دین مقدس اسلام اور آئمہ معصومین علیہم السلام کی تعلیمات میں دعا انبیاء علیہم السلام کا اسلحہ، مومن کی سپر اور تمام عبادتوں کی روح ہے۔ اور خالق و مخلوق کے درمیان بہترین رابطہ ہے۔
حضرت امیر المومین ارشاد فرماتے ہیں:
دعا مومن کی سپر ہے۔ جب دروازہ پر بار بار دستک دی جاتی ہے تو کھل جاتا ہے۔
(اصول کافی، ج ۴، باب دعا سلاح مؤمن، ص ۲۱۵، ح ۴)
حضرت امام محمد باقر نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا:
کیا میں تمہیں ایسی چیز کے بارے میں نہ بتاؤں جس میں حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ نے کوئی استثناء قرار نہیں دیا ہے؟
عرض کیا: ضرور ارشاد فرمائیں۔ فرمایا:
دعا جو مستحکم قضا کو بدل دیتی ہے۔
(اصول کافی، باب دعا بلا و قضا را دفع می کند، ص ۲۱۶، ح ۶)
امام اپنی مٹھی مستحکم بند کی اور یہ بھی فرمایا:
خدا کی قسم اگر کوئی بندہ خدا کی بارگاہ میں دل لگا کر پابندی سے دعا کرتا ہے خداوند عالم اس کی حاجت ضرور پوری کر دیتا ہے۔
(اصول کافی، باب پافشاری و اصرار بر دعا، ص ۲۲۴، ح ۵)
حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں:
دعا کرو اور یہ مت کہو جو کچھ ہونا تھا ہو چکا ہے اور جو مقدر ہے وہی ہوگا۔
(اصول کافی، باب فضیلت دعا، ص ۲۱۱، ح ۳)
دعا کا اپنا اثر ہے۔ دعا ہر وقت اثر رکھتی ہے۔
جناب علامہ مجلسی اس روایت کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں:
ہمیں بداء پر ایمان رکھنا چاہئے ہر دن خدا کی ایک شان ہے وہ جو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جو چاہتا ہے لکھ دیتا ہے۔ قضا و قدر دعا کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے۔ لوح محو و اثبات میں تبدیلی ممکن ہے۔ اس کے علاوہ دعا بھی قضا و قدر کا ایک سبب ہے۔ اسی لئے دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
(اصول کافی)
ایک دوسری روایت میں حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا:
دعا قضا کو ہٹا دیتی ہے اور روک دیتی ہے۔ جس طرح مضبوطی سے بٹی رسی کے بل کھل جاتے ہیں۔
(ہمان، باب دعا بلا و قضا را دفع می کند، ص ۲۱۵، ح ۱)
کوئی ایسا نہیں ہے جو اپنی مشکلات میں دعا کے لئے ہاتھ بلند نہ کرتا ہو۔ خدا کی بارگاہ میں راز و نیاز اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی جناب میں توسل کے ذریعہ اپنے مسائل کو طلب نہ کرتا ہو۔
