۱۔       سید ابن طاوس رضہ اللہ علیہ۔ اپنی گرانقدر کتاب سعد السعود میں حدیث مباہلہ کو تفسیر ما نزل من القرآن فی النبی و اھل بیتہ تالیف محمد عباس بن مروان معروف بہ ابن حجام یا ابن ماھیار سے اکیاون (۵۱)طریقوں سے صحابہ و دیگر افراد سے روایت کیا ہے اور انہوں نے ان تمام راویوں کا نام لیا ہے منجملہ ان میں سے:ابو الفضل عامر بن واثلہ، جریر ابن عبد اللہ سبحستانی، ابو قیس مدنی، ابوادریس مدنی، حسن ابن علی۔ علیہما السلام۔ عثمان بن عفان، سعد ابن ابی وقاص، بکر ابن مسمار(سمال)، طلحہ ابن عبد اللہ (ظ۔ عبد اللہ)زبیر ابن عوّام، عبد الرحمٰن بن عوف، عبد اللہ ابن عباس، ابورافع رسول خدا ﷺكےخدمت گذار، جابر ابن عبد اللہ انصاری، براء ابن عازب، انس ابن مالک، منکدرابن عبد اللہ اپنے باپ سے، علی ابن الحسین علیہم السلام، امام باقر ، امام صادق ، حسن بصری، قتادہ، علبا ابن احمر، عامر ابن شراحیل شعبی، یحیٰ بن نعمان، مجاہد ابن عمر کمی، شہر ابن حوشب، ……اور ہم یہاں پر ایک حدیث نقل کرتے ہیں جب صبح ہوئی تو رسول خدا ﷺ باہر تشریف لائے اس حالت میں کہ علی ()کا ہاتھ اپنے داہنے ہاتھ میں اور حسن و حسین (علیہم السلام)کا ہاتھ بائیں ہاتھ میں پکڑے تھے اور فاطمہ (علیہا السلام)ان سب کے پیچھے چل رہی تھیں سب نے قیمتی لباس زیب تن کیا تھا اور پیغمبر اسلام ﷺ كے دوش مبارک پر ایک عبا تھی، وہاں جو درخت تھا اسکے نیچے جانے کا آنحضرتؐ نے حکم دیا، جب سب وہاں چلے گئے تو اپنی عباء کو ان کے اوپر تان دیا اور سب کواپنی عبا کے نیچے لے لیا اور اپنے بائیں شانے کو بھی عبا ء کے اندر لے کیا اس حالت میں کہ اپنی کمان پر جس کا نام یقع (یانبع)تھا تکیہ کئے ہوئے تھے اور اپنے داہنے ہاتھ کو مباہلہ کے واسطے آسمان کی جانب اٹھایا، اس وقت تمام لوگ یہ نظارہ دیکھنے کے لئے جمع تھے (نصاریٰ نجران)کے سردار سید وعاقب کے چہرے کا رنگ اڑگیا تھا اور وہ لوگ اس قدر مضطرب و پریشان تھے کہ قریب تھا کہ سروں سے عقل پرواز کر جائے، ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا:کیا ان لوگوں سے ہم مباہلہ کریں؟جواب دیا:مگر نہیں جانتے کہ کسی قوم نے اپنے پیغمبرؐ کے ساتھ مباہلہ نہیں کیا مگر یہ کہ ان کے بچوں میں سے کوئی چھوٹا بڑا اور نہ ہی بزرگ باقی بچے؟[1]؎

۲۔      میراعقیدہ ہے کہ صاحب کتاب المنار نے صرف امیر الموٴمنین حضرت علی  سے عناد و دشمنی میں اسے ذكر كیا ہے۔ خدا وند عالم اسکے عقیدہ کے مطابق اس کے ساتھ برتاوٴکرے۔ اس نے اپنی تفسیر میں بہت سی جگہوں پر اہل بیت علیہم السلام سے اپنی ناخوشی و ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ منجملہ جلد۱۰، ص۴۶۰ میں کہتا ہے:مہدی کی حدیثوں میں سے کوئی بھی حدیث صحیح اور قابل احتجاج و استدلال نہیں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ آپس میں تعارض بھی رکھتی ہیں اور ایک دوسرے کو رد کرتی ہیں اور ان حدیثوں کی اصل و اساس ایک سیاسی مشن تھا جو شیعوں کی جانب سے تھا لہٰذا شیعوں کے خرافات ان حدیثوں میں موجود ہیں جو اصول دین کے مخالف ہیں (ظاہراً یہ بات جامع تفسیر یعنی سید رشید رضا کی ہے نہ کہ شیخ محمد عبدہ کی)اور جلد ۳، ص ۳۳۲ میں کہتے ہیں:ابن عساکر جعفر بن محمد سے انہوں نے اپنے باپ سے روایت کی ہے کہ آیہٴ مباہلہ کی تفسیر میں کہا ہے: پیغمبر اسلام (ﷺ)مباہلہ میں ابو بکر اور انکے بچوں، عمر اور انکے بچوں، عثمان اور انکے بچوں اور علی ()اور انکے بچوں کو اپنے ساتھ لے آئے، اور جلد ۱۲، ص ۵۳ میں لکھتے ہیں:آیہٴ مباركہ وَيَتْلُوْهُ شَاهِدٌ مِنْهُ (سورہٴ ھود / ۱۷)میں شاھد کے سلسلے میں دوسری روایات بھی ہیں…… ان میں سے بعض کہتے ہیں شاھد سے مراد علی ()ہیں جسکی روایت شیعہ کرتے ہیں اور اسی کو انکی امامت پر تفسیر کرتے ہیں…… اسکے مقابلہ میں انکے مخالفین نے بھی ابو بکر کے بارے میں روایت کی ہے اور جلد ۸، ص ۴۲۶ میں آیہٴ کریمہ فَأَذَّنَ مُؤَذِّنٌ بَيْنَهُمْ أَنْ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الظَّالِمِينَ (سورہٴ اعراف، ۴۳و۴۴)کی تفسیر میں کہتا ہے:وہ روایت جسکو شیعوں نے امام رضا  اور ابن عباس۔ رضی اللہ علیہ سے نقل کیا ہے کہ موٴذن سے مراد علی۔ کرم اللہ وجہہ ()ہیں وہ اہل سنت سے ثابت نہیں ہے اور اس امام ()سے بعید ہے وہ روز قیامت موٴذن ہوں جبکہ وہ بہشت میں زندگی گذار رہے ہوں گے۔ اور جلد ۸، ص۴۳۳ میں آیہٴ مبارکہ  وَ عَلَي الْاَعْرَافِ رِجَالٌ(سورہٴ اعراف، آیت ۴۳و۴۴)کی تفسیر میں کہتا ہے:اہل اعراف کے سلسلے میں مفسرین اختلاف رکھتے ہیں ایک قول یہ ہے کہ وہ عباس و حمزہ و علی و جعفر ذو لجناحین ہیں اس قول کو آلوسی نے (اپنی تفسیر روح المعانی میں)ذکر کیا ہے اور کہتے ہیں کہ اسکو ضحاک نے ابن عباس سے روایت کیا ہے لیکن ہم نے روائی تفسیروں میں اسے کہیں نہیں دیکھا ظاہراً شیعوں کی تفسیر وں سے نقل کیا ہے۔

۳۔     ہم یہاں پر صاحب المنار اور انکے جیسے افراد سے پوچھتے ہیں فرض کرتے ہیں کہ آپکے نظر یہ کے مطابق ان روایتوں اور حدیثوں کے شیعہ مصادر و مدارک ہیں۔ اگر چہ یہ فرض بھی نادرست و غلط ہے اسلئے کہ یہ مطالب آپکی صحیح و معتبر کتابوں میں آئے ہیں اور آپکے مفسرین و محدثین اور موٴرخین اسکو صحیح بھی مانتے ہیں۔ تو آخر شیعوں کا جرم اور انکی خطا کیا ہے کہ انکی حدیثوں کو نہیں لینا چاہیئے اور اس سے احتجاج و استدلال نہیں کرنا چاہیئے ؟؟!

تعجب ہے ایسے لوگوں پر جو خوارج کی حدیثوں کو تو قبول کرتے ہیں لیکن انکی حدیثیں نہیں لیتے جو ایسے کی پیروی کرتے ہیں جو مثل و شریک قرآن اور نفس رسول خدا ﷺ ہے یعنی علی بن ابی طالب علیہما السلام!شیعوں کا صرف ایک گناہ ہے اور وہ بھی اتنا عظیم ہے کہ قابل بخشش نہیں ہے وہ ہے خاندان پیغمبر اور اہل بیت رسول علیہم السلام کی ولایت اور ان سے دوستی!

