حضرت علی علیہ السلام نے اپنے گھر پر ہوئے حملہ کا دفاع کیوں نہیں کیا؟

https://api.soundcloud.com/tracks/1931612594

اس سوال اوراعتراض کے جواب کے لئے مناسب ہے کہ تاریخ اسلام کے کسی قدیم ترین منبع کی طرف رجوع کیا جائے۔

ا۔ یعقوبی ایک مشہور و معروف مورخ جن کی وفات 290 ہجری قمری میں ہوئی لکھتے ہیں کہ:

ابوبکر اور عمر کو یہ خبر دی گئی کہ حضرت علی علیہ السلام انصار و مہاجرین میں سے کچھ لوگوں کے ساتھ حضرت فاطمہؐ زہرا، دختر رسولؐ خدا کے گھر میں موجود ہیں چنانچہ ابوبکر و عمر نے ایک گروہ کے ساتھ بنت رسولؐ کے گھر پر حملہ کردیا (چنانچہ حضرت علیؑ ہاتھ میں تلوار لئے گھر سے باہر عمر کے سامنے آئے حضرت علی اور عمر نے ایک دوسرے کا گریباں پکڑا اور زمین پر گرایا اسی اثناء میں عمر نے حضرت علی کی تلوار توڑ دی اور کچھ لوگ جو عمر کے ساتھ آئے تھے شہزادی کے گھر میں گھس گئے) شہزادی حضرت فاطمہؐ زہرا جب ان لوگوں کی اس حرکت پر متوجہ ہوئیں تو کہا خدا کی قسم اگر گھر سے باہر نہ نکلے تو اپنے بالوں کو پریشان کرلوں گی اور خدا سے شکایت کروں گی ۔ (١)

ب۔ شہاب الدین آلوسی شافعی جن کی وفات 1270 میں ہوئی سلیم بن قیس کی کتاب سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
جس وقت حضرت علیؑ نے ابوبکر کی بیعت سے انکار کیا عمر نے ناراض ہوکر حضرت علیؑ کے گھر کو آگ لگادیا اور پھر گھر میں داخل ہوگئے، حضرت فاطمہؐ زہرا نے جب یہ منظر دیکھا تو اپنے بابا رسولؐ خدا کا واسطہ دے کر فریاد کیا “یا ابتاہ و یا رسول اللہ “۔ پھر عمر نے نیام میں رکھی ہوئی اپنی تلوار سے شہزادی کے پہلو پر وار کیا اور اپنے پاس موجود تازیانہ سے بھی شہزادی کو مارا چنانچہ شہزادی نے دوبارہ رسول خدا سے توسل کیا اور انہیں پکارا۔ حضرت علیؑ نے عمر کی جب یہ حرکت دیکھی تو برداشت نہ کرسکے اور عمر کا گریبان پکڑ کر زمین پر پٹکا اور اور اس کی گردن پکڑ کر ناک کو زمین پر رگڑ دیا ۔ (٢)
————————————————————————————————-

(١) ((و بلغ ابا بکر و عمر أنّ جماعة من المھاجرین و الانصار قد اجتمعوا مع علی بن ابی طالب فی منزل فاطمة بنت رسول اللہ، فأتوا فی جماعة حتیٰ حجموا الدار، فخرجت فاطمة فقالت: و اللہ لتخرجنّ أو لأکشفنّ شعری و لأعجنّ الی اللہ! فخرجوا و خرج من کان فی الدار))۔ تاریخ یعقوبی، ج۲، ص۱۲۶، خبر سقیفہ بنی ساعدۃ و بیعۃ ابی بکر۔

(٢) ((غضب عمر واضرم النار بباب علی و احرقہ و دخل، فاستقبلتہ فاطمة و صاحت یا ابتاہ و یا رسول اللہ! فرفع عمر السیف و ھو فی غمدہ فوجأ بہ جنبھا المبارک و رفع السوط فضرب بہ ضرعھا، فصاحط یا ابتاہ! فأخذ علی بتلابیب عمر و ھزہ و وجأ انفہ و رقبتہ))۔ روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم و السبع المثانی، ج۳، ص۱۶۵۔ ۱۶۶، ذیل تفسیر آیۃ۲۸ سورۃ آل عمران

Short URL : https://saqlain.org/m7mt
saqlain

Recent Posts

8) کیا امام حسین کی عزاداری بدعت ہے؟

بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر…

1 month ago

6) کیا امام حسین کی عزاداری بدعت ہے؟

بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…

1 month ago

5) کیا امام حسین کی عزاداری بدعت ہے؟

بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…

1 month ago

4) کیا امام حسین کی عزاداری بدعت ہے؟

بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…

1 month ago

3) کیا امام حسین کی عزاداری بدعت ہے؟

دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…

1 month ago

2) کیا امام حسین کی عزاداری بدعت ہے؟

مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…

1 month ago