قال رسول اللہﷺ:

اِنَّ اللہَ لَیَغْضَبَ بِغَضَبِ فَاطِمَۃَ وَ یَرْضٰی لِرِضَاھَا

اس بات میں کوئی احتمال نہیں کہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا خاتون جنت ہیں ظاہر ہے کہ دنیوی معاملات میں انھیں ذرّہ برابر بھی دلچسپی نہیں تھی۔ آپ سلام اللہ علیہا کے شب و روز عبادت میں گزرتے تھے۔ حتیٰ کہ آپ سلام اللہ علیہا نے اپنی دعاؤں میں بھی اپنوں سے زیادہ دوسروں کو ترجیح دی ہے۔ آپؑ کے لئے مالِ دنیا کا حاصل ہونا یا چھِن جانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ سن سات ہجری میں آپ سلام اللہ علیہا کے پدربزرگوار رسول اللہ ﷺ نے بحکم خدا آپ سلام اللہ علیہا کو باغِ فدک عطا کیا باوجود یہ کہ اس باغ کی پیداوار بہت کثیر تھی آپ کے حالاتِ زندگی میں کوئی فرق نہ پڑا فاقہ، غربت، قلّتِ غذا سب جوں کے توں رہے، کچھ بھی نہ بدلا۔ بدلا تو صرف حُسنِ سلوک بدلا، غریبوں، مسکینوں اور یتیموں کی پرورش اور صدقات میں زیادہ مال صرف ہونے لگا۔

جب خلیفۂ اوّل ابوبکر نے اُن کا باغ غصب کیا تو جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے نہایت تکلیف میں ہونے کے باوجود اس زمین کے ٹکڑے کے حصول کے لئے احتجاج کیا اور اپنا حق جتایا۔ کیوں؟حق کی طلبگاری صرف حصول دولت کے لئے نہ تھی، بات صرف فدک کے حصول کی نہیں تھی۔ اس دعویٰ داری کے پَسِ پُشت ایک اس سے اہم بات کار فرما تھی۔ سچائی تو یہ ہے کہ تاریخ اسلام میں مقدمہ فدک ایک ہدایت کا راستہ دکھانے والا معرکہ ہے۔ یہ مقدمہ حق وباطل کے درمیان حدِّ فاصل کھینچتا ہے۔

(۱)   باغِ فدک رسول اللہ ﷺنے بحکم خدا اپنی بیٹی کو ہبہ کیا تھا۔ وفات سرورِ کائنات کے وقت یہ باغ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کی ملکیت میں تھا۔اُن سے اس باغ کا چھین لینا اللہ اور رسولﷺ کی اس تقسیم پر نہ راضی ہونے کی علامت ہے۔ قرآن کا فیصلہ یہ ہے کہ جو بھی خدا اور  رسولﷺ کے فیصلے کو قبول نہیں کرتا اُس کا ایمان مشکوک ہے(سورۂ نساء؍آیۃ ۶۵)

(۲)   فدک کے مسئلے میں ابوبکر کی رائے جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کے دعویٰ کے خلاف تھی۔ ان دونوں میں اس مسئلہ میں تنازعہ تھا، قرآن کہتا ہے کہ جب ایسا ہو تو مسئلے کا حل قول خدا اور سنت رسولؐ سے ہوگا۔(نساء:۵۹)

قرآن میں انبیاء کی میراث کا ذکر ہے اور دخترِ رسولﷺ کا کہنا کہ’’ مجھے یہ باغ ہبہ ہوا ہے‘‘قولِ رسولﷺ کا درجہ رکھتا ہے۔ اس طرح حق تو فاطمہ سلام اللہ علیہا کا ثابت ہو جاتا ہے۔