وہ اہل بیت (علیہم السلام)جن کی اطاعت کو خدا وند عالم نے اپنی اطاعت اور انکی نافرمانی کو اپنی نافرمانی بتایا ہے۔ وہ جو دین کی اساس و بنیاد اور یقین کا ستون ہیں وہ جن سے خدا وند عالم ہر طرح کی گندگی، نجاست اور پلیدگی کو دور رکھا ہے، وہ جن کے دامن سے اگر کوئی متمسک رہے تو نجات پائیگا لیکن اگر ان سے روگردانی اختیار کی تو غرق اور ہلاک ہوگا۔ وہ جو رسول اکرم ﷺکے علوم کا دروازہ اور شہر فقہ و حکمت اور بہشت کے دروازے ہیں وہ اہل بیت جو اللہ تک پہونچنے کا واضح راستہ ہیں۔

جی ہاں!شیعوں کی صرف یہی خطاہے ہے بس! یہاں تک کہ دشمنوں نے اس تشیع اور اہل بیت علیہم السلام سے اس محبت کو انکی روایتوں پر جرح و قدح اور ان سے کینہ و دشمنی کو ان کی عدالت و وثاقت کا سبب بنایا، خدا ہی اپنی بارگاہ عدالت میں فیصلہ سنائے گا۔

اے شیعوں کے دشمنوں!تم کدھر جا رہے ہو ؟تمہیں کہاں لے جا رہے ہیں ؟جبکہ حق کی نشانیاں قائم اور واضح ہیں، صراط مستقیم کے چراغ روشن اور راستے کی علامتیں آشکار ہیں رسول خدا کے اہل بیت تمہارے درمیان ہیں۔

۴۔ یہ جو کتاب المنار میں کہا کہ عربی زبان میں لفظ نساء لڑکی کے سلسلے میں استعمال نہیں ہوتا بالخصوص اس وقت کہ جب وہ شوہر دار ہو اور اس لئے بعید ہے کہ انفسنا سے مراد علی  ہوں یہ بات نہایت ضعیف ہے جسکی محققین کی نگاہ میں کوئی اہمیت نہیں ہے ان لوگوں پر تعجب ہے جو مفسرین کی صف میں شمار کئے جاتے ہیں اور اس سلسلے میں شاگرد بھی تربیت کئے ہیں لیکن وہ ایسی باتیں کہتے ہیں جو اہل فن کی نظروں میں بالکل بے قیمت ہیں۔

میری نظر میں یہ قول خود شیخ محمد عبد ہ کا نہیں ہے بلکہ ان کے شاگرد سید رضا کا ہے کہ شیعوں سے دشمنی اسکی پہچان ہے گویا اس نے اس آیت کو نہیں دیکھا اور نہیں پڑھا جس میں خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے:

وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ

یعنی جب کبھی میت کے وارث چند بھائی اور بہن ہوں (لڑکے اور لڑکی)تو لڑکا، لڑکی كے دو برابر حصہ لے گا۔[2]؎

اس آیہٴ مبارکہ میں کلمہٴ نساء لڑکیوں کے سلسلے میں استعمال ہوا ہے اور اس میں کسی نے اختلاف نہیں کیا اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا: يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ(سورہٴ نساء، آیت۱۰)اس آیت میں بھی کلمہٴ نساء لڑکیوں پر اطلاق ہوا ہے۔

۵۔      علامہ سید شریف رضی(رحمۃ اللہ علیہ) صاحب کتاب نہج البلاغہ فرماتے ہیں اگر کوئی یہ پوچھے کہ مباہلہ میں بچوں اور عورتوں کے بلانے کا کیا معنی ہے تو یہ واضح وروشن ہے۔ لیکن انفس کے بلانے کا کیا معنی ہے؟اسلئے کہ انسان خود اپنے آپ کو بلائے یہ معنی نہیں رکھتا چونکہ خود کو امر و نہی کرنا صحیح نہیں ہے۔

جواب:تمام راوی اور علماء اس بات پر متفق ہیں کہ جب نصاریٰ نجران کے نمائندے پیغمبر اکرم ﷺکے پاس آئے جن میں اسقف (کہ ابو حارث ابن علقمہ تھے)وسید و عاقب اور انکے بزرگان موجود تھے۔ چنانچہ انکے اور رسول خدا کے درمیان حضرت عیسیٰ مسیح  کے سلسلے میں کچھ باتیں ہوئیں جو تفسیر کی کتابوں میں مذکور ہے۔

جب پیغمبر سلام ﷺنے انھیں مباہلہ کے لئے بلایا تو امیر الموٴمنین علی ()کو آگے اور فاطمہ(زہراعلیہا السلام)کو پیچھے اور (امام)حسن()کو داہنی جانب اور (امام)حسین()کو اپنے بائیں جانب بٹھایا اور نجرانیوں (نصاریٰ نجران)کو ایک دوسرے کے حق میں ملاعنہ(لعنت و بدعا)کے لئے بلایا تو وہ لوگ اپنی جان اور رسول اکرم ﷺ کی سچائی کے خوف اور اپنے چھوٹے ہونے کی بنیاد پر مباہلہ کرنے کے لئے تیار نہیں ہوئے۔

یہ بات بھی واضح ہے کہ ابناء سے مراد حسن و حسین علیہا السلام اور نساء سے مراد فاطمہ زہرا علیہا السلام اور انفس سے مراد امیر الموٴمنین  ہیں اسلئے کہ اس چھوٹی سی جماعت کے درمیان حضرت علی  کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا جو انفسنا کا مصداق ہوتا اور خود رسول خدا ﷺ انفسنا کا مصداق نہیں ہوسکتے اسلئے کہ اس کا کوئی معنی نہیں ہے کہ انسان خود اپنے آپ کو بلائے جس طرح اس کا کوئی معنی نہیں ہے کہ انسان خود کو امر و نہی کرے اور اسی لئے فقہا نے فرمایا ہے: فرمانروا (حاكم) خود اپنے فرمان كے ما تحت نہیں رہتا چنانچہ ہمیشہ فرمانروا كا مقام و مرتبہ فرمانبردار سے بلند رہتا ہے اور اگر خود ہی فرمانبردار بھی ہو تو چاہئے كہ خود اپنے آپ سے بالاتر ہو اور یہ محال ہے۔

6۔     اس آیہٴ شریفہ كے معنی و اعراب كے سلسلے میں مفسرین كے درمیان عجیب و غریب اختلاف ہے: مثلاً كیا یہاں پر ‘‘من موصولہ’’ سے مراد خود پیغمبر اكرمﷺ ہیں یا آنحضرت كے ناصروں میں سے مومنین، یا اہل كتاب سے مؤمنین، یا ہر وہ آدمی جو ہر زمانے میں دین حق كا پیروكار ہو؟ كیا ‘‘بیّنہ’’ سے مراد بنیش الٰہی یا قرآن مجید ہے؟ اور كیا ‘‘یتلوہ’’ تلاوت كرنے كے معنی میں ہے یا دوسرے معنی میں ہے؟ كیا ‘‘یتلوہ’’ میں ضمیر منصوب ‘‘من موصولہ’’ كی طرف پلٹ رہی ہے یا ‘‘بینہ’’ كی طرف جو معنی كے لحاظ سے مذكر ہے؟ كیا ‘‘شاہد’’ سے مراد جبرئیل ہیں یا زبان رسول خداﷺ یا آنحضرتؐ كا چہرہٴ مبارك یا حضرت علی مرتضیٰ ؟ اور كیا ‘‘منہ’’ میں ضمیر خداوند متعال كی طرف پلٹ رہی ہے یا مرسل اعظمﷺ كی طرف؟ اور كیا ‘‘قبلہ’’ كی ضمیر ‘‘من موصولہ’’ كی طرف پلٹ رہی ہے یا ‘‘بینہ’’ كی طرف؟ اور كیا ‘‘اماماً و رحمۃً’’ شاہد كے لئے حال ہے یاجناب موسیٰ كی كتاب كے لئے؟

