وفات مادرگرامی شجاعت و وفا، حضرت ام البنین (س)

فاطمہ کلابیہ کا نام اور ان کا شجرہ نسب :

ان کا نام فاطمہ اور کنیت ام البنین ( بیٹیوں کی ماں) تھی۔ ان کے ماں باپ بنی کلاب خاندان سے تعلق رکھتے تھے، جو پیغمبر اسلام (ص) کے اجداد تھے۔ ان کے باپ حزام اور ماں ثمامہ یا لیلی ہیں۔ ان کے شوہر علی بن ابیطالب (ع) اور ان کی اولاد عباس ، عبد اللہ، جعفر اور عثمان ہیں کہ چاروں بیٹے سر زمین کربلا میں امام حسین (ع) کی رکاب میں شہید ہوئے۔ حضرت ام البنین (ع) کی آرام گاہ، مدینہ منورہ میں قبرستان بقیع میں ہے۔

فاطمہ ایک پاک دامن اور باتقوی لڑکی تھیں۔ ان کے اخلاقی فضائل، انسانی کمالات، ایمانی طاقت ، ثابت قدمی، صبر و برد باری، بصیرت و دانائی اور قدرت بیان نے انھیں خواتین کی سردار بنا دیا تھا۔

حزام بن خالد بن ربیعہ بن وحید بن کعب بن عامر بن کلاب، ام البنین (ع) کے والد ہیں، وہ ایک شجاع بہادر اور راست گو شخص تھے اور ان کی مخصوص صفتوں میں شجاعت تھی۔ وہ عربوں میں شرافت کا مجسمہ سمجھے جاتے تھے اور عفو و بخشش، مہمان نوازی، دلاوری، شرافت، جوانمردی اور قوی استدلال میں مشہور تھے۔ ام البنین کی ماں، ثمامہ( لیلی) بنت سہیل بن عامر بن کلاب ( رسول خدا اور امام علی کے اجداد) تھیں۔ وہ اپنی اولاد کو تربیت دینے میں کافی کوشش کرتی تھیں اور تاریخ میں ان کا چہرہ درخشاں ہے۔ اس خاتون کی خصوصیت میں گہری سوچ ، اہل بیت (ع) سے دوستی، ماں کا فریضہ ادا کرنے کے ضمن میں اولاد کو ایک ہمدرد معلم کی حیثیت سے  اعتقادی امور اور ہمسر داری کے مسائل اور دوسروں سے معاشرت کے آداب  سکھانا قابل ذکر  ہے۔

بہت سی تاریخ کی کتابوں میں ان کے خاندان کی گیارہ ماؤں کا ذکر کیا گیا ہے، جو سب کی سب شریف اور اصلی عرب خاندانوں سے تعلق رکھتی تھیں اور وہ حقیقت میں شجرہ طیبہ کی مصداق تھیں، جس کی جڑیں زمین میں اور شاخیں آسمانوں میں پھیلی ہوئی ہیں اور اس پاک درخت کا پھل بیشک عباس بن علی اور عثمان بن علی وغیرہ تھے۔

اس خاتون کا خاندان ایک بنیادی اور جلیل القدر خاندان تھا جس کے افراد بہادری اور دستگیری میں مشہور تھے اور ان میں سے ہر ایک عظمت اور شرافت میں مشہور تھا اور ہم یہاں پر خلاصہ کے طور پر ان کی بعض خصوصیات کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:

ام البنین کے شجرہ نسب کی شرافت کے بارے میں مورخین لکھتے ہیں: ” تاریخ نے ام البنین کے آباء و اجداد اور ماموں کو ایسے متعارف کرایا ہے جس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ عربوں میں ایک شجاع اور شہسوار تھے اور ان کی شرافت اور عظمت اس حد تک تھی کہ وقت کے بادشاہ بھی اس کا اعتراف کرتے تھے۔” حضرت ابو الفضل العباس (ع) کی والدہ گرامی کے شجرہ نسب کے بارے میں تاریخ کی کتابوں میں بہت سے مطالب بیان کئے گئے ہیں۔ شاید ایک جملے سے ” ام البنین” کے خاندان کی عکاسی کی جا سکتی ہے اور وہ جملہ یہ ہے کہ:

ام البنین کے ماں باپ کا خاندان شجاعت، کرامت، اخلاق، سماجی حیثیت اور عظمت کے لحاط سے قریش کے بعد عربوں کے مختلف قبیلوں میں ممتاز خاندان تھا۔

حضرت ام البنین حضرت علی (ع) کی باوفا زوجہ ہیں ۔ آپ قبیلہ بنی کلاب سے تھیں، جو عرب کا مشہور بہادر و شجاع قبیلہ تھا ۔

آپ کی شادی:

جناب فاطمہ زہرا (س) کی شہادت کے بعد، آپ کی شادی حضرت علی (ع) سے ہوئی ۔ آپ نے حضرت امام حسن و امام حسین جناب زینب جناب ام کلثوم (ع) کی بالکل ایک ماں کی طرح خدمت کی ۔

آپ کی اولاد:

اللہ نے آپ کو چار بیٹے اور ایک بیٹی عطا فرمائی، بیٹوں کے نام: حضرت ابو الفضل العباس ، عبد اللہ، جعفر ، عثمان ، اور بیٹی جناب رقیہ تھیں ۔ جناب رقیہ کی شادی حضرت مسلم بن عقیل ہوئی ۔

آپ کا ایثار اور قربانی:

آپ نے اپنے تمام بچوں کو حضرت امام حسین (ع) کے ہمراہ کربلا کے سفر پر روانہ کیا تھا، اور روز عاشورہ آپ کے چاروں فرزند اسلام کی راہ میں قربان ہو گئے ۔ آپ کے داماد حضرت مسلم بن عقیل حضرت امام حسین (ع) کے سفیر بن کر کوفہ آئے اور اپنے دونوں بچوں سمیت کوفہ میں شہید کر دئیے گئے ۔

حضرت ام البنین اہل حرم کی نظر میں:

کربلا کے واقعے، اور اہل حرم کی قید سے واپسی کے بعد، مدینہ میں جب پہلی عید آئی ہے ، تو اہل حرم اپنے وارثوں کی یاد میں بے چین تھے، اور تمام بیبیاں جناب زینب س کی قیادت میں اپنے خاندان کی بزرگ شخصیت جناب ام البنین (ع) سے ملاقات کرنے گئیں ، اور آپ نے سب کو خصوصا جناب زینب کو گلے سے لگا کر تسلی دی ۔

حضرت ام البنین عزیزوں کے سوگ میں:

اپنے عزیزوں کی المناک شہادت کے بعد آپ جنت البقیع چلی جایا کرتی تھیں اور اس طرح گریہ کرتی تھیں کہ دوست و دشمن روتے تھے، چنانچہ مروان جو اہل بیت ع کا سخت ترین دشمن تھا، آپ کا مرثیہ سن کر بے اختیار آنسو بہانے پر مجبور ہو جایا کرتا تھا ۔ اپنے عزیزوں کی عزا میں  آپ کا مرثیہ تاریخ میں محفوظ ہے ۔

مقاتل الطالبين ص56 و بحارالانوار ج 45 ص 40

بیٹوں کی ماں:

آپ کو ام البنین یعنی ‘ ‘بیٹوں کی ماں ‘ ‘ کہہ کر پکارا کرتے تھے ، لیکن کربلا کے بعد آپ نے فرمایا : ‘ ‘مجھے ام البنین کہہ کر نہ پکارا کرو کیونکہ اس طرح پکارنا مجھے میرے شیر جیسے بچوں کی یاد دلاتا ہے ‘ ‘ ۔

حضرت ام البنین عرب خواتین کی نظر میں:

آج بھی عرب خواتین کربلا میں جب حضرت عباس علمدار (ع) کی زیارت کے لیے آپ کے حرم میں آتی ہیں ، تو اس طرح حضرت سے حاجت طلب کرتی ہیں  ‘ ‘ بحقّ امّک یا اباالفضل یا باب الحوائج ‘ ‘ ،

آپکی وفات:

آپ کی وفات 13  جمادی الثانیہ کو ہوئی اور آپکو جنت البقیع کے قبرستان میں دفن کیا گیا ۔

جناب ام البنین (س) کا بڑا احسان ہے قیام حق پر ۔ چار بیٹے عباس، عبد اللہ ، جعفر اور عثمان تھے۔

العمدة ص 287
الاحتجاج ، ج1 ، ص 61 ،احتجاج النبي ص يوم الغدير على الخلق ۔
كشف‏الغمة ج1 ص 94
اور ایک پوتا تھا ، پانچ قربانیاں ایک گھر سے ۔ مروان بن حکم کہتا ہے کہ:

واقعہ کربلا کے بعد میں جنت البقیع کے راستے پر گزر رہا تھا کہ دور سے کسی بی بی کے رونے کی آواز آئی ۔ میں نے گھوڑے کا رخ ادھر پھیر دیا ۔ میں نے دیکھا کہ ایک بی بی خاک پر بیٹھی بین کر رہی ہے ۔ میں نے غور سے سننے کی کوشش کی تو بین کے الفاظ یہ تھے۔ عباس !اگر تیرے ہاتھ نہ کاٹے جاتے تو میرا حسین (ع) نہ شہید ہوتا۔

یہ وہ خاتون ہیں جنہوں نے چاروں بیٹوں کو حسین (ع) کے ساتھ کربلا بھیجا اور اپنے بوڑھے ہونے کے باوجود کسی ایک بیٹے کو بھی اپنے پاس مدینے میں نہیں رکھا۔ اپنے ان چاروں بیٹوں کی مصیبت کو فرزند زہرا (س) کی شہادت کے مقابلے میں آسان سمجھتی تھیں۔
فلمّا نعی الیھا الاربعۃ ، قالت : قد قطعت نیاط قلبی ۔ اولادی و من تحت الخضراء کلھم فداء لابی عبد اللہ الحسین (ع) ۔ اخبرنی عن الحسین (ع)۔