یہ بات توجہ کے لائق ہے کہ ہم سب لوگ اپنے مسائل و مشکلات میں برابر دعا کرتے ہیں اور گڑگڑا کر دعا کرتے ہیں۔ ہر طرح سے اپنی مشکلات کا حل طلب کرتے ہیں۔ لیکن زندگی کا سب سے اہم مسئلہ یعنی حضرت ولی عصر کا ظہور اس کے لئے ہم دل لگا کر دعا نہیں کرتے ہیں۔ ہم اس حقیقت سے غافل ہیں سب سے بہتر تمنا و آرزو ظہور کی آرزو ہے۔ اور سب سے بہتر دعا ظہور کی دعا ہے کیونکہ حضرت ولی عصر کا ظہور وہ حقیقت ہے جس سے نہ صرف ہماری دنیا و آخرت کی سعادت وابستہ ہے بلکہ دنیا کے تمام انسانوں کی تمام مشکلات مادی و معنوی کا حل اس ظہور میں پوشیدہ ہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ روایتوں میں ائمہ معصومین علیہم السلام نے ظہور کے لئے دعا کرنے کی بہت زیادہ تاکید کی ہے۔
حضرت ولی عصر نے جناب اسحاق بن یعقوب کے نام اپنی توقیع میں ارشاد فرمایا:
میرے ظہور میں تعجیل کے لئے بہت زیادہ دعا کرو کیونکہ میرا ظہور تمہاری مشکلات کا حل ہے۔
(کمال الدین، ج ۲، ص ۴۸۵)
اسی طرح جناب شیخ صدوق علیہ الرحمہ کے نام ایک اور توقیع میں ارشاد فرمایا:
اگر ہمارے شیعہ – خداوند عالم انہیں اطاعت کی توفیق عطا فرمائے – ایک دل ہو کر اپنے عہد و پیمان پر متحد ہوتے تو ہماری بابرکت ملاقات میں تاخیر نہ ہوتی۔
(بحار الانوار، ج ۵۳، ص ۱۷۶)
دعا کے اثرات کے بارے میں حضرت امام جعفر صادق کی یہ روایت خاص توجہ کے لائق ہے۔ امام فرماتے ہیں:
جب بنی اسرائیل پر عذاب اور سختیوں کا زمانہ طویل ہو گیا تو انہوں نے چالیس دن تک خدا کی بارگاہ میں خوب گڑگڑا کر دعا کی۔ خداوند عالم نے جناب موسیٰ و ہارون کی طرف وحی کی کہ بنی اسرائیل کو فرعون کے عذاب سے نجات دلائیں۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب ان کے ۴۰۰ سالہ عذاب میں ۱۷۰ سال باقی تھے۔ خداوند عالم نے ان کی دعا کی بنا پر یہ ۱۷۰ سال کم کر دئے۔
اس کے بعد امام فرماتے ہیں:
تم لوگوں کی بھی حالت اسی طرح ہے اگر تم ظہور کے لئے گڑگڑاکر دعا کروگے تو خداوند عالم یقینا ظہور جلد کر دے گا اور اگر تم نے خوب دعائیں نہیں کیں تو پھر یہ سلسلہ اپنے آخر تک پہونچے گا۔
(تفسیر عباشی، ج ۲، ص ۱۵۵)
اس روایت کی روشنی میں صاحب کتاب ”مکیال المکارم“ تحریر فرماتے ہیں:
امام کا ظہور ان امور میں سے ہے جس میں بداء ہو سکتا ہے۔یعنی طے شدہ وقت میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔
(مکیال المکارم، ج ۱، ص ۳۴۷)
یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم دعا کے ذریعہ ظہور کو جلد کرا سکتے ہیں اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ظہور کے لئے ایسا کوئی وقت معین نہیں کیا گیا ہے جس میں تبدیلی ممکن نہ ہو۔ اگر لوگ اس غیبت کے زمانے میں اپنے امام کی طولانی غیبت کے بارے میں غافل رہیں اور کوئی توجہ نہ دیں ایک دل ہو کر اپنے عہد و پیمان کو پورا کرتے ہوئے خوب گڑگڑا کر دعا نہ کریں تو ظہور اپنی آخری منزل تک پہونچے گا۔
صاحب مکیال المکارم تحریر فرماتے ہیں:
جناب ادریس کے زمانے میں وقت کی سرکش اور ظالم حکومت نے ان پر ظلم ڈھایا۔ جناب ادریس لوگوں کے درمیان سے غائب ہو گئے۔ آپ کے پیروکاروں کو آپ کی یہ غیبت بہت ہی زیادہ سخت و ناگوار ہوئی۔ انہوں نے خدا کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کیا۔ گڑگڑا کر دعا مانگی خداوند عالم نے ان پر رحم کیا اور جناب ادریس کو ان کے درمیان واپس بھیج دیا۔ جناب ادریس ظاہر ہوئے اور بادشاہ وقت ذلیل و خوار ہوا۔
اگر اس طرح اس دور غیبت میں لوگ اجتماعی طور پر توبہ و استغفار کریں اور اللہ کی بارگاہ میں دعا کریں تو امید ہے کہ خدا ہمارے امام کو جلد ظاہر کر دے۔
(مکیال المکارم، باب ۴)
حضرت امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے ایک خواب میں آیة اللہ میرزا محمد باقر فقیہ ایمانی سے فرمایا:
منبر کے ذریعہ لوگوں تک یہ پیغام پہونچا دو اور ان کو اس بات کا حکم دو۔ وہ توبہ کریں اور حضرت حجت کے ظہور کے لئے دعا کریں۔ حضرت حجت کے ظہور کے لئے دعا کرنا نماز میت کی طرح واجب کفائی نہیں ہے کہ ایک شخص کے پڑھ لینے سے واجب ادا ہو گیا۔ بلکہ یہ پنجگانہ نماز کی طرح ہے۔ ہر بالغ انسان پر واجب ہے کہ وہ حضرت حجت کے لئے دعا کرے۔
(مکیال المکارم، ج ۱، ص ۴۳۸؛ صحیفة مہدیہ، ص ۵۱)
جناب فقیہ ایمانی اپنی کتاب میں تحریر فرماتے ہیں:
روایتوں، دعاؤں اور زیارتوں کے جملوں سے یہ بات بالکل صاف و ظاہر ہے کہ اصل ظہور کا وعدہ وہ وعدہ ہے جس میں ذرا بھی وعدہ خلافی ممکن نہیں ہے۔ لیکن ظہور کا وقت ایسا مسئلہ ہے جس میں تبدیلی ہو سکتی ہے۔ روایتوں سے یہ بات ظاہر ہے مومنین کی مخلصانہ دعائیں ظہور میں تعجیل کا سبب ہو سکتی ہیں۔
(شیوہ ہای یاری قائم آل محمد، ص ۵۷)
شاعر اہل بیت سید حلاّوی نے ایک قصیدہ میں شیعوں کی پریشانی کا تذکرہ کیا اور شیعوں کے درد و غم، مصائب و مشکلات کو امام زمانہ کی خدمت میں پیش کیا۔ اور کئی جگہ یہ قصیدہ پڑھا – نجف اشرف کے بزرگ اور خدا رسیدہ علماء نے خواب میں حضرت حجت کی زیارت کا شرف حاصل کیا۔ حضرت نے ان سے فرمایا:
سید حلاّوی سے کہو اس قدر شیعوں کی پریشانیاں اور مصائب بیان کر کے میرے دل کو مت دکھاؤ کیونکہ ”لَیْسَ الْاَمْرُ بِیَدِیْ“ ظہور میرے اختیار میں نہیں ہے۔ یہ خدا کے ہاتھ میں ہے دعا کروخدا سے میرے جلد ظہور کی درخواست کرو۔
(مجالس حضرت مہدی، ص ۱۰۹)
ایک شخص کو مسجد جمکران میں حضرت کی بارگاہ میں حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ اس کا بیان ہے میں اپنی زوجہ کے ہمراہ مسجد جمکران کے اعمال انجام دے کر باہر آ رہا تھا۔ راستہ میں ایک نورانی سید سے ملاقات ہوئی۔ میں نے اپنے دل میں سوچا اس گرمی میں یہ سید نورانی یقینا پیاسے ہوں گے۔ میں نے ان کی خدمت میں پانی پیش کرتے ہوئے کہا: آپ امام زمانہ کے ظہور کی دعا کریں۔ انہوں نے فرمایا:
ہمارے شیعہ پانی کے برابر بھی میرے خواہاں نہیں ہیں۔ اگر وہ مجھے چاہتے ہوتے تو یقینا میرے ظہور کے لئے دعا کرتے۔ ان کی دعاؤں سے ظہور نزدیک ہو سکتا ہے۔
(شیفتگان حضرت مہدی، ج ۱، ص ۱۵۵)
اسی کے ساتھ امام زمانہ کے دو پیغام بھی خوب اچھی طرح اپنے ذہنوں میں بٹھا دیں۔ فرماتے ہیں:
جب کوئی مومن میرے جد امام حسین کے مصائب سن کر آنسو بھری آنکھوں سے میرے لئے دعا کرتا ہے میں اس کے لئے دعا کرتا ہوں۔
(مکیال المکارم، ج ۱، ص ۳۳۳)
میرے شیعوں اور میرے دوستوں کو یہ پیغام دے دو میری پھوپھی جناب زینب (سلام اللہ علیہا) کا واسطہ دے کر میرے ظہور کے لئے دعا کریں۔
(شیفتگان حضرت مہدی، ج ۱، ص ۲۵۱)
بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کا شیعوں پر ایک حق یہ ہے کہ وہ حضرت حجت کے ظہور کے لئے دعا کریں۔ حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں:
شیعوں پر ہمارا ایک حق یہ ہے کہ ہر واجب نماز کے بعد ٹھڈی پر اپنا ہاتھ رکھ کر تین مرتبہ اس طرح دعا کریں:
یَا رَبَّ مُحَمَّدٍ عَجِّلْ فَرَجَ آلَ مُحَمَّدٍ۔ یاَ رَبَّ مُحَمَّدٍ اِحْفَظْ غَیْبَةَ مُحَمَّدٍ۔ یَا رَبَّ مُحَمَّدٍ اِنْتَقِمْ لِاِبْنَةِ مُحَمَّدٍ۔
اے محمد کے رب آل محمد کا ظہور جلد فرما۔ اے محمد کے رب غیبت میں محمد اور ان کے دین کی حفاظت فرما۔ اے محمد کے رب جلد دختر محمد کا انتقام لے۔
(صحیفة مہدیہ، ص ۱۹۵)
اس دعا سے خود دعا کرنے والا بھی فائدہ مند ہوتا ہے۔
غیبت کی تاریکیوں میں یہی دعا نجات کا سبب ہے۔ حضرت امام حسن عسکری فرماتے ہیں:
خدا کی قسم میرے فرزند کے لئے ایک غیبت ہوگی۔ جس میں کوئی بھی ہلاکت سے محفوظ نہ ہوگا مگر صرف وہ شخص جسے خداوند عالم ان کی امامت کے عقیدہ پر ثابت قدم رکھے گا اور ظہور کے لئے دعا کرنے کی توفیق مرحمت فرمائیگا۔
(کمال الدین، ج ۲، ص ۳۶۸)
ایک دوسری روایت میں اس طرح ارشاد فرمایا:
جب تم یہ دیکھو کہ آل محمد کے خاندان سے امام غیبت میں ہے اور تم اس کی زیارت سے محروم ہو تو خدا کی بارگاہ میں استغاثہ کرو اور خدا کی بارگاہ میں ان کے ظہور کی دعا کرو۔ اس سے تمہاری مشکلات حل ہوں گی۔
(کمال الدین، باب ۳۲، ح ۸)
دعا اور ظہور میں کئی رابطہ ہیں ذیل میں چند کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
(۱) دعا کا ایک اثر صرف ظہور میں تعجیل نہیں ہے۔ بلکہ اس دعا کی اور بھی برکتیں ہیں جیسے گناہوں کی مغفرت، نعمتوں کا نزول، بلاؤں کی دوری، طول عمر، سحت رزق، جنت میں داخلہ، شفاعت آل محمد، میدان قیامت میں قیامت کی پیاس سے نجات – صاحب مکیال المکارم نے اپنی کتاب میں ظہور کے لئے دعا کرنے کے ۱۱۰ فائدہ ذکر کئے ہیں۔
