فِي بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَن تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ يُسَبِّحُ لَهُ فِيهَا بِالْغُدُوِّ وَالْآصَالِ. (سورة النور: ۳۶)
اُن گھروں میں جن کو خدا اجازت دیتا ہے کہ اِن کو بلند کیا جائے اور اِن میں اُس کا نام لیا جائے،اُن گھروں میں صبح وشام اُس کی تسبیح ہوتی رہتی ہے۔

کسی مکان کی اہمیت کا اندازہ اس کے مکین کی فضیلت اور اُن کے بلند مرتبے سے ہوتا ہے۔ اہلِ دنیا اُن علاقوں کو اہمیت دیتے ہیں جہاں حکمرانوں کے مکانات ہو تے ہیں۔ اسی طرح گزشتہ سلاطین اور بادشاہوں کے محلات اور ان کی رہائش گاہیں لوگوں کے لیے نمائش اور عبرت کے مقامات ہوتے ہیں۔ مگر خداپرست لوگوں کے مکان نہ صرف یہ کہ نیکوکار افراد کے لیے زیارت گاہ ہوتے ہیں بلکہ یہ وہ مقامات ہوتے ہیں جہاں دعائیں بھی قبول ہوتی ہیں اور اعمال صالحہ کے ثواب میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح جب کوئ جگہ کسی ولیءخدا سے منسوب ہوجاتی ہے تواُس کی اہمیت اور منزلت بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس کی مثال کے لیے خانہ کعبہ ہے جسے الله نے ‘بیت الله’ کہہ کر خود سے منسوب کر دیا ہے۔ اسی طرح مقام ابراہیمؑ ، مسجد نبویؐ ،غار حرا ، مسجد قبا وغیرہ اس کی مثالیں ہیں۔ اتنا ہی نہیں وہ مقامات بھی اسلام کی نظر میں محترم ہیں جہاں خانوادہء انبیاء مقیم رہے تھے۔ سورہ نور کی اس آیت میں الله عزوجل انبیاء کے گھروں کا ذکر اس طرح فرمارہا ہے۔