جب انہیں اپنے ایک بیٹے کی شہادت کی خبر سنائی گئی تو فرمایا: اس خبر سے کیا مراد ہے ؟ مجھے ابا عبد اللہ (ع) کے بارے میں آگاہ کریں ۔ جب بشیر نے اسے اپنے چار بیٹوں کی شہادت کی خبر دے دی تو کہا : میرا دل پھٹ گیا ، میرے تمام بیٹے اور جو کچھ آسمان کے نیچے موجود ہے، سب ابا عبد اللہ الحسین (ع) پر قربان ہوں، مجھے ابا عبد اللہ الحسین (ع) کے بارے میں بتائیں۔
خاتون دو سرا، مرحوم فیض الاسلام ، ص89

حضرت ام البنین کے چاروں بیٹے کربلا کے خونین واقعہ میں درجہ شہادت پر فائز ہوۓ ۔ انھوں نے اس مصیبت پر صبر و شکیبائی سے کام لیا۔ حادثہ عاشورا سے آگاہ ہونے کے بعد وہ اپنے بیٹے عباس کے فرزند عبید اللہ کو اپنے ساتھ قبرستان بقیع میں لے جایا کرتی تھیں اور اپنے بیٹوں کے غم میں درد ناک اشعار پڑھا کرتی تھیں۔ مدینہ کے لوگ بھی اس عظیم خاتون کے درد بھرے بین سننے کے لیے وہاں اکٹھے ہو جایا کرتے تھے اور گریہ و زاری کیا کرتے تھے۔

ام البنین (س) اور ایک نورانی تولد:

حزّام بن خالد،” بنی کلاب” کے بعض افراد کے ہمراہ سفر پر گئے تھے۔ جب وہ سفر سے واپس لوٹے، تو ان کی باوفا شریک حیات، ثمامہ بنت سہیل، جو حاملہ تھیں، نے وضع حمل کیا تھا اور موتی جیسی درخشان ایک بیٹی کو جنم دیا تھا۔ حزّام نے اپنی بیٹی کی پیدائش کے بارے میں باخبر ہونے کے بعد اس کا نام ” فاطمہ” رکھا اور عربوں کی رسم کے مطابق اس کے لیے ایک کنیت کا بھی انتخاب کیا اور یہ کنیت “ام البنین” تھی۔

فاطمہ، یعنی فضیلتوں کی ماں نے دوسرے بچوں کے مانند بچپن کا دور گزارا اور ایک مہربان اور پاک دامن ماں اور شجاع باپ کے دامن میں پرورش پائی، جو بہت سے اخلاقی اوصاف کے مالک تھے۔

فاطمہ کی ماں کے بارے میں مورخین یوں لکھتے ہیں کہ:

” ثمامہ، ام البنین کی ماں، ایک ادیب ، مکمل اور عاقل خاتون تھیں ۔ انھوں نے اپنی بیٹی کو عربوں کے آداب سکھائے اور ایک لڑکی کی ضرورت کے مطابق اسے زندگی میں خانہ داری، شوہر کے حقوق جیسے امور کی تربیت دی۔”

ام البنین (س)کی پیدائش کی تاریخ:

حضرت ام البنین کی تاریخ پیدائش کے بارے میں کوئی صحیح اطلاع دستیاب نہیں ہے اور تاریخ نویسوں نے ان کی پیدائش کی تاریخ کو درج نہیں کیا ہے، لیکن اس بات کا ذکر کیا ہے کہ ان کے بڑے بیٹے، حضرت ابو الفضل ع کی پیدائش سال 26ہجری میں واقع ہوئی ہے۔ بعض مورخین نے ان کی پیدائش کے بارے میں ہجرت کے تقریبا 5 سال بعد ( کوفہ کے آس پاس) کا اندازہ لگایا ہے۔

ام البنین کے خاندان کی نمایاں خصوصیات:

حضرت ام البنین کے خاندان میں کئی اہم خصوصیات پائی جاتی ہیں، جو سب کی سب حضرت عباس ( ع ) کی صورت میں واضح اور روشن ہوئی ہیں:

الف) شجاعت اور دلاوری، جس کا انہوں نے کربلا میں خوبصورت ترین انداز میں مظاہرہ کیا۔

ب) ادب، سنجیدگی، خود اعتمادی اور ضبط نفس کا ان کی 34 سالہ زندگی میں واضح مشاہدہ کیا جا سکتاہے۔

ج) ہنر اور ادبیات کو ام البنین نے اپنے ادیب اور شاعر ماموں ” لبید” سے وراثت میں پایا تھا اور حضرت ابو الفضل العباس نے اپنی ادیبہ ماں سے۔

د) ایثار و قربانی اور دوسروں کے حقوق کا احترام کرنا، ان کے عشق امامت و ولایت میں ظاہر ہوا۔

ھ) وفاداری اور عہد و پیمان کی پابندی۔

حضرت علی (ع) کا شادی کرنے کا فیصلہ:

عقیل، علم انساب میں بہت آشنائی رکھتے تھے اور ان کی بات اس سلسلہ میں حجت مانی جاتی تھی۔ ان کے لیے مسجد النبی (ص) میں ایک چٹائی بچھائی جاتی تھی جس پر وہ نماز ادا کرتے تھے اور اس کے بعد عرب قبائل علم انساب کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے کے لیے ان کے گرد جمع ہوتے تھے۔ وہ ایک حاضر جواب شخص تھے۔ اسی لیے حضرت علی بن ابیطالب (ع) نے جب حضرت کی شہادت کے بعد، انکی وصیت کے مطابق شادی کا ارادہ کیا تو اپنے ماہر انساب بھائی سے مخاطب ہو کر فرمایا: میرے لیے ایک ایسی عورت کا انتخاب کریں کہ، جو شجاع اور دلیر مرد عربوں کی نسل سے ہو تا کہ میں اس کے ساتھ شادی کروں اور وہ میرے لیے ایک بہادر اور شہسوار بیٹے کو جنم دے۔”

حضرت عقیل بن ابیطالب نے ، بنی کلاب کے خاندان سے ام البنین کا انتخاب کیا،جو شجاعت میں بے مثال خاندان تھا، اور اپنے بھائی کے جواب میں کہا:” آپ ام البنین کلابیہ سے شادی کریں، کیونکہ ان کے آباء و اجداد سے شجاع تر عربوں میں کوئی نہیں ہے۔ حضرت عقیل نے بنی کلاب خاندان کی دوسری خصوصیات بھی بیان کیں اور امام (ع) نے اس انتخاب کو پسند فرمایا اور عقیل کو رشتہ لینے کے لیے ام البنین (ع) کے باپ کے پاس بھیجا۔

دلاور عرب خاندان سے ایک خاتون:

حضرت علی (ع) نے فاطمہ کلابیہ کی تائید کرنے اور انھیں پسند کرنے کے بعد اپنے بھائی عقیل کو رشتہ لینے کے لیے فاطمہ کے باپ کے پاس بھیجا۔

حزّام ، چونکہ ایک مہمان نواز شخص تھے، اس لیے انہوں نے حضرت عقیل کی مکمل طور پر خاطر مدارات کی اور دل کھول کر ان کا خیر مقدم کیا اور ان کے لیے قربانی کی۔ عربوں کی رسم یہ تھی کہ مہمان کی تین دن تک مہمان نوازی کرتے تھے اور تیسرے دن ان کی حاجت کے بارے میں سوال کرتے تھے اور ان کی تشریف آوری کی وجہ کے بارے میں پوچھتے تھے۔ چونکہ ام البنین کا خاندان مدینہ سے باہر زندگی گزارتا تھا، اس لیے انہوں نے بھی اسی رسم و رواج پر عمل کیا۔ چوتھے دن حضرت عقیل کی تشریف آوری کی وجہ کے بارے میں سوال کیا اور حضرت عقیل نے جواب میں کہا : میں دینی پیشوا اور عظم اوصیاء، امیر المومنین علی بن ابیطالب کی طرف سے آپ کی بیٹی فاطمہ کے رشتے کی بات کرنے کے لیے آیا ہوں۔ حزام ، چونکہ اس قسم کی تجویز کے بارے میں تصور نہیں کرتے تھے، اس لیے متحیّر ہو گئے، اور اس کے  بعد پوری صداقت سے کہا: کس شریف نسل اور عظمت والے خاندان سے ! لیکن اے عقیل! امیر المؤمنین کے لیے ایک صحرا نشین عورت شائستہ نہیں ہے، جو صحرا نشینوں کی ابتدائی تہذیب و تمدن میں پلی ہو۔” انھیں ایک بلند مرتبہ تمدن والی عورت سے شادی کرنا چاہیے اور ان دو تمدنوں کے درمیان فرق ہے۔” عقیل نے ان کے کلام کو سننے کے بعد کہا:” جو کچھ آپ کہتے ہیں، اس سے امیر المؤمنین باخبر ہیں اور ان اوصاف کے باوجود وہ ان سے رشتہ ازدواج قائم کرنا چاہتے ہیں۔” اس کے بعد ام البنین کے والد نہیں جانتے تھے کہ کیا کہیں، اس لیے حضرت عقیل سے مہلت چاہی تا کہ بیٹی کی ماں ثمامہ بنت سہیل اور خود بیٹی سے پوچھ لیں اور جناب عقیل سے مخاطب ہو کر کہا:” عورتیں اپنی بیٹیوں کے جذبات اور حالات سے زیادہ واقف ہوتی ہیں اور ان کی مصلحتوں کے بارے میں زیادہ جانتی ہیں۔”

ام البنین کے باپ جب اپنی بیوی اور بیٹی کے پاس گئے، تو دیکھا کہ ان کی بیوی، ام البنین کے بالوں میں کنگھی کر رہی تھیں۔ حزام بن خالد کمرے میں داخل ہوئے اور ان سے علی (ع) کو قبول کرنے کے بارے میں سوال کیا اور کہا:”کیا تم ہماری بیٹی کو امیر المؤمنین (ع) کی شریک حیات بننے کے لائق جانتی ہو ؟ جان لو کہ ان کا گھر مرکز وحی و نبوت ہے اور علم و حکمت اور آداب کا گھر ہے اگر تم اپنی بیٹی کو اس گھر کی خادمہ بننے کے لائق جانتی ہو تو ہم اس رشتہ کو قبول کر لیں گے اور اگر اس کے لائق نہیں جانتی ہو تو انکار کر دیں گے۔”