(۳)   رسول اللہﷺ نے بارہا اُمّت کو بتلایا ہے کہ میرے بعد دو گراں قدر چیزیں ہیں جن سے اگر تم متمسک رہے تو کبھی گمراہ نہ ہو گے۔ یہ دونوں تمہارے لئے مشعلِ راہ ہیں کبھی اِن کو فراموش نہ کرنا۔ فدک کے مقدمہ میں جو دو گروہ آپس میں ٹکرائے اُن میں ایک طرف قرآن اور اہلبیت علیہم السلام ہیں جن کی نمائندگی جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے کی اور دوسرا گروہ جو ان کو(معاذاللہ) جھوٹا مان رہا تھا۔ مولا علی علیہ السلام جن کے بارے میں سرورِ کائنات کا قول یہ ہے ’’علی علیہ السلام حق کے ساتھ ہے…‘‘ وہ بھی فاطمہ سلام اللہ علیہا کی طرف ہی ہیں۔

(۴)   رسولِ اکرمﷺ کی اہم ترین حدیث ثقلین کا یہ فقرہ بھی قابلِ توجہ ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہیں۔ یعنی قرآن اہلبیت علیہم السلام کے ساتھ ہے۔ تو جس نے اہلبیت علیہم السلام سے اختلاف کیا اس نے دراصل قرآن سے اختلاف کیا کیونکہ اہلبیت اطہار علیہم السلام قرآنِ ناطق ہیں۔ فدک میں یہ اختلاف واضح طور پر نظر آتاہے کہ خلیفۂ اوّل ابوبکر نے تمام اہلبیت علیہم السلام کی گواہی کو ٹھکرا دیا۔ پس انھوں نے صرف فاطمہ سلام اللہ علیہا کو نہیں جھٹلایا بلکہ انھوں نے قرآن کو بھی جھٹلایا ہے۔

(۵)   باغِ فدک رسول اللہ ﷺکی رحلت کے وقت جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا کی ملکیت میں تھا۔ ابوبکر نے اُن سے یہ باغ چھین لیا۔ ابوبکر کے حامیان کہتے ہیں کہ یہ اُن کا اجتہاد تھا اور اسی طرح فاطمہ سلام اللہ علیہا  کا بھی اجتہادتھا جو آپس میں ٹکرایا۔ یہ دونوں غلط نہیں تھے۔ یہ صدیق اوروہ صدیقہ!! سوال یہ ہے کہ کیا کسی کا مال غصب کر لینے کو اجتہاد کہا جا سکتا ہے؟ وہ بھی خود رسولؐ کا دیا ہوا مال انھیں کی بیٹی سے غصب کیا گیا ہے۔ اس طرح تو یہ غصب کرنے کا فیصلہ تو خود رسولﷺ کے اجتہاد سے ٹکرا دیا گیا ہے!!

(۶)   جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے مسجد نبویﷺ میں جا کر خود ایک خطبہ ارشاد فرمایا۔ اُس خطبے میں آپ سلام اللہ علیہا نے صرف باغِ فدک کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ اپنے اہلبیت علیہم السلام کی امامت و ولایت کا بھی ذکر کیا ہے۔ یعنی جس طرح سیدہ سلام اللہ علیہا عالم کا باغ غصب ہوا ہے اُس طرح اہلبیت علیہم  السلام کی ولایت و سرداری بھی غصب کی گئی ہے۔ آپ سلام اللہ علیہا کا مطالبۂ فدک درحقیقت مطالبہ ولایت علی علیہ السلام ہی ہے۔

(۷)   آپ سلام اللہ علیہا نے مسجد میں موجود مجمع کو بھی خطاب کیا اور تمام موجود مہاجرین و انصار کواُن کی غلطی کا احساس دلایا، کہ یہ جو تم نے اِس شخص کو خلافت سونپی ہے یہ تمہارے دین کو برباد کر دے گا اور تا صبح قیامت اس کا خامیازہ مسلمانوں کو بھگتنا پڑے گا۔

Short URL : https://saqlain.org/hpvg
saqlain

Recent Posts

8) کیا امام حسین کی عزاداری بدعت ہے؟

بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر…

4 weeks ago

6) کیا امام حسین کی عزاداری بدعت ہے؟

بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…

1 month ago

5) کیا امام حسین کی عزاداری بدعت ہے؟

بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…

1 month ago

4) کیا امام حسین کی عزاداری بدعت ہے؟

بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…

1 month ago

3) کیا امام حسین کی عزاداری بدعت ہے؟

دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…

1 month ago

2) کیا امام حسین کی عزاداری بدعت ہے؟

مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…

1 month ago