وفاتِ سرورِ کائنات صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے فورًا بعد جو واقعات مدینہ میں رونما ہوئے ان کے اثرات آج تک مسلمان دیکھ رہے ہیں۔ ان واقعات میں ایک اہم واقعہ سقیفہ بنی ساعدہ میں پیش آیا۔ سقیفہ میں ابوبکر کی جو حکومت قائم ہوئ اسے اہل تسنّن ‘اسلامی حکومت’ شمار کرتے ہیں، جبکہ اس حکومت کو نہ تو مسلمانوں کا اجماع حاصل تھا نہ ہی یہ حکومت مہاجرین کےاکابر اور ارباب حلّ و عقد کی مشاورت سے تشکیل پائ تھی۔ اتنا ہی نہیں خود اس واقعہ کے چشمدید گواہ اور اس حکومت کےقائد اور پایہء تخت عمر نے اس “بیعتِ ابی بکر” کو “فلتہ”کہا ہے۔ ان کے مطابق ابوبکر کی سقیفہ میں جو بیعت ہوئ ہے یہ ایک ہڑبڑاہٹ والی غلطی ہے جس کے شر سے خدا نے امّت کو محفوظ رکّھا۔ ان کی نظر میں یہ غلطی اتنی سنگین ہے کہ اگر کوئ اس کو دوبارہ عمل میں لاتا ہےتو وہ اس کا سر کاٹنے کو تیّار ہیں (الانساب جلد 1 صفہ 581 ، شرح نھج البلاغہ جلد 2 صفہ 25)۔ تاریخ کی کتابوں میں اس واقعہ کو بیان کرنے والوں نے اپنی روایات کوعبد الله ابن عبّاس سے نقل کیا ہے اور انہوں نےاس پورے ماجرےکو عمر کی زبانی بیان کیا ہے (سیرة ابن ہشام، تاریخ طبری، مسند احمد ابن حنبل وغیرہ)۔ اور وہی اس انتخاب کو “فلتہ”کہہ رہے ہیں۔ اس مقالہ میں ہم اُس دن سقیفہ میں جو ہوا اور اس سقیفائ حکومت کا ایک مختصر جائزہ لیں گے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ آنحضرتؐ کی وفات کی خبر سن کر جب ابوبکر و عمر رسولؐ کے گھر پہونچے اور اظہارِ غم کرہی رہے تھے کہ ان کو انصارِ مدینہ کے سقیفہ میں جمع ہونے کی خبر ملی۔ ان دونوں نے بنا کسی تاخیر کے اس مقام کا رخ کیا۔ وہاں پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ انصار کے دونوں گروہ، عوس و خجرز کے اکابر جمع تھے- کوئ بھی مہاجر نہ تھا۔ مہاجرین کی طرف سے شیخین یعنی ابوبکروعمر نے قریش کی دعوٰی داری پیش کی اور آناً فاناً میں ابوبکر کی خلافت کی پیشکش کرڈالی اور عمر نے ابوبکر کی بیعت کرلی۔ ان کو دیکھ کر طوعًا و کرھًا باقی لوگوں نے بھی ابوبکر کی بیعت کر ڈالی (طبقات ابن سعد جلد 1 صفہ95) ۔ وہاں جو کچھ بھی ہوا اس کی تفصیلات تاریخ کی کتابوں میں درج ہیں ۔ان واقعات میں کچھ باتیں لائق توجّہ ہیں۔
اولاً: سقیفہ میں صرف انصار جمع ہوئے تھے۔ یہ لوگ کسی اسلامی حکومت کی تشکیل کے لیے نہیں جمع ہوئے تھے۔ اگر ایسا ہوتا تو یقیناً یہ مہاجرین کو بھی دعوت دیتے۔بلکہ ان کا مقصد صرف مدینہ میں اپنی حکومت اور نمائندگی درج کرنی تھی وہ آپس میں سے کسی ایک کو مدینہ کا وٰالی منتخب کرنا چاہ رہے تھے۔ یہ اس بات سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ جب وہاں بحث ہورہی تھی توانصار میں سے ایک نے یہ پیشکش رکّھی کہ دو حاکم ہوں ایک مہاجر کا اور ایک انصارکا،جس کو ابوبکر نے رد کردیا۔ اسی طرح وہاں موجود کچھ انصار نے اس خوف کو ظاہر بھی کیا کہ اگر آج حکومت انصار کے ہاتھ سے نکل گئ تو دوبارہ نہ ملے گی- اور اس کی یہ بات سچ ثابت ہوئ۔