ان کی بیوی نے جواب میں کہا:” اے حزام! خدا کی قسم میں نے اس کی بہتر صورت میں تربیت کی ہے اور خداوند سے دعا کی ہے کہ وہ حقیقی معنوں میں سعادتمند ہو جائے اور میرے مولا امیر المؤمنین ( ع ) کی خدمت کےلائق اور صالح ہو، پس آپ اسے میرے مولا امیر المؤمنین علی بن ابیطالب کے نکاح میں قرار دے دیجئے۔”

عقیل نے ام البنین کی اجازت سے ان دو بزرگ شخصیتوں کے درمیان نکاح پڑھا۔ ان کا مہر، سنت رسول اللہ (ص) کے مطابق قرار دیا جو آپ (ص) نے اپنی بیٹیوں اور ہمسروں کے لیے معین کیا تھا اور وہ پانچ سو درہم تھے، جبکہ ام البنین کے باپ کہتے تھے:

” وہ ایک تحفہ ہے، ہماری طرف سے، رسول خدا (ص) کے چچا زاد بھائی کی خدمت میں اور مال و دولت کی ہمیں کوئی لالچ نہیں ہے۔”

حضرت علی (ع) سے ام البنین کے ازدواج کی تاریخ:

علی (ع) نے حضرت زہراء (س) کی رحلت کے بعد ام البنین سے شادی کی ہے۔ امیر المؤمنین کی ام البنین سے شادی کی صحیح اور حتمی تاریخ معلوم نہیں ہے۔ لیکن مورخین نے حضرت ابو الفضل العباس کی عمر میں اختلاف نظر کے پیش نظر کہ شہادت کے وقت وہ 32 یا 39 سال کے تھے، ان کی تاریخ پیدائش سال 24 ہجری یا سال 26 ہجری بتائی ہے۔ اس لیے ان کا اعتقاد ہے کہ ام البنین کی شادی، تحقیق کے مطابق سال 23 ہجری سے پہلے واقع ہوئی ہے، لیکن بعض مورخین نے کئی دوسری تاریخیں بھی ذکر کی ہیں۔

ام البنین کا علی (ع) کے گھر میں داخل ہونا:

فاطمہ کلابیہ، شرافت، نجابت، پاک دامنی اور اخلاص کا مجسمہ تھیں۔ علی (ع) کے گھر میں قدم رکھنے کے وقت کہا: ” جب تک فاطمہ زہراء(س) کی بڑی بیٹی مجھے اس مقدس گھر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دیں تو ، میں اس وقت تک اس گھر میں قدم نہیں رکھوں گی۔”

یہ خاندان رسالت کے لیے ان کا انتہائی ادب و احترام کا مظاہرہ تھا۔ جس دن حضرت ام البنین نے علی (ع) کے گھر میں پہلی بار قدم رکھا، امام حسن اور امام حسین (ع) بیمار تھے تو ابو طالب کی بہو گھر میں داخل ہوتے ہی عالم ہستی کے ان دو عزیزوں اور اہل بہشت کے جوانوں کے سرداروں کے پاس پہنچیں۔ اور ایک ہمدرد ماں کے مانند ان کی تیمارداری کرنے لگیں اور مسلسل یہ کہتی تھیں کہ:” میں فاطمہ زہراء (س) کی اولاد کی کنیز ہوں۔”

حضرت زہراء (س) کی اولاد سے ام البنین کی بے لوث محبت:

ام البنین حتی الامکان یہ کوشش کر رہی تھیں کہ حضرت زہراء (س) کے بچوں کے لیے ان کی ماں کی شہادت سے پیدا ہونے والا خلاء پر کر سکیں، کیونکہ ان کی ماں جوانی میں ان سے جدا ہوئی تھیں اور وہ اپنی مہربان ماں کی بے لوث محبت سے محروم ہو چکے تھے۔

فاطمہ زہراء (س) کے بچے اس پارسا خاتون کے وجود میں اپنی ماں کو پا رہے تھے اور اپنی ماں کے نہ ہونے کے رنج و الم کا کم تر احساس کر رہے تھے۔

جناب ام البنین، رسول خدا (ص) کی بیٹی کے بچوں کو اپنی اولاد پر مقدم قرار دیتی تھیں اور اپنی محبت کا زیادہ تر اظہار ان کے لیے کیا کرتی تھیں اور اسے اپنے لیے فریضہ جانتی تھیں، کیونکہ خداوند متعال نے قرآن مجید میں سب لوگوں کو ان سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے۔

فاطمہ کلابیہ سے ام البنین تک:

فاطمہ کلابیہ نے، حضرت علی (ع) کے ساتھ ایک مختصر مدت کی مشترکہ زندگی کے بعد امیر المؤمنین کی خدمت میں یہ تجویز پیش کی کہ انھیں ” فاطمہ” کے بجائے ” ام البنین” خطاب کریں تا کہ” فاطمہ” (س) اور ” کنیز فاطمہ” کے درمیان فرق مشخص ہو جائے اور یہ فرق محفوظ رہے۔

حضرت علی (ع) کے ساتھ ام البنین کے ازدواج کا ثمر:

حضرت علی (ع) سے شادی کے نتیجہ میں حضرت ام البنین نے چار شجاع اور بہادر بیٹوں کو جنم دیا، جن کے نام عباس، عبد اللہ، جعفر اور عثمان تھے اور ان ہی بیٹوں کی وجہ سے انھیں ام البنین، یعنی بیٹوں کی ماں، کہا جاتا تھا۔حضرت ام البنین کے یہ چاروں بیٹے کربلا میں شہید ہوئے اور صرف حضرت عباس کی نسل ان کے بیٹے عبید اللہ سے جاری رہی۔

شجاع بیٹے کی پیدائش:

حضرت ام البنین کے پہلے بیٹے حضرت ابو الفضل العباس تھے۔ بعض محقیقین کا اعتقاد ہے کہ حضرت ابو الفضل العباس (ع) 4 شعبان سال 26 ہجری میں پیدا ہوئے ہیں۔ جب حضرت عباس کی ولادت کی خوش خبری امیر المؤمنین حضرت علی (ع) کو دی گئی، وہ فورا اپنے گھر گئے اور بیٹے کو آغوش میں لےلیا، اس کے بوسے لیے اور اسلامی سنت اور رسم کے مطابق پیدائش کے ساتویں دن ایک بھیڑ کو عقیقہ کے عنوان سے ذبح کیا اور اس کے گوشت کو فقراء کے درمیان صدقہ کے طور پر تقسیم کیا۔ امام علی (ع) نے اس کا نام عباس ( خشمگین: کچھار کا شیر ) رکھا، کیونکہ وہ باطل اور گمراہیوں کے مقابلے میں خشمگین اور جری تھے اور نیکیوں کے مقابلے میں بہت متواضع تھے۔

امام حسین (ع) کے بارے میں حضرت عباس کو ام البنین کی فرمائش:

جب امام حسین ع نے مدینہ کو چھوڑ کر حج اور اس کے بعد عراق ہجرت کرنے کا فیصلہ کیا، ام البنین، امام حسین (ع) کے ہمراہ جانے والوں کو یہ نصیحت کرتی تھیں:”میرے نور چشم امام حسین (ع) کی فرمابرداری کرنا،”

حضرت عباس(ع) کے بارے میں امام صادق(ع) کا ارشاد:

امام صادق (ع) نے فرمایا:

” رحم اللہ عمی العباس لقد اثر و ابلی بلاء حسنا۔ ۔ ۔”

خدا ہمارے عباس پر رحمت کرے، کتنا بہتر امتحان دیا، جاں نثاری کی اور شدید ترین امتحانات پاس کئے ۔ ہمارے چچا عباس کے لیے خدا کے پاس ایک ایسا مقام ہے کہ تمام شہداء اس پر رشک کرتے ہیں۔”

شب عاشورا:

شب عاشور عباس، ابا عبد اللہ الحسین (ع) کے پاس بیٹھے ہیں۔ اسی دوران دشمنوں کا ایک سردار آتا ہے اور فریاد بلند کرتا ہے:” عباس بن علی اور ان کے بھائیوں سے کہہ دو کہ ہمارے پاس آ جائیں۔ عباس اس آواز کو سنتے ہیں لیکن سننے کے باوجود ان سنی کرتے ہیں، اس کی طرف کوئی اعتنا نہیں کرتے ہیں۔ امام حسین (ع) کے سامنے اس طرح با ادب بیٹھے ہیں کہ امام نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: ” اس کو جواب دو ، اگرچہ وہ فاسق ہے”۔ حضرت عباس آگے بڑھ کر دیکھتے ہیں کہ شمر ذی الجوشن ہے۔ شمر، حضرت ابو الفضل العباس کے ساتھ ان کی ماں کی طرف سے ایک دور دراز رشتہ کے پیش نظر کہ دونوں ایک ہی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے، کوفہ سے آتے وقت حضرت ابو الفضل العباس اور ان کے بھائیوں کے لیے اپنے خیال خام میں امان نامہ لے کر آیا تھا اور اسے اپنے خیال میں ان کے حق میں ایک خدمت جانتا تھا۔

جب شمر نے اپنی بات ختم کی، حضرت عباس(ع) غیض و غضب میں اس کی طرف رخ کر کے بولے:” خدا تمھیں اور اس آمان نامہ کو تیرے ہاتھ میں دینے والے پر لعنت کرے، تم نے مجھے کیا سمجھا ہے ؟ میرے بارے میں کیا خیال کیا ہے ؟ کیا تم نے یہ سمجھا ہے کہ میں ایک ایسا انسان ہوں جو اپنی جان بچانے کے لیے، اپنے امام اور بھائی امام حسین (ع) کو تنہا چھوڑ کر تیرے پیچھے آئے گا ؟ جس دامن میں ہم  نے پرورش پائی ہے اور جس پستان سے ہم نے دودھ پیا ہے، اس نے ہمیں اس طرح تربیت نہیں دی ہے کہ ہم اپنے امام اور بھائی کے ساتھ بے وفائی کریں۔”