یہاں تك كہ علامہ طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی كتاب (تفسیر المیزان، جلد 10، ص 192) میں فرمایا : اس آیت كے الفاظ اور ضمیروں كے سلسلے میں جو احتمالات بیان ہوئے ہیں اسكی داستان بڑی ہی عجیب و غریب ہے اور اگر ان احتمالات كو ایك دوسرے میں ضرب (x)دیا جائے تو ہزاروں احتمال تک پہونچ جائیگا کہ جن میں سے بعض صحیح اور بعض غلط و نادرست ہیں لیکن بہت ساری روایتیں جو عامہ و خاصہ سے اس سلسلے میں نقل ہوئی ہیں وہ اس مطلب پر دلالت کرتی ہیں کہ اس سے مراد۔ جو اپنے پر دردگار کی طرف سے واضح و روشن حجت رکھتا ہے۔ رسول اکرم ﷺ ہیں اور اس شاھد سے مراد۔ جو انکے پیچھے ہے۔ علی مرتضی  ہیں اور یہ جو خدا وند عالم نے فرمایا: یہ اس کے شاھد ہیں یعنی گویا حضرت علی  رسول خدا ﷺ کے وجود کا جزء ہیں اور آنحضرت کے اوصیاء علیہم السلام بھی یکے بعد دیگر ے(وحدت کی بنیاد پر)وہ سب پیغمبر اکرم ﷺكےشاھدہیں:

۷۔     وہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں:اس آیت کے سلسلے میں تیسرا قول یہ ہے کہ شاھد سے مراد علی بن ابیطالب  ہیں یعنی وہی بینہ (روشن دلیل)کو پڑھتے ہیں اور آنحضرت کے پیچھے چلتے ہیں اور منہ یعنی یہ شاھد حضرت محمد ﷺ کے وجود کا حصہ (جزء)ہے اور یہ مطلب اس شاھد کی تعظیم كےاعتبار سے ہے کہ وہ آنحضرت کے وجود کا جزء ہیں۔ [3]؎

۸۔      قرطبی لکھتے ہیں:ابن عباس سے روایت ہے یہ اس شاھد سے مراد حضرت علی بن ابیطالب  ہیں اور حضرت علی  سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

قریش میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جس کے بارے میں ایک یا دو آیت نازل نہ ہوئی ہو۔ کسی شخص نے سوال کیا:آپکے بارے میں کون سی آیت نازل ہوئی ہے؟آپ نے فرمایا: وتیلوہ شاھدٌ منہ میرے شان میں نازل ہوئی ہے۔[4]؎

۹۔       آلوسی بغدادی لکھتے ہیں:ابن مردویہ نے حضرت علی (کرم اللہ وجہ) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:رسول خدا ﷺ نے فرمایا:پروردگار عالم کی جانب سے جو واضح و روشن حجت ہے وہ میں ہوں اور اس کا شاھد علی ہیں اس آیت کا معنی یہ ہے کہ سب سے بڑا شاھد جو خدا وند عالم کی طرف سے انکی نبوت کی گواہی دیتا ہے انکے پیچھے ہے اور یہ جو خدا نے فرمایا کہ شاھد ان سے ہے یعنی ان سے خالی نہیں ہے۔[5]؎

۱۰۔     ان دونوں حضرات کی تعارف میں اس مضمون کی روایتوں کو علامہ فیض کاشانی رحمۃ اللہ علیہ نے امیر الموٴمنین ، امام محمد باقر، امام حعفر صادق، امام موسیٰ کاظم اور امام علی رضا علیہم السلام سے روایت کی ہے۔[6]؎

۱۱۔      جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں:ابن مردویہ نے عائشہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:اے رسول خدا (ﷺ)خدا كےنزدیک محبوب ترین اور عظیم ترین مخلوق کون ہے؟تو آنحضرت نے فرمایا:

اے عائشہ!مگر تم نے یہ آیت نہیں پڑھی:اِنَّ الَّذِيْنَ آمَنُوْا…[7]؎

ابن عسا کر نے جابر ابن عبد اللہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: ہم حضور سرور کائنات ﷺ کے پاس تھے اتنے میں علی ()وارد ہوئے تو اس وقت رسول خدا ﷺ نے فرمایا: اس ذات کی قسم جسکے قبضہٴ قدرت میں میری جان ہے! یہ (یعنی علی )اور انکے شیعہ ہی روز قیامت کا میاب ہوں گے اور اس وقت یہ آیت نازل ہوئی اِنَّ الَّذِيْنَ آمَنُوْا…لہٰذا جب بھی آنحضرت کے اصحاب حضرت علی ()کو آتے ہوئے دیکھتے تو کہتے: بہترین مخلوق آگیا۔ [8]؎

۱۳۔    ابن عدی اور ابن عسا کرنے ابو سعید سے سند مرفوع کے ساتھ روایت کی ہے:علی ()بہترین مخلوق ہیں۔[9]؎

۱۴۔     ابن عدی نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:جب یہ آیت کریمہ خیر البریة نازل ہوئی تو سرور کائنات ﷺ نے علی ()سے فرمایا:یہ تم اور تمہارے شیعہ ہیں جو قیامت کے دن خوشنود اور محبوب خدا ہوں گے۔[10]؎

15۔   ابن مردویہ نے حضرت علی  سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا:

اے علیؑ! کیا تم نے یہ آیت نہیں سنی ؟ اِنَّ الَّذِيْنَ آمَنُوْا…وہ تم اور تمہارے شیعہ ہیں۔[11]؎

۱۶۔     طبری اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: خدا وند متعال فرماتا ہے:وہ لوگ جو خدا اور اسکے رسول محمد پر ایمان لائے اور خالصانہ  وحدانیت اور بغیر شریک کے خدا کی عبادت کی اور نماز قائم کی اور زکات دی اور تمام اوامر و نواہی میں خدا کی اطاعت کی، وہی بہترین مخلوق ہیں۔ اور فرماتا ہے:لوگوں میں سے جنہوں نے ایسا كیا وہی بہترین مخلوق ہیں اور ابن حمید نے عیسیٰ ابن فرقد سے، انہوں نے ابو الجارود سے، انہوں نے محر ابن علی (امام محمد باقر) سے یہ حدیث روایت كی ہے كہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:

اے علی! ‘‘خیر البریۃ’’ سے مراد تم اور تمہارے شیعہ ہیں۔[12]؎

17۔  آلوسی اپنی تفسیر میں لكھتے ہیں كہ ابن مردویہ نے حضرت علی-كرم اللہ وجہہ – () سے روایت كیا كہ پیغمبر اسلامﷺ نے مجھ سے فرمایا:

كیا تم نے یہ آیت نہیں پڑھی: اِنَّ الَّذِيْنَ آمَنُوْا…؟اس سے مراد تم اور تمہارے شیعہ ہیں اور میں اور تم حوض كوثر پر ملیں گے اس وقت كہ جب ساری امتوں كا حساب ہو گا اور تمہارے شیعہ روسفید، تابندہ اور درخشاں ناموں سے پكارے جائیں گے۔

پھر اسی سلسلے میں دو روایت نقل كرنے كے بعد كہتے ہیں (اس لئے كہ ‘‘غرّ المحجلین’’ سے مردا چہرے كا نور اور اسكی چمك ہے۔ لہٰذا تكرار كی وجہ سے میں نے اُسے نقل نہیں كیا ) اور تم جانتے ہو كہ ‘‘بریّہ’’ سے مراد تمام مخلوقات ہیں اور یہ بیان بالكل واضح ہے۔ اور امامیہ (شیعہ اثنا عشری) اگر چہ حضرت علی كو تمام انبیاء سے بہتر حتی الو العزم انبیاء (علیہم السلام) اور مقرب فرشتوں سے افضل و بہتر جانتے ہیں لیكن رسول اكرمﷺ سے افضل نہیں جانتے۔ اب اگر كوئی یہ كہے كہ یہاں ‘‘بریۃ’’میں پیغمبر اكرمﷺ شامل نہیں ہیں اسی دلیل كے ذریعہ جو دلالت كرتی ہے كہ آنحضرتؐ سب سے افضل ہیں تو اس كا جواب یہ ہے كہ اس بنیاد پر دوسرے انبیاء علیہم السلام اور فرشتے بھی شامل نہیں ہیں۔[13]؎

18۔  جس طرح ہم نے حدیثوں سے حضرت علی كے گذشتہ انبیاء (علیہم السلام) سے افضلیت ثابت كی ہے اسی طرح فخر رازی نے مندرجہ ذیل آیت سے استدلال كیا كہ رسول خداﷺ گذشتہ تمام انبیاء سے افضل تھے اس لئے كہ انكی تمام خصلتیں آنحضرتؐ میں جمع تھیں:

أُولَٰئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۖ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ ۗ …

یہ انبیاء وہ ہیں جنكی خدا نے ہدایت كی ہے لہٰذا اے پیغمبر آپ انكی اقتدا كریں……[14]؎

وہ (فخر رازی) كہتے ہیں: علماء اس آیت سے استدلال كرتے ہیں كہ ہمارے نبیﷺ تمام انبیاء علیہم السلام سے افضل تھے۔ داؤد و سلیمان شكر گذار تھے اسلئے كہ ہم نے بیان كیا كہ خصال كمال اور صفات شرف ان كے درمیان پراكندہ تھیں، ایوب مصیبتوں پر صبر كرنے والے، یوسف ان دونوں صفتوں كے مالك، موسیٰ صاحب معجزہ و صاحب شریعت اور قوی تھے، زكریا، یحییٰ، عیسیٰ اورالیاس زہد كے كمال پر تھے، اسماعیل صدق و سچائی كے مالك، یونس تضرع و زاری كرنے والے تھے۔ پس معلوم ہوا كہ خداوند عالم نے ان تمام انبیاء میں جو صفات مدح و شرف پائی جاتی تھیں انہیں اسی سے یاد كیا ہے۔ لیكن آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰﷺكو حكم دیا كہ ان سب كی اقتداء كریں اور انہیں كی سیرت و روش كو اپنائیں۔ گویا خداوند متعال نے آنحضرتؐ كو یہ حكم دیا كہ بندگی و فرمانبرداری كے وہ تمام صفات جو انكے اندر بطور پراكندہ موجود ہیں انہیں اپنے اندر پیدا كریں۔ اور یہ ممكن نہیں ہے كہ رسول اكرمﷺ اس مسئلے میں كوتاہی كریں اور اُسے حاصل نہ كئے ہوں اور ذرہ برابر شك و شبہ نہیں ہے كہ آنحضرتؐ نے ان صفتوں كو اپنے اندر پیدا كیا۔ لہٰذا آنحضرتؐ میں وہ تمام نیك صفات موجود ہیں جو تمام انبیاء میں تھے۔ اسی دلیل كی روشنی میں یہ كہا جا سكتا ہے كہ رسول خدا حضرت محمد مصطفیٰﷺ تمام انبیاء علیہم السلام سے افضل تھے۔[15]؎

اس استدلال اور گذشتہ احادیث كی روشنی میں ہم یہ بات كہنے میں حق بجانب ہیں كہ حضرت علی بھی ان سب سے افضل ہیں۔

19۔  علامہ سید ہاشم بحرانی رضوان اللہ علیہ جناب جابر ابن عبد اللہ انصاری سے روایت كرتے ہیں كہ انہوں نے كہا: رسول خداﷺ نے مجھ سے فرمایا:اے جابر! كون سے بھائی افضل ہیں؟ میں نے عرض كیا: وہ جو ایك ماں باپ سے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا:

ہم گروہ انبیاء آپس میں بھائی ہیں اور میں ان میں سے سب سے افضل و برتر ہوں۔ آگاہ ہو جاؤ! میرے نزدیك تمام بھائیوں میں محبوب ترین علی بن ابی طالب() ہیں اور وہ میرے نزدیك تمام انبیاء سے افضل ہیں۔ لہٰذا اگر كوئی یہ خیال كرے كہ تمام انبیاء ان سے (علی) افضل ہیں تو گویا اس نے مجھے ان (انبیاء) سے كمتر خیال كیا اور جو مجھے ان سے كمتر (غیر افضل) سمجھے وہ كافر ہے۔ اس لئے كہ میں نے علی كو اپنا بھائی نہیں بنایا مگر یہ كہ ان میں تمام فضل و كمال میں نے دیكھا۔[16]؎

20۔  حضرت امام موسیٰ كاظم نے رسول اكرمﷺ سے روایت كی ہے كہ آنحضرتؐ نے حضرت علی سے فرمایا:

میں اللہ تعالیٰ كی طرف سے رسول بنا كر بھیجا گیا ہوں اور تم اسكی جانب سے مطاع و فرمانروا ہو جسكی پیروی تمام لوگوں كو كرنی چاہئے۔ لہٰذا نہ میرے پاس تمہارے سوا كوئی نظیر ہے اور نہ ہی مجھ جیسا تمہارے پاس كوئی مثل ہے۔[17]؎

21۔  ایك قابل اعتماد (بھروسہ مند) جماعت نے روایت كی ہے كہ جس وقت حرّہ، حلیمہٴ سعدیہ كی بیٹی حجاج ابن یوسف ثقفی كے دربار میں وارد ہوئیں اور اسكے مقابل میں كھڑی ہوئیں تو حجاج نے ان سے كہا: تم ہی حلیمہٴ سعدیہ كی بیٹی حرّہ ہو؟ حرّہ نے جواب دیا: غیر مؤمن سے ہوشمندی (تعجب خیز ہے!) حجاج نے كہا: تجھے، خدا یہاں تك لے آیا اس لئے كہ مجھے اطلاع ملی ہے كہ تم علی كو ابو بكر و عمر اور عثمان سےافضل و برتر جانتی ہو؟ حرّہ نے جواب دیا: جس نے تم سے یہ كہا میں علی كو صرف ان چند لوگوں سے افضل جانتی ہوں اس نے جھوٹ كہا ہے۔ حجاج نے كہا: ارے ان كے علاوہ دوسرےاور كون ہیں جن پر تم علی كو فضیلت دیتی ہو؟ حرّہ نے كہا: آدم، نوح، لوط، ابراہیم، داؤد، سلیمان اور عیسیٰ ابن مریم علیہم السلام۔ حجاج نے كہا: وائے ہو تجھ پر! ابھی تك تو تم علی كو صحابہ سے افضل مانتی رہیں لیكن اب تو تم نے سات الو العزم نبیوں كو بھی شامل كر لیا! یاد ركھو! جو تم نے كہا ہے اگر اسكی وضاحت نہ كر سكیں اور ٹھوس دلیل نہ دے سكیں تو تمہاری گردن اڑا دونگا۔

حرّہ نے جواب دیا: میں نے علی كو ان انبیاء پر فضیلت و برتری نہیں دی ہے بلكہ خدا نے فضیلت دی ہے۔ چنانچہ جناب آدم كے سلسلے میں فرماتا ہے: وَعَصَىٰ آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَىٰ۔

آدمؑ نے خدا كی نافرمانی (ترك اولیٰ) كیا لہٰذا گمراہ ہو گئے۔[18]؎

لیكن حضرت علی كے متعلق فرمایا:

وَكَانَ سَعْيُكُمْ مَشْكُورًا

خدا تمہاری كوشش كا شاكر و سپاسگذار ہے۔[19]؎

حجاج نے كہا: ٹھیك، لیكن نوح و لوط (علیہما السلام) پر كس دلیل سے فضیلت دیتی ہو؟ حرّہ نے جواب دیا: خدا نے ان دونوں پرفضیلت دی ہے جیسا كہ ارشاد ہوتا ہے:

ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ ۖ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَقِيلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ

خداوند عالم كافروں كے سلسلے میں نوح اور لوط كی بیوی كی مثال دیتا ہے كہ جو ہمارے نیك بندوں كی زوجیت میں تھیں لیكن ان دونوں نے انكے ساتھ خیانت كی اور وہ (نوح و لوط علیہما السلام) بھی اپنی بیویوں كو عذاب خدا سے بچا نہ سكے جس كے نتیجے میں ان دونوں سے كہا گیا كہ جہنمیوں كے ساتھ دوزخ میں داخل ہو جاؤ۔[20]؎

