پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی روز وفات یعنی دو شنبہ کی صبح میں بعض اصحاب آپ کی خدمت میں جمع ہوئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
آتُوْنِیْ بِدَوَاتٍ وَ قِرْطَاسٍ اِکْتُبُ لَکُمْ کِتَابًا لَنْ تَضِلُّوْا بَعْدَہ اَبَدًا
قلم اور کاغذ لاؤتاکہ ایسا نوشتہ دیدوں تمہارے لئے کہ ہرگز میرے بعد گمراہ نہ ہوگے۔
عمر نے کہا:
اِنَّ النَّبِیَّ غَلَبَہ الْوَجْعُ وَ عِنْدَکُمْ کِتَابُ اللهِ، حَسْبُنَا کِتَابُ اللهِ۔
پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر (معاذ اللہ) مرض نے غلبہ پیدا کر لیا ہے(اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ جو کہہ رہے ہیں اس کی طرف متوجہ نہیں ہیں) تمہارے پاس تو خدا کی کتاب ہے اور ہمارے لئے بس کتاب خدا کافی ہے۔
(صحیح بخاری، باب کتابہ العلم، ج ۱، ص ۲۲؛ مسند احمد حنبل تحقیق احمد محمد شاکر، ح ۲۹۹۶؛ طبقات ابن سعد، ج ۲، ص ۲۴۴چاپ بیروت)
دوسری رویات میں طبقات ابن سعد آیا ہے کہ اس وقت وہاں موجود لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا:
اِنَّ النَّبِیَّ اللهِ لِیَجْہَرَ
کہ بیشک نبی خدا ہذیان بک رہے ہیں۔
(طبقات ابن سعد، ج ۲، ص ۲۴۲، چاپ بیروت؛ صحیح بخاری، باب جوائز الوفد من کتاب الجہاد، ج ۲، ص ۱۲۰، و باب اخراج الیہود من جزیرة العرب، ج ۲، ص ۱۳۶ میں یہ الفاظ موجود ہیں: فقالوا ہجر رسول اللہ۔ لوگوں نے کہا: رسول اللہ کو ہذیان ہو گیا ہے)
اس بات کا رد کرنے والا یقینا وہی تھا جس نے ”حسبنا کتاب الله“ (کتاب خدا کافی ہے) کہا ہے۔
اہل سنت کی کتابوں میں عمر کا اعتراف
خود عمر نے اس شرم آور اور بیہودہ عمل کا اعتراف کیا ہے۔ امام ابو الفضل احمد ابن ابی طاہر تاریخ بغداد میں اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں ۳/۹۷ میں عمر کے حالات میں لکھا ہے:
ایک دن عمر اور ابن عباس کے درمیان طولانی مباحثہ ہوا جس میں عمر نے کہا:
پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے اپنے مرض الموت میں ان (علی) کے نام کی تصریح کرنا چاہتے تھے مگر ہم نے ایسا نہیں ہونے دیا۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) اس پر آزردہ خاطر ہوئے۔
اس وقت موجود لوگوں میں سے بعض لوگوں نے کہا: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) کا حکم ہے اسے انجام دیجئے۔ اور بحث و گفتگونیز مجادلہ کے بعد کچھ لوگوں نے کاغذ قلم لانے کا رادہ کیا، مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا:
اَوْ بَعْدَ مَاذَا؟
اب لا کر کیا کروگے۔
(طبقات ابن سعد، ج ۲، ص ۲۴۲ چاپ بیروت)
عمر کی اس گستاخی کے بعد اگر قلم کاغذ لایا جاتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کوئی ایسا وصیت نامہ تحریر فرما دیتے جس میں علیکے نام کی تصریح ہوتی تو مخالفین چند لوگوں کو حاضر کر سکتے تھے کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے حالت ہذیان میں تحریر فرمایا ہے۔
جب اس وقت جھگڑا اور نزاغ بڑھ گیا تو پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
قُوْمُوْا عَنِّیْ، لاَ یَنْبَغِیْ عِنْدَ نَبِیَّ تَنَازَعٌ۔
میرے پاس سے اٹھ کر چلے جاؤ کہ نبی کی بزم میں نزاع کرنا سزاوار نہیں ہے۔
(تاریخ ابی الفداء، ج ۱، ص ۱۵؛ صحیح بخاری باب کتابة العلم، ج ۱، ص ۲۲ میں ان الفاظ کا ذکر ہوا ہے: ”قال: قوموا عنّی و لا ینبغی عندی التنازع“ پیغمبر نے فرمایا: میرے پاس سے اٹھ کر چلے جاوٴ کہ میرے نزدیک نزاع کرنا سزاوار نہیں ہے)
بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر…
بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…
بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…
بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…
دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…
مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…