ثانیًآ: اس بحث کو ختم کرنے کے لیے یہ طے پایا کہ حاکم مہاجر کا ہوگا اور وزیر انصار کا۔اس طرح حکومت میں ان کی شمولیت اہم رہے گی۔ مگر ابوبکر نے اس وعدہ کو فراموش کردیا اور قریش کے لوگوں کو اپنی حکومت کی باگ ڈور دے دی۔ مکّہ کے کفّار جو فتح مکّہ کے بعد مصلحتًا مسلمان ہوئے تھے مثلاً خالد بن ولید، امر بن العاص، اکرمہ ابن ابوجہل وغیرہ کو اپنی حکومت کے اہم ارکان بنادیے (تاریخ طبری جلد 2)۔
ثالثاً:- ابوبکر نے قریش کو اس لیے خلافت کے لائق گردانا تھا کیونکہ رسولؐ اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم قریش کے تھے۔ لہٰزا اس قرابت داری کی بنا پر خلیفہ قریش کا ہونا چاہیے۔ اس لحاظ سے استدلال مولائے کائنات حضرت علیؑ کے حق میں زیادہ صحیح ہے کیونکہ نہ صرف یہ کہ وہ قریش اور بنی ہاشم – رسولؐ کے خاندان سے ہیں بلکہ بنصِّ قرآن خود نفسِ رسولؐ بھی ہیں اس لیے ابوبکر کو چاهیے تھا کہ حکومت و خلافت حضرت علیؑ کو دے دیتے۔
رابعاً: اہل تسنّن کا یہ ماننا ہے کہ ابوبکر کی خلافت کے لیے امت میں اجماع تھا۔ مگر تاریخ کی کتابوں میں ملتا ہے کہ سقیفہ میں باقاعدہ مارپیٹ ہوئ اور سعد بن ابی عبادہ کو اتنی بری طرح زخمی کیا گیا کہ ان کی موت واقع ہوگئ (طبقات ابن سعد جلد 1 اور جلد 3)۔ اتنا ہی نہیں ابوبکر کے دور حکومت میں ‘حروب الردة’ بھی اس بات کی دلالت کرتی ہیں کہ مسلمانوں کے کئ قبائل نے ابوبکر کو زکات دینے سے انکار کردیا تھا۔ ان میں بزرگ صحابیء رسولؐ جناب مالک بن نویرہ کا نام بھی شامل ہے- جن کو خالد بن ولید نے قتل کر دیا (تاریخ طبری جلد 2)۔ اہل تسنّن کا کہنا ہے کہ یہ لوگ مرتد ہوگئے تھے اس لیے ان سے جنگ کرنا ضروری تھا۔ مگر یہ بات عبث اور جاہلانہ ہے کیونکہ یہ سارے قبائل رسولؐ کو زکات ادا کرتے تھے اور آنحضرتؐ کی رحلت کے بعد بھی یہ تمام ارکانِ دین(نماز، روزہ وغیرہ) کے پابند تھے۔ ان کا جرم صرف اتنا تھا کہ وہ ابوبکر کی حکومت کو ‘اسلامی حکومت’ نہیں مانتے تھے اسی لیے انہوں نے اپنی زکات دینے سے انکار کردیا تھا۔
رسول الله صلی الله علیہ وآلہ ان لوگوں سے جنگ نہیں کرتے تھے جو زکوة نہیں ادا کرتے تھے یا زکوة دینے سے انکار کرتے تھے۔ ابوبکر کا ان سے جنگ کرنا خلاف سنّت رسولؐ تھا۔ ابوبکر نے ان مسلمان قبائل سے جنگ کرکے اپنی حکومت کے غیر اسلامی ہونے کا ثبوت دیا ہے۔
بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر…
بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…
بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…
بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…
دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…
مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…
View Comments
Assalam wa alaikum wrwb, sahaba per bilkull laanat Karna Chahiye q k wafate rasoole khuda saww k baad ye log apne Deen se phir Gaye the or khud rasoole khuda saww ki Zindagi mein bahot baar Umar ne aisi kayo galtiya ki thi his we oos ki muafiquat zaahir thi, khud Allah swt ne Quran majeed me sure munafique naazil Kar k saaf Kar diya k kuchh musalmaan aise bhi hai Jo munafique ho Gaye the Jo sahaba me se the to kya ab munafiqueo per laanat na bheje khud faisla kare ..............