لیكن علی بن ابیطالب فرشتوں كے ہمراہ اپنی زوجہ فاطمہ زہرا علیہا السلام كے ساتھ -جسكی رضا اللہ تعالیٰ كی رضا اور جس كا غضب خدا كا غضب ہے – سدرۃ المنتہیٰ كے نیچے ہیں (یہ بات بھی واضح رہے كہ یہ ایك مجادلہ كی بحث ہے اس لئے كہ كسی كی بیوی كا غلط ہونا اسكے مفضول ہونے كی دلیل نہیں ہے۔ ورنہ رسول خداﷺ بھی اپنی بعض بیویوں كی ناشائستہ كرتوت كی بنیاد پر مفضول قرار پائیں گے اوراسی طرح سے بعض ائمہ علیہم السلام بھی اپنی بعض نا مناسب بیویوں كی وجہ سے مفضول قرار پائیں گے۔ لہٰذا حضرت علی كی تمام انبیاء سے برتری و افضلیت كی دلیل وہی ہے جسكو مشہور مفسرین نے بیان كیا ہےاور اس سلسلے میں مؤلف محترم نے مفصل فٹ نوٹ (حاشیہ) میں بیان كیا ہے جو انشاء اللہ اسی كتاب كے آخر میں مظلومیت كی بحث میں آئیگا۔ مترجم)

حجاج نے كہا: بہت خوب حرّہ! لیكن ابراہیم خلیل الرحمٰن پر كس دلیل كی بنیاد پر برتری دیتی ہو؟ جواب دیا: خداوند عالم نے آنحضرتؐ كو ان پر فضیلت دی ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَىٰ ۖ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ ۖ قَالَ بَلَىٰ وَلَٰكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي

اور جب ابراہیم نےعرض كیا: اے پروردگار! مجھے دكھا كہ تو مردوں كو كس طرح زندہ كرتا ہے؟ خداوند عالم نے فرمایا: مگر تم ایمان نہیں ركھتے؟ (تمہیں یقین نہیں ہے؟) كہا: كیوں نہیں! لیكن اپنے اطمینان قلب كی خاطر۔[21]؎

لیكن ہمارے آقا و مولا امیر المومنین نے وہ جملہ ارشاد فرمایا ہے جس میں كسی بھی مسلمان كو اختلاف نہیں ہے۔ حضرتؑ نے فرمایا:

لَوْ كُشِفَ الْغَطَاءُ مَا ازْدَدْتُ يَقِيْنًا.

اگر سارے پردے ہٹا دئے جائیں تو بھی میرے یقین میں اضافہ نہیں ہوگا۔

اور یہ بات وہ ہے جسكو كسی نے ان سے پہلے نہ كہا ہے اور نہ كہہ سكے گا۔

حجاج نے كہا: بہت خوب! موسیٰ كلیم اللہ پر كس دلیل سے فضیلت دیتی ہو؟ جواب دیا: خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے:

فَخَرَجَ مِنْهَا خَائِفًا يَتَرَقَّبُ

پس موسیٰ اس شہر سے خوف و ہراس كے عالم میں خارج ہوئے۔[22]؎

لیكن علی بن ابیطالب شب ہجرت رسول خداﷺ كے بستر پر اس طرح سوئے كہ ذرہ برابر خوف و خطرہ محسوس نہیں كیا۔ یہاں تك كہ خداوند عالم نے آپكی شان میں یہ آیت نازل فرمائی:

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ

اور لوگوں میں سےوہ بھی ہیں جو اپنے نفس كو مرضیٴ پروردگار كی خاطر بیچ دیتے ہیں……[23]؎

حجاج نے كہا: اے حرّہ! حضرت داؤد و سلیمان علیہما السلام پر كس دلیل كی وجہ سے فضیلت دیتی ہو؟ جواب دیا: خود خدا نے ان پر فضیلت و برتری دی ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

اے داؤد! ہم نے زمین پر تم كو خلیفہ بنایا ہے لہٰذا لوگوں كے درمیان حق و انصاف كے ساتھ فیصلہ كرو۔ دیكھو خواہشات نفس كی پیروی نہ كرنا ورنہ تم كو صراط مستقیم سے بھٹكا دیگا۔[24]؎

حجاج نے كہا: انہوں نے کس سلسلہ میں فیصلہ کیا ؟حرہ نے کہا دو آدمیوں کے درمیان جن میں سے ایک انگور کے درخت کا مالک اور دوسرا گوسفند (بھیڑ) کا مالک تھا اسلئے کہ اس کا گوسفند، باغ میں جا کر اسکے انگور کو کھا لیا تھا اس وقت دونوں آدمی جناب داوٴد کے پاس آئے تو حضرت داوٴد نے فرمایا: گوسفند فروخت کر دیئے جائیں اور اس پیسہ کو انگور کے درخت پر خرچ کیا جائے تا کہ درخت اپنی حالت پر پلٹ آئے اس وقت ان کے بیٹے (سلیمان) نے کہا نہیں بابا! بلکہ اس گوسفند کے دودھ اور بال سے استفادہ کیا جائے۔ خدا وند متعال اس سلسلے میں فرماتا ہے:ہم نے واقعی حکم سلیمان کو بتا دیا ۔[25]؎

علامہ طباطبائی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اپنی تفسیر میں تحریر کرتے ہیں:قرآن فرماتا ہے:جس وقت حضرت داوٴد و حضرت سلیمان علیہما السلام فیصلہ کر رہے تھے یعنی آپس میں مشورہ اور دوسرے کی رائے لے رہے تھے نہ یہ کہ واقعی حکم نافذ کر دیا اور اگر حضرت سلیمان  نے اس واقعہ میں مداخلت کی تو اپنے بابا حضرت داوٴد  کی اجازت سے اور اس میں حکمت کارفرما تھی اور وہ یہ کہ شاید جناب داوٴد یہ چاہ رہے تھے کہ اس حکم سے اپنے بعد(جانشینی کے لئے) حضرت سلیمان  کی خلافت کے لئے انکی لیاقت و شایستگی کا اندازہ لگائیں۔ (نہ یہ کہ نعوذ باللہ حضرت داوٴد  نے غلط فیصلہ کیا اور جناب سلیمان  نے انکی اصلاح کی۔[26]؎

لیکن میرے مولا امیر الموٴمنین حضرت علی  نے فرمایا: مجھ سے عرش کے اوپر اور اسکے نیچے کی باتیں پوچھو، مجھ سے جو پوچھنا چاہو پوچھ لو قبل اس کے کہ تمہارے درمیان سے چلا جاؤں اور جس وقت جنگ خیبر میں حضرت علی  پیغمبر اسلام ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آنحضرت نے حاضرین کی طرف رخ کر کے فرمایا: تم میں سب سے افضل و اعلم اور بہتر ین فیصلہ کرنے والے علی ہیں۔

حجاج نے کہا:حرّہ!کس دلیل کی بنا پر تم علی کو سلیمان پر فضیلت دیتی ہو؟ جواب دیا:خدا وند عالم نے ان پر فضیلت دی ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:سلیمان نے عرض کیا: بارالہا!

مجھے بخش دے اور مجھے ایسی حکومت و سلطنت عطا کر کہ ہر گز میرے بعد کسی کو نصیب نہ ہو۔ [27]؎

علامہ طبا طبائی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: شاید لوگ اعتراض کریں کہ حضرت سلیمان کی اس دعا میں ایک طرح کی کنجوسی اور تنگ نظری پائی جاتی ہے۔ اس لئے کہ انہوں نے یہ شرط لگا دی ہے کہ ایسی حکومت عطا ہو جو میرے بعد کسی کو نہ ملے تو اس کا جواب یہ ہے کہ انہوں نے ایک ایسی حکومت و سلطنت کا مطالبہ کیا ہے جو انہیں سے مخصوص ہو نہ یہ کہ دوسرے لوگ حکومت و سلطنت سے محروم رہیں لہٰذا اختصاصی حکومت کا مطالبہ کرنا اور حکومت کا خود سے مخصوص ہونا دونوں میں فرق ہے[28]؎ اور تفسیر کشاف ج ۳، ص ۳۷۵ میں نقل ہوا ہے کہ حضرت سلیمان نبوت و سلطنت کے گھرانے میں پرورش پائے ہیں اور وہ ان دونوں مقام کے وارث تھے لہٰذا انہوں نے خدا سے ایک ایسے معجزے اور اپنی طبیعت کے مطابق ایسی سلطنت کی درخواست کی جو تمام سلطنتوں سے الگ تھی اور جو اعجاز(معجزہ)کی حد تک پہونچ جائے جو انکی نبوت کی دلیل ہے اور جن لوگوں پر مبعوث ہوئے تھے وہ ان پر نافذ ہو سکے۔

