حضرت سرور کائنات نے حکم خدا اور قرآن کی آیت “فاءت ذالقربہ حقہ..” پر عمل کرتے ہوئے باغ فدک اپنی نور نظر فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہ کو دے دیا تھا۔ اس باغ کی دیکھ ریکھ جناب فاطمہ علیہا السلام کے عامل کیا کرتے تھے اور اس کی پیداوار پر حق تصرف بھی جناب سیدہؑ کا ہی رہا۔ آپ اس باغ کا سارا مال اور منافع مسلمانوں میں غربا و مساکین پر خرچ کردیا کرتی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھ بند ہوتے ہی مسلمانوں کے خلیفہ ابوبکر نے اس باغ کو ان سے چھین لیا۔ جب جناب صدیقہ طاہرہ اپنے حق کا مطالبہ کرنے گئیں تو ابوبکر نے ان سے گواہ پیش کرنے کو کہا۔
کتاب ناسخ التواریخ میں صفحہ 124 پر درج ہے کہ جب جناب سیدہ سلام اللہ علیہا مسجد سے خالی ہاتھ لوٹ آیئں اور ان سے گواہی طلب کی گئ تو آپؑ نے یہ بات اپنے شوہر امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے بیان کی۔ مولا علیؑ مسجد میں آئے اور مہاجرین اور انصار کی موجودگی میں خلیفہ سے سوال کیا: “تم نے فدک کیوں ضبط کیا ہے؟”
خلیفہ :”وہ مسلمانوں کا حصہ ہے، اگر فاطمہؑ گواہ لے آئیں تو اسے دے دیا جائےگا۔”
علی علیہ السلام:”کیا تم حکم خدا کے خلاف فیصلہ کروگے؟”
خلیفہ:”ہر گز نہیں!”
علی علیہ السلام: “اگر کوئ چیز کسی مسلمان کے پاس ہے اور میں اس کے بارے میں دعویٰ کروں تو تم کس سے گواہ طلب کروگے؟”
خلیفہ:”تم سے۔اے علیؑ”
علی علیہ السلام:”پھر فاطمہؑ سے کیوں گواہ طلب کر رہے ہو؟؟ فدک تو پیغمبر کی زندگی سے ہی فاطمہؑ کے پاس ہے”
خلیفہ لاجواب ہوکر خاموش ہوگئے۔
ان کے دوست عمر نے موضوع بدلتے ہوے کہا:”اے علی بات کو نہ بڑھاءو۔ اگر تمھارے پاس گواہ ہے تو لے آءو ورنہ فدک مسلمانوں کا حق ہے”
حضرت علی علیہ السلام نے اس کی بات کی کوئ پرواہ نہ کرتے ہوے ابوبکر سے دوبارہ سوال کیا:”تم نے قرآن پڑھا ہے؟”
خلیفہ:”ہاں”
علی علیہ السلام:” تو یہ بتاءو کہ یہ آیت تطہیر (انما یرید اللہ…) کس کے بارے میں نازل ہوئ ہے؟”
خلیفہ:”آپ لوگوں کی شان میں نازل ہوئ ہے”
علی علیہ السلام :”اگر کوئ گواہ فاطمہؑ کے بارے میں برائ کی گواہی دے اور ان پر تہمت لگائے تو تم کیا کروگے؟”
خلیفہ:”دوسری عورتوں کی مانند ان پر حد جاری کروں گا”
علی علیہ السلام:” اگر تم ایسا کرتے ہو تو تم کافر ہوجاءوگے۔ ”
خلیفہ:” کیونکر بھلا؟ یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو؟”
علی علیہ السلام:”اس لیے کہ تم نے ان کے متعلق خدا کی گواہی کو مسترد کردیا اور لوگوں کی گواہی قبول کرلی۔ فدک کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے کیونکہ تم نے اس میں خدا اور رسول کی گواہی کو رد کردیا اور ایک بدو، برائ کا ارتکاب کرنے والے ،عرب کی گواہی کو قبول کیا ہے۔ اور یہ بھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بناے اصول کو تم نے پامال کیا ہے کہ: اٙلبٙیّٙنٙةُ عٙلٰی الْمُدّٙعِی وٙ الْیٙمِینٙ عٙلیٰ الْمُدّٙعیٰ عٙلٙیْہ ”
اس وقت مہاجرین اور انصار کے ایک گروہ نے گریہ کرنا شروع کیا اور کہا:” قسم خدا کی علیؑ سچ کہہ رہے ہیں۔”
بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر…
بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…
بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…
بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…
دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…
مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…