(۲) ایک بار پھر اس بات پر زور دے رہے ہیں دعا ظہور کے وقت کو نزدیک کر سکتی ہے۔ دعا نہ کرنے سے ظہور میں تاخیر ہو سکتی ہے۔ بنی اسرائیل کا واقعہ ہماری بیداری کے لئے کافی ہے۔
(۳) بعض لوگ کہتے ہیں”جب خدا چاہے گا اس وقت امام آئینگے“ یہ لوگ اس طرح کی باتوں سے دعا کے اثرات کو کم کرنا چاہتے ہیں۔
یہ بات درست ہے کہ یقینا ظہور خدا کے ہاتھ میں ہے۔ جیسا کہ ایک روایت میں ہے:
وَ اَمَّاظُہُوْرُ الْفَرَجُ فَاِنَّہ اِلَي اللهِ
اور یقینا امام کے ظہور خدا کے اختیار میں ہے۔
(غیبت شیخ طوسی، ص ۱۷۷)
لیکن روایتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے۔ امام کا ظہور یقینی ہے۔ اور ظہور کے وقت کا تعین بھی خدا کے ہاتھوں میں ہے۔ مگر ہماری دعائیں وقت ظہور کو نزدیک کر سکتی ہیں۔ دعاؤں کی بنا پر خدا کا یہ وعدہ جلد پورا ہو سکتا ہے۔
(۴) بعض لوگ کہتے ہیں کہ ”ہم لوگ تو گنہگار ہیں ہم اس لائق کہاں کہ امام کے لئے دعا کریں ہمارا کھانا پینا سب مشکوک ہے ہم دعا کے لائق ہی نہیں ہیں۔
اس طرح کی باتیں شیطانی خیالات ہیں جو ہمیں دعاؤں کی برکتوں سے محروم کر سکتے ہیں اس کے علاوہ امام زمانہ صرف متقی اور پرہیزگاروں کے تو امام نہیں ہیں۔
وہ گنہگاروں پر بھی حجت ہیں۔ امام سورج کی طرح ہیں جس کی گرمی اور روشنی ہر ایک کے لئے ہے۔اس کی شعاعیں صرف نیکوکاروں پر مخصوص نہیں ہیں۔ اسی طرح امام عصر کسی خاص فرد، قوم و ملت کے امام نہیں ہیں وہ پوری کائینات کے امام ہیں۔ وہ صرف انسانوں کے امام نہیں ہیں وہ جن و ملک کے بھی امام ہیں۔ جب وہ سب کے امام ہیں تو ان کے ظہور کے لئے دعا کرنا ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔
اگر ایسا ہوتا کہ گنہگاروں کی دعا ئیں قبول نہیں ہوں گی خداوند عالم توبہ کا دروازہ نہ کھولتا۔ کیونکہ توبہ خود ایک دعا ہے۔ توبہ کا قبول ہونا اس بات کی علامت ہے کہ گنہگاروں کی بھی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔
اس طرح کے افراد کے لئے مناسب ہے کہ پہلے اپنے گناہوں سے توبہ کریں پھر امام کے لئے دعائیں مانگیں گناہ کو بہانہ بنا کر دعا نہ کرنا خود ایک گناہ ہے۔
جیسا کہ بیان کیا گیا ظہور کی دعا کرنا گناہوں کی مغفرت کا سبب ہے۔ خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
نیکیاں برائیوں کو ختم کر دیتی ہیں۔
(سورة ہود(۱۱)، آیت ۱۱۴)
کیا ظہور کے لئے دعا کرنا بہترین نیکی نہیں ہے؟
(۵) جب ظہور کی بات ہوتی ہے تو بعض لوگ کہتے ہیں، ”امام اتنی جلدی آنے والے نہیں ہیں“۔
اس طرح کی باتیں روایتوں کے خلاف ہیں۔ بعض روایتوں میں صبح و شام دعا کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور بعض روایتوں میں ہے امام کا ظہور یکبارگی ہوگا۔ جب لوگوں کو توقع نہ ہوگی اس وقت ظہور ہوگا۔