مورخین نے لکھا ہے:” واقعہ کربلا کے بعد، بشیر نے مدینہ میں ام البنین سے ملاقات کی تا کہ ان کے بیٹوں کی شہادت کی خبر انھیں سنائیں۔ وہ امام سجاد (ع) کی طرف سے بھیجے گئے تھے، ام البنین نے بشیر کو دیکھنے کے بعد فرمایا:

اے بشیر ! امام حسین ( ع ) کے بارے میں کیا خبر لائے ہو ؟ بشیر نے کہا: خدا آپ کو صبر دے آپ کے عباس قتل کیے گئے۔ ام البنین نے فرمایا:” مجھے حسین ( ع ) کی خبر بتا دو۔” بشیر نے ان کے باقی بیٹوں کی شہادت کی خبر کا اعلان کیا۔ لیکن ام البنین مسلسل امام حسین (ع) کے بارے میں پوچھتی رہیں اور صبر و شکیبائی سے بشیر کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا:

“یا بشیر اخبرنی عن ابی عبد اللہ الحسین، اولادی و تحت الخضری کلھم فداء لابی عبد اللہ الحسین”

“اے بشیر! مجھے ابی عبد اللہ الحسین  کی خبر بتا دو میرے بیٹے اور جو کچھ اس نیلے آسمان کے نیچے ہے، ابا عبد اللہ الحسین (ع) پر قربان ہو۔”

جب بشیر نے امام حسین (ع) کی شہادت کی خبر دی تو ام البنین نے ایک آہ! بھری آواز میں فرمایا:” قد قطعت نیاط قلبی”،” اے بشیر! تو نے میرے دل کی رگ کو پارہ پارہ کیا۔” اور اس کے بعد نالہ و زاری کی۔

حضرت زینب کبری (س) مدینہ میں پہنچنے کے بعد، حضرت ام البنین کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور ان کے بیٹوں کی شہادت کے بارے میں تسلیت و تعزیت ادا کی۔

رسول خدا (ص) کی نواسی، امام حسین (ع) کی شریک تحریک اور قیام حسینی (ع) کے دھڑکتے دل، یعنی زینب کبری (س) کے، ام البنین کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کے بیٹوں کی شہادت پر کلمات تسلیت و تعزیت کہنے سے اہل بیت (ع) کی نظر میں ام البنین کے بلند مقام و منزلت کا مقام معلوم ہوتا ہے۔

حضرت زینب کبری (س) عیدوں وغیرہ کے مانند دوسری مناسبتوں پر بھی احترام بجا لانے کے لیے ام البنین کی خدمت میں حاضر ہوتی تھیں۔

چار شہیدوں کی ماں:

ام البنین کے چار بیٹوں کے کربلا میں شہید ہونے سے، اس صبر و شکیبائی کی مجسمہ خاتون کو چار شہید بیٹوں کی ماں کا شرف اور افتخار ملا اس کے ساتھ ہی شہید شوہر کی بیوی ہونے کا شرف بھی انھیں حاصل تھا۔ انھوں نے مذکورہ جذبات کی روشنی میں کچھ اشعار کہے ہیں جن کا ترجمہ حسب ذیل ہے:

” اے وہ جس نے میرے کڑیل جوان بیٹے کو اپنے باپ کے مانند دشمنوں پر حملہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے دیکھا۔ علی ع کے بیٹے سب کے سب کچھار کے شیروں کے مانند شجاع اور بہادر ہیں۔ میں نے سنا کہ میرے عباس کے سر پر آہنی گرز سے وار کیا گیا، حالانکہ ان کے ہاتھ کاٹ دئیے گئے تھے، اگر میرے بیٹے کے بدن میں ہاتھ ہوتے تو کون اس کے پاس آ کر جنگ کرنے کی جرات کرتا ؟”

امام حسین (ع) سے ان کی اس قدر محبت ان کی معنویت میں کمال کی دلیل ہے کہ انھوں نے تمام مصائب کو ولایت کی راہ میں فراموش کیا اور صرف اپنے امام اور رہبر کی بات کرتی تھیں۔

ام البنین ، عاشورا کی یاد کی محافظ:

ام البنین کی اہم خصوصیات میں سے، زمانہ اور اس کے مسائل کی طرف ان کا توجہ کرنا ہے۔ انھوں نے کربلا کے واقعہ کے بعد، نوحہ خوانی اور مرثیہ سرائی سے استفادہ کیا تا کہ کربلا والوں کی مظلومیت کی آواز کو آنے والی نسلوں تک پہنچائیں۔ وہ حضرت عباس (ع) کے بیٹے عبید اللہ، جو اپنی ماں کے ساتھ کربلا میں تھے اور عاشورا کے واقعات کو بیان کرنے کی ایک زندہ سند تھے، کے ہمراہ بقیع میں جا کر نوحہ خوانی کرتی تھیں اور شور و غوغا برپا کرتی تھیں۔ مدینہ کے لوگ ان کے ارد گرد جمع ہوتے تھے اور ان کے ساتھ نالہ و زاری کرتے تھے۔

امام باقر (ع) فرماتے ہیں کہ:” وہ بقیع میں جاتی تھیں اور اس قدر دلسوز مرثیہ خوانی کرتی تھیں کہ مروان، اپنی سنگدلی کے باوجود گریہ کرتا تھا ۔