نزل قول سبحانه: (في بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرفَعَ وَ يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ)[النور: ۳۶. ] علي قلب سيد المرسلين و هو صلي اللَّه عليه و آله و سلم في المسجد الشريف، فقام إليه رجل فقال: أي بيوت هذه يا رسول اللَّه؟ قال: بيوت الأنبياء، فقام إليه أبوبكر، فقال: يا رسول اللَّه: أهذا البيت منها؟ – مشيراً إلي بيت علي و فاطمة عليهماالسلام- قال: “نعم، من أفاضلها”. [.الدر المنثور: ۲۰۳: ۶، تفسير سورة النور؛ روح المعاني: ۱۷۴: ۱۸. ].
اہل تسنّن کے مشہور و معروف مفسّرِ قرآن علامہ جلال الدین السیوطی اپنی تفسیر الدر المنثور میں لکھتے ہیں کہ جب یہ آیت سرورؐ کائنات کے سینہء اقدس پر نازل ہوئ کہ “ان گھروں میں الله اجازت دیتا ہے کہ ان گھروں کو بلند کیا جائے اور اس کے نام کا ذکر کیا جائے..” تو ایک شخص نے کھڑے ہوکر سوال کیا: اے الله کے رسول ؐ، یہ کون سے گھر ہیں؟ آپ صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا: یہ انبیاءکے مکانات ہیں۔ اس پر ابوبکر نے کھڑے ہوکر علیؑ و فاطمہؐ کے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سوال کیا :”کیا یہ گھر بھی ان گھروں میں سے ہے؟”۔ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے جواب دیا:”ہاں! یہ گھر انبیاء کے افضل ترین گھروں میں سے ہے۔”
اس آیت کی تفسیر میں رسولؐ الله نے مقام و منزلتِ بیتِ علیؑ و فاطمہ علیہما السلام کا ذکر کیا ہے۔ اس روایت میں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ جب رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے انبیاء کے گھروں کا ذکر کیا تو ابوبکر نے بیتِ فاطمہ سلام الله علیہا کے بارے میں سوال کیا۔ رسولؐ کی کسی زوجہ کے مکان کے بارے میں سوال نہیں کیا۔ اس سے یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ ابوبکر کو بیتِ فاطمہ سلام الله علیہا کی عظمت کا علم تھا۔ پھر رسولؐ الله کا اس سوال کے جواب میں یہ کہنا کہ ” یہ مکان، انبیاء کے مکانوں میں افضل ترین مکانات میں سے ایک ہے” نے اس مکان کی اہمیت امت کے لیے اور آشکار کردی۔
اس بافضیلت مکان کے رہنے والوں کی عظمت میں ایک روایت قابل ذکر ہے جس کی صحت پر اہل تسنّن کے علماء کا بھی اجماع ہے۔
قال السيوطي: أخرج الترمذي و صححه، و ابن جرير و ابن المنذر و الحاكم و صححه، و ابن مردويه، والبيهقي في سننه من طرق عن أُمّ سلمة (رضي اللَّه عنها) قالت: في بيتي نزلت: (إِنّما يُريدُ اللَّهُ لِيذهبَ عَنْكُمُ الرِّجْس أَهْل البَيْت) و في البيت فاطمة، و علي و الحسن، و الحسين عليهم السلام، فجلّلهم رسول اللّه صلي اللَّه عليه و آله و سلم بكساء كان عليه، ثمّ قال: “هولاء أهل بيتي فأذهب عنهم الرجس و طهّرهم تطهيراً”.(الدر المنثور: ۶۰۴: ۶- ۶۰۵، ط دار الفكر، بيروت، المصنف: ۵۲۷: ۷).
علامہ سیوطی اپنی تفسیر میں یہ بھی نقل کرتے ہیں کہ ترمیذی نے اپنی صحیح میں،ابن جریر نے، ابن منذر نے اور حاکم نے اپنی اپنی کتابوں میں اور ابن مردویہ اور بیہقی نے اپنی اپنی سنن میں ام المومنین جناب ام سلمہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ آیت “انما یرید الله لیذھب عنکم الرجس اہل البیت…”میرے گھر میں نازل ہوئ اس وقت فاطمہؑ، علیؑ،حسنؑ اور حسینؑ میرے گھر میں موجود تھے۔ رسولؐ الله نے ان سب کو اپنی چادر کے اندر جمع کیا اور ارشاد فرمایا :”(پروردگار) یہی میرے اہل بیت ہیں، پس تو اِن سے رجس کو دور کردے اور انہیں اس طرح پاک کردے جس طرح پاک کرنے کا حق ہے۔”
اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آنحضرتؐ کا یہ دستور ہوگیا کہ آپؐ روز نماز فجر کے لیے جب مسجد جاتے تو در سیّدہ سلام الله پر پہنچ کر سلام کرتے۔ کتاب در المنثور میں یہ روایت بھی معتبر ذرائع سے نقل ہوئ ہے۔
و أخرج ابن أبي شيبة و أحمد والترمذي و حسنه، و ابن جرير و ابن المنذر و الطبراني و الحاكم و صححه و ابن مردويه عن أنس: انّ رسول اللَّه صلي اللَّه عليه و اله و سلم كان يمرّ بباب فاطمة عليهاالسلام إذا خرج إلي صلاة الفجر، و يقول: “الصلاة يا أهل البيت الصلاة -إِنّما يريدُ اللّه لِيذهب عنكمُ الرِّجس أَهل البيت وَ يُطهّركُمْ تَطهيراً.
اس روایت کو متعدد اہل تسنّن کے علماء نے بھی نقل کیا ہے کہ انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وآلہ وسلم جب بھی نماز فجر کے لیے جاتے تو فاطمہؐ کے دروازے پر سلام کرتے اور نماز کے لیے ان کو آواز دیتے اور آیہء تطہیر کی تلاوت فرماتے۔
بیتِ فاطمہ سلام علیہا کوئ عام مکان نہیں تھا۔ یہ وہ مکان تھا جس کا ذکر قرآن میں ہے، جس کے دروازے پر سرورِؐ کائنات آکر سلام کیا کرتے تھے۔ اس مکان پر ملائکہ سوالی بن کر آیا کرتے تھے-کبھی مسکین بن کر تو کبھی اسیر بن کر.

دعائے ملک ہے درِ سیدہؐ پر
سلامت رہیں روٹیّاں دنیے والے

مگر افسوس امت نے اس گھر کی عظمت کا خیال نہیں رکھا- ایک دوروزہ دنیوی حکومت حاصل کرنے کے لیے اس گھر کے مکینوں پر ظلم کیا گیا۔ اس باعظمت مکان کے دروازہ کوآگ لگادی گئ-

Short URL : https://saqlain.org/so/vgd8
saqlain

Recent Posts

8) کیا امام حسین کی عزاداری بدعت ہے؟

بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر…

1 month ago

6) کیا امام حسین کی عزاداری بدعت ہے؟

بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…

1 month ago

5) کیا امام حسین کی عزاداری بدعت ہے؟

بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…

1 month ago

4) کیا امام حسین کی عزاداری بدعت ہے؟

بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…

1 month ago

3) کیا امام حسین کی عزاداری بدعت ہے؟

دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…

1 month ago

2) کیا امام حسین کی عزاداری بدعت ہے؟

مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…

1 month ago