اس کے علاوہ امام عصر سے محبت کا تقاضا ہے کہ ہم ان کے ظہور کو دور نہ سمجھیں۔ اگر ہمارا کوئی عزیز سفر پر گیا ہو تو کیا ہماری محبت یہ اجازت دے گی کہ ہم اس کی آمد کو ہمیشہ دور خیال کرتے رہیں اور کبھی بھی اس کی آمد کو نزدیک نہ جانیں؟
پھر عرض کرتے ہیں یہ سب شیطانی وسوسہ ہیں ہم ان سے دور رہیں کیونکہ ان کے ظہور سے سب سے زیادہ تکلیف شیطان کو ہوگی۔ اس لئے کہ وہ امام زمانہ کے ہاتھوں مارا جائیگا۔
۶۔ بعض لوگ ظہور کے لئے دعا کرنے کے مسئلہ کو توضیح المسائل میں تلاش کرتے ہیں اور کہتے ہیں توضیح المسائل میں کہاں لکھا ہے؟
ان کی خدمت میں عرض ہے۔ توضیح المسائل میں فروع دین کے مسائل بیان ہوتے ہیں امامت کا عقیدہ اور امام کے لئے دعا کرنا اصول دین سے متعلق ہے۔ اس کے علاوہ
حضرت امام محمد تقی نے جناب عبد العظیم حسنی سے فرمایا:
اے ابو القاسم – (عبد العظیم حسنی کی کنیت) ہمارا مہدی ایسا ہدایت کرنے والا ہے کہ غیبت میں ان کا انتظار کرنا واجب ہے اور ان کے زمانہ ظہور میں ان کی اطاعت کرنا واجب ہے۔
(کمال الدین صدوق، ج ۲، ص ۳۷۷)
امام حسن کی روایت میں ظہور کے لئے دعا کرنے کو پنجگانہ نماز کی طرح واجب قرار دیا گیا ہے۔
(مکیال المکارم، ج ۱، ص ۳۳۳)
(۷) امام کے ظہور کے لئے دعا کو بقیہ دعاؤں کی طرح خیال نہیں کرنا چاہئے۔ یہ دعا کوئی رسم و رواج نہیں ہے۔ یہ دعا دعاؤں میں سب سے آخری دعا نہیں ہے۔ جب مریضوں کے لئے، مقروض حضرات کے لئے، اور لاولد کے لئے گھر مکان کے لئے، صاحب خانہ کے لئے، ملتمسین دعا کے لئے … دعا کرچکے کوئی اور دعا باقی نہ رہ جائے تو بس آخر میں امام کے لئے دعا کریں جو اس بات کی علامت ہو اب دعا ختم ہو رہی ہے بلکہ یہ دعا سب سے پہلے ہونا چاہئے کیونکہ یہ دعا وہ دعا ہے جو ہر درد کی دوا ہے۔
اس کے علاوہ یہ دعا کائنات کے سب سے بہترین انسان کے لئے دعا ہے۔ حجت خدا کے لئے دعا ہے۔ یہ دعا تمام مظلوموں ، تشنہ کاموں، بیماروں، بے پناہوں، بے گھروں، غریبوں، محتاجوں، قیدیوں، محروموں… کے لئے دعا ہے۔ یہ دعا در اصل کائنات کے ذرہ ذرہ کے لئے دعا ہے۔ کیونکہ جب امام تشریف لائینگے تو ان کی عادلانہ حکومت کے عدل و انصاف سے ہر ایک بہرہ مند ہوگا۔کائنات کا ذرہ ذرہ ان کے رحم و کرم سے فیضیاب ہوگا۔ لہٰذا یہ ایسی دعا ہے جو تنہا سب کی دعا ہے۔ لہٰذا اس دعا پر خاص توجہ دینا چاہے۔
