہر اعتبار سے بزرگ اور معتبر تھیں۔
(۴) آپ نے بہت زیادہ خدمتِ رسولﷺ اور خدمتِ دین انجام دیا تھا۔ آپ کو رسول اللہ ﷺنے جنتی ہونے کی بشارت دی تھی۔
جناب اُمِّ ایمن کا وطن حبشہ تھا اور آ پ خاندان رسالت کی کنیز تھیں۔ آپ کے اتنے فضائل اور مناقب ہونے کے باوجود بھی ابوبکر نے اُن کی گواہی جناب زہرا کے حق میں قبول نہیں کی۔ کیوں؟؟؟
کیوں کہ وہ عرب نہیں ہیں۔
کیا اسلام نے صرف عربوں کی گواہی کو قبول کیا؟ کیا صرف عرب ہی سچے ہو سکتے ہیں؟ کیا غیر عرب پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا؟ افسوس کہ قرآن کی آیت کا پیمانہ بھی فراموش کر دیا گیا
اِنِّ اِکْرَمَکُم عِنْدَ اللہ اَتْقٰکُم
بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر…
بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…
بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…
بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…
دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…
مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…