نقل ہوا ہے کہ لوگوں نے حجاج سے کہا:تم حاسد ہو، اس نے کہا: مجھ سے زیادہ کوئی حاسد ہے؟جیسا کہ کہا: خدا یا مجھے ایسی حکومت عطا کر جو میرے بعد کسی کو نہ ملے اور یہ بھی نقل کیا ہے کہ اس نے کہا: ہماری اطاعت خدا کی اطاعت سے زیادہ واجب ہے اس لئے کہ خدا نے اپنی اطاعت کے لئے شرط رکھی ہے چنانچہ فرمایا: جہاں تک ہو سکے تقویٰ الٰہی اختیار کرو، لیکن اولی الامر (کہ انھیں میں سے ایک میں ہوں)کے بارے میں فرمایا:اور اولی الامر کی اطاعت کرو لہٰذا ہماری اطاعت کو مطلق (بغیر قید و شرط کے)ذکر کیا ہے۔ البتہ اس نے اس بات کو نہایت جسارت اور کمال شیطنت کی بنیاد پر کہا ہے)

لیکن ہمارے مولا امیر الموٴمنین  نے فرمایا: اے دنیا!میں نے تجھے تین مرتبہ طلاق دیا مجھے تیری خواہش نہیں ہے لہٰذا خدا وند عالم نے آپکی شان میں یہ آیت نازل فرمائی:ہم نے آخرت کی کامیابی ان لوگوں کے لئے قرار دی ہے جو زمین پر برتری اور فساد نہیں چاہتے۔[29]؎

حجاج نے کہا: اے حرہ! کس دلیل کی بنیاد پر تم علی کو عیسیٰ ابن مریم پر فضیلت دیتی ہو؟

حرہ نے جواب دیا:میں نے فضیلت نہیں دی بلکہ خدا وند متعال نے فضیلت دی ہے جس کو قرآن مجید نے نقل کیا ہے:(قیامت کے دن)خدا فرمائیگا:اے عیسیٰ بن مریم!تم نے لوگوں سے کہا کہ خدا ئے وحدہ لا شریک کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو خدا مان لو؟اس وقت جناب عیسیٰ عرض کریں گے:بارالہا! تیری ذات بے نیاز ہے ایسی بات کیسے کہوں گا جس کا مجھے کوئی حق نہیں ہے اور اگر میں نے کہا تھا تو تجھے تو معلوم ہی ہے اس لئے کہ تو میرے دل کا حال جانتا ہے اور میں تیرے اسرار سے آگاہ نہیں ہوں[30]؎ یہاں حضرت عیسیٰ نے ان لوگوں کو مجازات نہیں کیا بلکہ فیصلے کو روز قیامت پر ٹال دیا لیکن علی بن ابیطالب  نے جس وقت نصیری فرقہ (غالیوں کا ایک فرقہ جو ائمہ معصومین علیہم السلام کی الوہیت کا عقیدہ رکھتا ہے مترجم)نے حضرت علی  کے سلسلے میں باطل عقیدہ کا اظہار کیا اس وقت حضرت نے ان سب کو قتل کر دیا اور فیصلہ کو آخرت پر نہیں ٹالا۔

یہ ہیں حضرت علی  کے فضائل جو دوسروں کے فضائل سے قابل قیاس نہیں ہیں

حجاج نے کہا: اے حرہ! تم نے اپنی بات ثابت کر دیا اور اگر ثابت نہ کر پاتیں تو وہی ہوتا جو میں نے کہا تھا(تمہاری گردن قلم کر دیتا)اس وقت حرہ سعدیہ کو انعام و اکرام سے نوازا اوربڑی ہی عزت و احترام کے ساتھ اپنے دربار سے رخصت کیا۔ خدا وند عالم حرہ کی مغفرت فرمائے۔[31]؎

۲۲۔    فخر الدین رازی اپنی تفسیر میں اس آیہٴ کریمہ: و تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض

یعنی ہم نے ان رسولوں میں بعض کو بعض پر فضیلت و برتری دی ہے [32]؎کے سلسلے میں لکھتے ہیں امت اسلامیہ کا اجماع ہے اس بات پر کہ بعض انبیاء بعض سے افضل ہیں اور حضرت محمد مصطفی ﷺ سب سے افضل ہیں اور اس مسئلہ پر چند دلیلوں کے ذریعہ استدلال کیا جا سکتا ہے منجملہ ان دلیلوں میں سے یہ آیہٴ کریمہ:وما ارسلناک الا رحمة للعالمین[33]؎اور ہم نے آپ کو ساری کائنات کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے جس وقت آنحضرت پوری کائنات کے لئے رحمت ہیں تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ آپ سب سے افضل بھی ہیں۔[34]؎

یہ بات بھی واضح رہے کہ یہی دلیل حضرت علی  کے تمام انبیاء سے افضل ہونے پر دلالت کر رہی ہے اس لئے کہ حضرت علی  نفس رسول خدا ﷺ ہیں چنانچہ اس سے پہلے گذر چکا اور فخر الدین رازی نے بھی اس مطلب کا اعتراف کیا ہے ہم نے انکی بات کو بعینہ شیعہ روایتوں کے اعتبار سے بیان کیا ہے اور اس پر کسی طرح کوئی اعتراض نہیں کیا ہے حالانکہ وہ امام المشککین(شک کرنے والوں کے امام)ہیں صرف ایک جگہ (اپنی عادت کے مطابق)انہوں نے اشکال تراشی کی ہے لہذا ہم اس چیز کو بیان کر کے بات کو طول نہیں دیں گے۔

اُزری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:ھو فی آیة التباھل نفس النبی لا غیرہ ایاھا۔ یعنی آیہٴ مباہلہ میں وہی (علی )نفس پیغمبر اسلام ﷺ ہیں ان کے علاوہ کوئی دوسرا اس آیت میں مراد نہیں ہے اور چونکہ پیغمبر اکرم ﷺ سب سے افضل ہیں لہذا نفسِ رسول(علی )بھی سب سے افضل ہوں گے دوسری جگہ لکھتے ہیں:لک ذات کذاتة حیث لو لا انھا مثلھا لما آخا ھا تمہاری ذات، انکی ذات ہے اسلئے کہ اگر ان کے جیسا نہ ہوتے تو وہ آپکو برادری کے لئے منتخب نہ کرتے اور پھر فخر رازی کہتے ہیں پیغمبر اسلام ﷺ کا دین تمام ادیان سے بہتر ہے لہٰذا جس کا لازمہ ہے کہ محمد مصطفی ﷺ تمام انبیاء سے افضل ہوں لیکن دین اسلام کا بہتر ہونا اس لحاظ سے ہے کہ خدا وند عالم نے دین اسلام کو تمام ادیان گذشتہ کے لئے ناسخ (ختم کرنے والا)قرار دیا ہے اور ناسخ کے لئے ضروری ہے کہ وہ سب سے بہتر و بر تر ہو اسلئے کہ رسول خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر کوئی نیک سنت کی بنیاد ڈالے تو اسکی جزاء اور ان لوگوں کی جزاء میں جو قیامت تک اس پر عمل کریں گے شریک ہے۔ اور چونکہ یہ دین سارے دینوں پر سب سے بہتر و افضل ہے تو اس کے واضع بھی بہتر ہوں گے لہذا محمد مصطفی ﷺ تمام انبیاء سے افضل ہیں۔[35]؎

اگر فضیلت کا معیار ثواب کا زیادہ ہونا ہے۔ اگر چہ حقیقت امر یہی ہے۔ تو حضرت علی  تمام انبیاء حتی الوالعزم نبیوں سے بھی افضل ہیں اسلئے کہ ان کا اجر و ثواب سب سے زیادہ اوران کا مقام و رتبہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ہے۔ اس بات کی گواہ وہ بہت ساری حدیثیں ہیں جن کو عامہ خاصہ نے نقل کیا ہے اور ہم نے اس سے پہلے ان میں سے چند حدیثوں کی طرف اشارہ کیا ہے منجملہ ان میں سے یہ حدیث کہ رسول خدا ﷺ نے حضرت علی  سے فرمایا: اے ابو الحسن!اگر تمام مخلوقات کا ایمان اور اعمال ترازو کے ایک پلے پر رکھا جائے اور روز احد کا تمہارا عمل ترازو کے دوسرے پلے پر رکھا جائے تو تمہارا عمل ان سب کے اعمال پر بھاری ہو گا اور خدا وند عالم نے احد کے دن اپنے تمام مقرب فرشتوں پر تم کو برتری دی ہے اور افتخار کیا اور ساتوں آسمانوں کے پر دے ہٹا دیئے، جنت اور اسکی تمام چیزوں کو تمہارے سامنے واضح کر دیا اور پروردگار عالم تمہارے عمل سے بہت خوش ہوا اور خدا تمہیں اس روز کے عمل کے بدلے ہر وہ ثواب و نعمت عطا کریگا جسکو دیکھ کر خود پیغمبر، رسول، صدیق اور شہیدرشک کریں گے[36]؎اور آنحضرت نے جنگ احزاب(خندق)میں فرمایا:خندق کے روز علی کی ایک ضربت جن و انس کی عبادت سے افضل ہے[37]اور ازری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:لا فتیٰ فی الوجود الا علی۔