(۸) بعض لوگ کہتے ہیں ”جب خود ہماری اصلاح نہ ہوگی اس وقت تک امام تشریف نہیں لائینگے“ اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم خود اپنے معاشرے کی اصلاح کر کے ظہور کے لئے زمین ہموار کریں۔ تو بات بہت مناسب ہے۔ اور اگر اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ہم ٹھیک نہیں ہوں گے اس وقت تک امام نہیں آئینگے تو یہ بات درست نہیں ہے۔ کیونکہ امام خود ہی اصلاح کے لئے آینگے۔ وہ زمین کو عدل و انصاف سے پر کرنے کے لئے آئینگے۔ اس کے علاوہ ہمیں کسی بھی حالت میں امام کے ظہور کو دور نہیں سمجھنا چاہئے۔ دعا ئے عہد میں ہے۔ ”لوگ ان کے ظہور کو دور خیال کرتے ہیں ہم ان کے ظہور کو نزدیک دیکھ رہے ہیں۔“
(۹) بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں اس وقت جو دنیا کی بڑی طاقتوں کے پاس اسلحہ ہیں ایسے محیر العقول اسلحوں کی موجودگی میں امام کس طرح دنیا پر غلبہ حاصل کرینگے؟ اور ان اسلحوں کے مقابلہ میں کیا حکمت عملی اختیار کرینگے؟ اس وقت کیا ہوگا؟
ان لوگوں سے بس اتنا کہنا ہے کہ ”امام – قدرة اللہ“ ہے امام وقت خداوند عالم کی قدرت و طاقت کا مظہر ہے۔ امام کا ایک اشارہ تمام اسلحوں کو ناکام و ناکارہ کر سکتا ہے۔
اس کے علاوہ امام کو غیبی امداد حاصل ہوگی۔ روایتوں میں ہے۔ کافروں کے دلوں میں امام اور ان کی فوج کا زبردست رعب طاری ہوگا۔ یہاں تک کہ رعب لشکر سے ایک ماہ آگے جائیگا یہ رعب کافروں کے بہت سے منصوبوں کو ناکام بنا دے گا۔ ان کے دلوں میں امام کا ایسا خوف ہوگا۔ ان کی فکر صحیح طور سے کام نہ کر سکے گی۔ روایت میں ہے ”اَلْمُنْصُوْرُ بِالرُّعْبِ“ رعب سے ان کی مدد کی جائیگی۔ آج کی دنیا میں بھی رعب و خوف خودایک زبردست اسلحہ ہے۔ بڑی طاقتوں کا خوف لوگوں کو پریشان کر دیتا ہے اور ان سے قوت فکر سلب کر لیتا ہے۔ ظہور کے وقت امام کے رعب و خوف سے بڑی بڑی طاقتوں کی یہی صورت حال ہوگی۔ اس کے علاوہ امام ظاہری اسباب کا بھی استعمال فرمائینگے یہی وجہ ہے کہ اس جنگ میں آپ کے بعض اصحاب بشارت کے درجہ پر فائز ہوں گے۔ بہر حال بڑی طاقتوں کے بڑے اسلحہ ظہور کی راہ میں یا حضرت کی عالمی حکومت کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہیں۔
خداوند عالم کا یہ وعدہ ہے کہ امام تشریف لائینگے تو بات کچھ اور ہوگی۔ ایسا گذشتہ انبیاء علیہم السلام کی طرح لوگوں میں اتنی جرأت و ہمت نہ ہوگی کہ وہ امام کی تکذیب کر سکیں یا کسی محاذ پر ان کو شکست دے سکیں۔ حضرت حجت فتح و کامرانی کے لئے تشریف لائینگے کسی بھی محاذ پر ذرہ برابر شکست کا تصور نہ ہوگا… شکست و شرمندگی اب دوسروں کا مقدر ہوگی۔
بزرگ مرتبہ عالم دین جناب شیخ حر عاملی علیہ الرحمہ بیان فرماتے ہیں۔
میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت حجت مشہدمقدس میں تشریف لائے ہیں۔ میں نے ان کے گھر کا پتہ دریافت کیا۔ لوگوں نے کہا مشہد کے مغربی حصہ میں ایک باغ ہے وہاں امام کا قیام ہے۔ میں حضرت حجت کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت صدر مجلس میں تشریف فرما تھے۔ وہاں ایک حوض ہے اور تقریباً بیس افراد اس مجلس میں موجود ہیں۔
کچھ دیر کی گفتگو کے بعد کھانا لایا گیا۔ جو دیکھنے میں کم تھا۔ لیکن بہت ہی لذیذ تھا ہم سب نے وہ کھانا کھایا اور سیر ہو گئے۔ اور کھانا اسی طرح باقی رہا۔ کھانے کے بعد میں نے غور کیا حضرت کے اصحاب کی تعداد چالیس سے زیادہ نہیں ہے۔ میں یہ سوچنے لگا۔ حضرت کا ظہور ہو گیا ہے۔ وہ تشریف لا چکے ہیں اور ان کے اصحاب کی تعداد اتنی مختصر ہے … آیا اتنی مختصر تعداد کو دیکھ کر دنیا کے بادشاہ اور حکمراں ان کی اطاعت کرینگے یا نہیں ؟ اس مختصر سی تعداد کے ہمراہ کس طرح ظالموں سے جنگ کرینگے؟ اس مختصر سے لشکر کے ساتھ کس طرح کامیابی حاصل کرینگے؟ میں اپنے خیالات کی دنیا میں تھا۔ ابھی زبان سے کوئی جملہ ادا نہیں کیا تھا۔ حضرت میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا:
ہمارے شیعوں کو اعوان و انصار کی کمی سے خوف زدہ مت کرو۔ میرے ساتھ جو لوگ ہیں اگر میں ان کو حکم دوں تو دنیا کے تمام بادشاہوں اور حکمرانوں کو یہاں حاضر کر دینگے اور ان کی گردنیں اڑا دینگے۔
وَ مَا یَعْلَمُ جُنُوْدَ رَبِّکَ اِلاَّ ہُوَ
تمہارے رب کے لشکر کو رب کے علاوہ کوئی اور نہیں جانتا ہے۔
(سورة مدّثّر (۷۴)، آیت ۳۱)
یہ بشارت سن کر میں خوش ہو گیا۔
(اثباة الہداة، باب ۲۳، معجزات صاحب الزمان، شمارة ۱۶۶)
(۱۰) ان تمام گفتگو کا مطلب یہ نہیں ہے کہ خدا نخواستہ کسی کے دل میں یہ خیال آ جائے کہ حضرت حجت ہماری دعاؤں کے محتاج ہیں۔
حضرت حجت ہرگز ہرگز ہماری دعاؤں کے محتاج نہیں ہیں بلکہ ہم ان کی عنایتوں کے محتاج ہیں۔ ہم سراپا ان کے محتاج ہیں روایت میں ہے:
وہ شخص کافر ہے جو یہ خیال کرے کہ امام لوگوں کے محتاج ہیں۔
(ترجمة مکیال المکارم، ج ۲، ص ۳۵۳)
جو کچھ لوگوں کے پاس ہے امام اس سے بے نیاز ہیں لہٰذا ہم امام کے ظہور کے لئے جتنی بھی دعا کرینگے اس کا فائدہ ہم کو ملے گا۔ جب انشاء اللہ حضرت حجت کا ظہور ہوگا اور ساری دنیا میں عدل و انصاف قائم ہوگا۔ تو اس سے سب ہی کو فائدہ پہونچے گا۔ حضرت کے لئے دنیا اور اس کی حکومت کوئی حیثیت نہیں رکھتی ہے۔ ان کی نظر تو بس خداوند عالم کی خوشنودی اور اسکی رضا پر ہے۔
بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر…
بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…
بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…
بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…
دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…
مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…