ذاک شخصٌ بِمِثْلِہِ اللہ باَھیِ۔ یعنی عالم وجود میں جواں مرد، علی کے علاوہ کوئی نہیں ہے، وہ ایسے ہیں کہ خدا وند عالم نے ان پر فخر کیا ہے۔

فخر رازی لکھتے ہیں:بعض نبیوں کا بعض پر فضیلت رکھنا اسکی چند و جہیں ہیں ان میں سے ایک معجزات کا زیادہ ہونا جو انکی سچائی کی دلیل اور انکی شرافت کا موجب ہے اور ہمارے بنی کریم ﷺ کے حق میں تین ہزار سے زیادہ معجزات ثابت ہو چکے ہیں جنکی چند قسمیں ہیں…… اور بعض کا تعلق علوم سے ہے جیسے غیب کی خبر دینا اور قرآن مجید کی وضاحت……[38]؎

فخر رازی کی یہ بات بالکل صحیح ہے اور اس میں ذرہ برابر شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے اسلئے کہ آنحضرت ﷺ تمام انبیاء میں منتخب اور افضل برتر ہیں جب کہ بوصیری کہتے ہیں:

فاقَ النبیین فی خلق وفی خُلق                     ولم یدانوہ فیِ علمٍ ولا کرم

وکل آيی اَتیٰ الرُسُلُ الکرامُ بھاَ                        فانھا اتَّصَلتْ مِنْ نورِہِ بِھِم

و کُلھم من رسول اللہ مُلْتمِسٌ                  غرقاً مِنَ الْیمّ اَوْ رشْقاً مِن الدّیمِ

ہمارے بنی ﷺ خلق و خلق میں تمام نبیوں سے افضل ہیں اور وہ حضرات علم وکرم میں آپکی خاک پا تک بھی نہیں پہونچے اور جو بھی معجزہ سارے رسول اللہ ﷺ کی طرف سے لے آئے وہ سب آنحضرت کے نور مقدس سے ان تک پہونچا اور وہ سب کے سب رسول خدا ﷺ کے فضل و کرم کے خواہاں ہیں۔

جی ہاں!واقعاً آنحضرت علوم و معارف و معجزات اور حقائق کے شہر تھے لیکن کسی كے لئے اس شہر تک رسائی ممکن نہیں ہے مگر یہ کہ وہ دروازے سے وارد ہواور اس کا دروازہ ہمارے آقا مولا حضرت علی  کا وجود مقدس ہے لہٰذا ازری رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:

انما المصطفیٰ مدینة علم                                         وھوالبابُ من اتاہ اتاھا

یعنی مصطفی ہی علم کے شہر ہیں اور علی()اسکے دروازہ ہیں پس جو بھی اس دروازے تک جائیگا وہ شہر میں داخل ہو گا۔

علامہ مناوی شافعی لکھتے ہیں: حضرت محمد مصطفی ﷺ دین و دیانت کے شہر ہیں اور شہر کے لئے دروازہ ضروری ہے اور خود آنحضرت ﷺ نے خبر دیا ہے کہ اس شہر کے دروازہ علی کرم اللہ وجہ۔ ()ہیں لہٰذا جو بھی ان کا راستہ اپنا ئیگا وہ مدینہ (شہر)میں داخل ہوگااور جو بھی انکے بر خلاف قدم اٹھائیگا وہ راہ ہدایت سے منحرف ہوگااور وہاں تک نہیں پہونچے گا۔[39]؎

دوسری جگہ لکھتے ہیں: علی بن ابیطالب()وہی دروازہ ہیں جس سے شہر حکمت تک پہونچا جا سکتا ہے سبحان اللہ!یہ مرتبہ کتنا بلند ہے اور یہ فضلیت کتنی عظیم ہے!جو بھی یہ خیال کرے کہ ‘‘علی بابھا’’ بمعنای ارتفاع یعنی اس کا دروازہ بلند ہے بے شک اس نے اپنے برے مقصدکے لئے چارہ جوئی کی کوشش کی ہے جو اسکے کام نہیں آئیگی اور اسے کوئی فائدہ نہیں پہونچائیگی۔[40]؎

علامہ طریحی رضہ اللہ علیہ تحریر کرتے ہیں: معتبر اور صحیح روایت میں ہے کہ پیغمبر اکرم ﷺ نے فرمایا:میں علم کا شہر ہوں اور علی اسکے دروازہ ہیں پس جو بھی علم کا خواہاں ہے اسے چاہئے کہ وہ در وازہ تک جائے اس حدیث کو بہت سے علماء نے روایت کیا ہے اور بعض نے تو نقل کیا ہے کہ اس پر امت کا اجماع ہے اس حدیث پر رسول خدا ﷺ نے خود کو علم کا شہر قرار دیا ہے اور اس تک رسائی کو دروازہ کے علاوہ وارد ہونے سے منع فرمایا ہے لہٰذا جو بھی دروازے سے وارد ہوگا تو اس کے گناہوں سے بچنے کے لئے ایک وسیع میدان سامنے ہوگا اور بہت بڑی کامیابی اسکے ہاتھ آئیگی اور سیدھے راستے کی ہدایت پائیگا۔

منقول ہے کہ اس حدیث کی وجہ یہ تھی کہ ایک روز عرب کا ایک بیابان گرد آلود رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں آیا اور (اپنے بیابانی لہجہ میں)عرض کیا:طمشٌ طَاحَ، فَغَادَر شِبْلاً لِمَنِ النَّشَبُ؟ ایک آدمی مر گیا اور ایک بیٹا یادگار کے طور پر چھوڑا ہے تو اس کا بچا ہوا مال کس کا ہے؟آنحضرت نے فرمایا: للشّبلِ مُمِیْطاً مال اسی بیٹے کا ہے اسی اثنا میں حضرت علی  وارد ہوئے تو آنحضرت نے اس آدمی کی ساری بات آپ سے بتائی تو حضرت علی  نے بھی وہی جواب دیا۔ اس وقت رسول خدا ﷺ نے فرمایا: انا مدینة العم و علی بابھا۔

اس سلسلے میں لطف کی بات یہ ہے کہ جب وہ آدمی مسجد میں داخل ہوا تو سب سے پہلے اس نے علی  کو سلام کیااسکے بعد پیغمبر اسلام ﷺ کو وہاں پر موجود لوگ ہنس پڑے اور اس سلسلے میں اس سے جب گفتگو کی تو اس نے جواب دیا: میں نے رسو ل خدا ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ:انا مدینة العلم و علی بابھا لہذا میں نے بھی آنحضرت کی اسی حدیث پر عمل کیا ہے(اور چاہا کہ دروازے سے وارد ہوں)۔[41]؎

جابر بن عبد اللہ انصاری فرماتے ہیں:میں نے رسول خدا ﷺ سے سنا ہے کہ حدیبیہ کے روز آنحضرت حضرت علی  کا ہاتھ پکڑ ے ہوئے فرما رہے تھے:یہ (علی )اچھے لوگوں کا امیر اور برے لوگوں کا قاتل ہے جو انکی مدد کریگا (اللہ کی جانب سے)اسکی مدد ہوگی اور جو انھیں تنہا چھوڑیگا وہ خود تنہا رہ جائیگا۔ یہ جملہ بلند آواز سے فرماتے تھے۔ میں علم کا شہر ہوں اور علی اسکے دروازہ ہیں لہٰذا جو بھی شہر کا خواہاں ہے اسے چاہیئے کہ وہ دروازے سے نزدیک جائے۔[42]؎

اس حدیث میں علم کی جگہ لفظ حکمت، بہشت، فقہ بھی آیا ہے:[43]؎

ابن عباس فرماتے ہیں:رسول خدا ﷺ نے فرمایا: میرے لئے جبرئیل بہشت سے مخمل کا فرش لے کر آئے میں اس پر بیٹھا (اور آسمان پر گیا)جب میں پروردگار کے پاس پہونچا تو اس نے مجھ سے راز و نیاز کی باتیں کی اور جو چیز مجھے بتائی ہے علی اس سے آگاہ تھے لہٰذا وہ (علی )میرے شہر علم کے دروازہ ہیں۔[44]؎

شمس الدین مالکی (متوفیٰ ۷۸۰؁ء)کہتے ہیں:

و قال رسول اللَّه إنّي مدينةٌ                        من العلمِ و هو البابُ و البابَ فاقصد

یعنی رسول خدا ﷺ نے فرمایا: میں علم کا شہر ہوں اور وہ (علی ) دروازہ ہیں[45]؎ لہٰذا دروازہ کا رخ کرو اور بہت بڑے عارف ابن فارض مصری کہتے ہیں:

واوضح بالتاویل ماکان مشکلاً            علی بعلم نالہ بالوصیة

یعنی علی  مشکلات کو اسکی تاویل کے ساتھ واضح و روشن فرمادیتے تھے اس علم کی وجہ سے جو وصیت (پیغمبر ﷺ)سے حاصل کیا تھا۔

فخر الدین رازی کہتے ہیں:خانوادہٴ رسول ﷺ پانچ چیزوں پر انکے مساوی و برابر ہیں:(۱)سلام میں اسلئے کہ آنحضرت کے سلسلے میں فرمایا:السلام علیک ایھا البنی اور انکے اہل بیت کے متعلق فرمایا: سلام علی آل یاسین۔[46]؎

(۲)آنحضرت اور انکی آل پر تشہد میں درود بھیجنا (۳)طہارت، رسول خدا ﷺ کے متعلق فرمایا:طٰہ[47]؎ یعنی اے طیب و طاہر اور انکے اہل بیت کے سلسلے میں فرمایا: و یطہر کم تطہیراً[48]؎ (۴)صدقہ کا حرام ہونا۔ (۵) محبت، پیغمبر اسلام ﷺ کے سلسلے میں فرمایا:

فاتبعونی یحببکم اللہ[49]؎ میری پیروی کرو تا کہ خد ا تمہیں دوست رکھے اور اہل بیت علیہم السلام کے سلسلے میں فرمایا: قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودة فی القربیٰ[50]؎ یعنی اے رسول! کہہ دیجئے میں تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا سوائے اس کے کہ میرے اہل بیت سے محبت کرو[51]اور اہل بیت کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ آل محمد ﷺ وہ لوگ ہیں جن کا عمل آنحضرت کے مطابق ہو۔ لہٰذا وہ لوگ جن کا عمل آنحضرت سے مطابقت کرے اور حضور تک منتہیٰ ہو وہ انکے اہل بیت میں شمار ہوں گے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ فاطمہ و علی، حسن و حسین علیہم السلام اور رسول خدا ﷺ کے درمیان رشتہ اور وابستگی سب سے زیادہ تھی اور یہ تمام مسائل و امور کی طرح یہ بھی تواتر کے ذریعہ معلوم و مسلم ہے لہٰذا اسی دلیل کی بنیاد پر یہ حضرات انکے اہل بیت میں شمار ہوں گے اگر چہ لوگ اہل بیت رسول کے سلسلے میں اختلاف رکھتے ہیں بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اہل بیت سے مراد وہی قریبی رشتہ دار ہیں لیکن بعض دوسروں کا کہنا ہے کہ اہل بیت سے مراد آنحضرت کی امت ہے۔

دونوں صورتوں پر اگر آل کا معنی وہی لیتے ہیں جنہوں نے قریبی رشتہ دار لیا ہے تبھی یہی حضرات رسول خدا ﷺ کے اہل بیت ہیں اور اگر آل سے مراد امت لیتے ہیں جنہوں نے آنحضرت کی دعوت کو قبول کیا ہے تب بھی یہ حضرات اہل بیت رسول میں شمار ہوں گے۔

لہٰذا ثابت ہو گیا حضرات(خمسہٴ نجاء علیہم السلام)ہر حال میں اہل بیت رسول خدا ﷺ میں شامل ہیں لیکن انکے علاوہ د



[1]         سعد السعود، ص ۹، حدیث کی جتنی ضرورت تھی ہم نے اتنا ہی نقل کیا ہے۔

[2]         سورہٴ نساء، آیت ۱۷۶

[3]         تفسیر کبیر، ج۷۱، ص۲۰۰

[4]         الجامع الا حکام القرآن، ج۹، ص۶۱؛ تفسیر البحرالمحیط، ج ۵، ص ۲۱۱؛ تفسیر در المنثور، ج ۳، ص ۳۲۴؛ تفسیر جامع البیان طبری، ج ۱۲، ص ۱۴، ان تمام کتابوں میں مختلف اسناد کے ساتھ نقل ہوا ہے۔

[5]         تفسیر روح المعانی، ج ۱۲، ص ۲۵

[6]         تفسیر صافی، ج 2، ص 437

[7]         تفسیر در المنثور، ج 6، ص 379

[8]         تفسیر در المنثور، ج 6، ص 379

[9]         تفسیر در المنثور، ج 6، ص 379

[10]       تفسیر در المنثور، ج 6، ص 379

[11]       تفسیر در المنثور، ج 6، ص 379

[12]       تفسیر جامع البیان، ج 29، اسی آیہٴ شریفہ كے ذیل میں۔

[13]       تفسیر روح المعانی، ج 30، ص 207

[14]       سورہ انعام، آیت 90

[15]       تفسیر كبیر، ج 13، ص 69

[16]       تفسیر برہان، ج 4، ص 148

[17]       تفسیر برہان، ج 4، ص 148

[18]       سورہ طٰہٰ، آیت 121

[19]       سورہ دہر، آیت 22

[20]       سورہ تحریم، آیت 10

[21]       سورہ بقرہ، آیت 260

[22]       سورہ قصص، آیت 21

[23]       سورہ بقرہ، آیت207

[24]       سورہ ص، آیت 26

[25]       ۱۔ سورہٴ انبیاء، آیت ۷۹

[26]       تفسیر المیزان، ج ۱۴، ص ۳۴۰

[27]       سورہٴ ص، آیت ۳۵

[28]       تفسیر المیزان، ج ۱۷، ص ۲۱۶

[29]       سورہٴ ق، آیت ۸۳

[30]       سورہٴ مائدہ، آیت ۱۱۶

[31]       بحار الانوار، ج ۴، ص ۱۳۴

[32]       سورہٴ بقرہ، آیت ۲۵۳

[33]       سورہٴ انبیاء، آیت ۱۵۸

[34]       تفسیر کبیر، ج ۶، ص۲۰۸

[35]       تفسیر کبیر، ج۶، ص۱۹۶

[36]       ینابیع المودة، ص ۶۴

[37]       احقاق الحق ج ۶، ص۵، بہ نقل از نھایہ العقول فی درایة الاصول، فخررازی، اور اسی کے مطابق طبع اسلامبول، ص ۶۱۷ پر اس عبارت کے ساتھ لضربة علی خیر من عبادة الثقلین نقل ہواہے۔

[38]       تفسیر کبیر، ج ۶، ص۱۹۷

[39]       فیض القدیر، ج ۳، ص۴۶

[40]       فیض القدیر، ج ۳، ص ۴۶

[41]        مجمع البحرین مادہٴ بَوَبَ

[42]       تاریخ بغداد، ج ۲، ص ۳۷۷، وج ۱۱، ص۴۸- ۵۰

[43]       تاریخ بغداد، ج ۷، ص ۱۷۳، وج ۱۱، ص ۲۰۴؛ ینابیع المودة، ص ۳۸؛مناقب ابن مغازلی، ص ۸۷ و ص ۸۶؛تذکرة الخواص، ص ۲۹

[44]       مناقب ابن مغازلی، ص50

[45]       الغدیر، ج ۶، ص۵۸

[46]       سورہٴ صافات، آیت ۱۲۰، البتہ قرآن مجید میں الیاسین ہے لیکن بعض قرأتوں میں آل یٰسین پڑھا گیا ہے۔

[47]       سورہٴ طٰہٰ ، آیت ۱

[48]       سورہٴ احزاب، آیت ۳۳

[49]       سورہٴ آل عمران، آیت ۳۱

[50]       سورہٴ شوریٰ، آیت ۲۳

[51]       رجوع کریں: الصواعق المحرقہ، ص ۱۴۷؛ وفرائد السمیطین، ج۱، ص ۳۵