وفا کے ساحل پر:

جذبات اور محبت کا ایک نتیجہ، اپنے عزیزوں کے لیے وفاداری کا احساس ہے، اور یہ احساس حضرت ام البنین کی زندگی میں مولائے متقیان کی شہادت کے بعد ان کے کلام میں مشہود تھا۔ ام البنین کی اپنے شوہر کے لیے وفاداری اس حد تک تھی کہ حضرت علی (ع) کی شہادت کے بعد، جوان ہونے کے باوجود اپنی عمر کے آخری لمحات تک اپنے شوہر کے احترام میں دوسری شادی نہیں کی اور امام علی (ع) کے بعد، بیس سال سے زیادہ  کی  طولانی مدت تک زندہ رہیں۔ جب حضرت علی (ع) کی ایک بیوی ” امامہ” کے بارے میں ایک مشہور عرب ” مغیرة بن نوفل” سے رشتے کی بات ہوئی اور اس سلسلہ می‏ ام البنین سے صلاح و مشورہ کیا  گیا تو، انھوں نے جواب میں فرمایا:” سزاوار  نہیں ہے کہ علی (ع) کے بعد ہم کسی دوسرے مرد کے گھر میں جا کر اس کے ساتھ ازدواجی زندگی کا عہد و پیمان باندھیں۔”

ام البنین کے اس کلام نے صرف ” امامہ” کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ اس نے لیلی، تمیمیہ اور اسماء بنت عمیس پر بھی اثر ڈالا اور حضرت علی (ع) کی ان چاروں بیویوں نے زندگی بھر، علی (ع) کے بعد کسی دوسرے مرد سے شادی نہیں کی۔

ہنر کے آئینہ میں:

ام البنین کی دوسری بلند صفات میں سے ان کی فصاحت و بلاغت کی صفت ہے جو ان کے خوبصورت اور لافانی اشعار میں ظاہر ہوئی ہے۔ ان کے لافانی اشعار، جن کی عربوں کے بڑے ادبیوں اور شاعروں نے تجلیل کی ہے، ان میں ان کے وہ دلسوز اشعار ہیں جو انھوں نے اپنے  بیٹے حضرت  ابو الفضل العباس کی شہادت کے بعد کہے ہیں۔

لاتدعونی ویک ام البنین      تذکرینی بلیوث العرین

کانت بنون لی ادعی بھم      والیوم اصبحتُ ولا من بنین

اربعة مثل نسور الرّبی       قد و اصلواالموت بقطع الوتین

” مجھے ام البنین نہ کہو، مجھے اپنے دلاور شیر یاد آتے ہیں۔ میرے کئی بیٹے تھے، جن کی وجہ سے مجھے ام البنین کہا جاتا تھا، لیکن آج میرا کوئی بیٹا نہیں ہے۔ میرے چار بیٹے شکاری بازوں کے مانند تھے، وہ سب شہید ہوئے۔”

مورخین لکھتے ہیں :” ام البنین اپنے بیٹوں، خاص کر امام حسین (ع) کے لیے ایسی دلسوز نوحہ خوانی کرتی تھیں اور آنسو بہاتی تھیں کہ، مروان بن حکم جیسے دشمنان اہل بیت (ع) بھی ان کے مرثیے کو سن کر گریہ وزاری کیا کرتے تھے۔

حضرت عباس کے بارے میں ان کے دوسرے اشعار میں ” عظیم مجسمہ شجاعت” نامی اشعار ہیں کہ فرماتی ہیں:

یا من رای العباس کرّ علی جماھیر النقد

و وراہ من ابناء حیدر کل لیث ذی لبد

نبئت انّ ابنی اصیب براسہ مقطوع ید

ویلی علی شبلی امال براسہ ضرب العمد

لو کان سیفک فی یدیک لما دنا منہ احد

” اے وہ جس نے عباس کو دشمن پر حملہ کرتے ہوئے دیکھا ہے اور حیدر کے بیٹے ان کے پیچھے تھے۔ کہتے ہیں کہ میرے بیٹے کے بازو کاٹے گئے اور ان کے سر پر آہنی عمود سے وار کیا گیا، اگر تیرے ہاتھ میں تلوار ہوتی تو کوئی تیرے نزدیک آنے کی جرات نہ کرتا!”

ابصار العين،ص 26.

وہ اپنے ان اشعار سے کربلا کے واقعے کو زندہ کیا کرتی تھیں اور عزاداری کی صورت میں وقت کی حکومت پر اعتراض بھی کرتی تھیں اور ان کے گرد جمع ہونے والے لوگوں کو بنی امیہ کے مظالم سے آگاہ بھی کرتی تھیں۔

حضرت ام البنین کا علم اور معرفت:

ام البنین کی زندگی ہمیشہ با بصیرت اور علم و دانش کے نور سے منور تھی اور ان کی یہ بلند فضیلت تاریخ کی کتابوں میں جگہ جگہ پر ذکر کی گئی ہے، جس سے ہمیں اس عالمہ و فاضلہ خاتون کی عظمت معلوم ہوتی ہے۔ اہل بیت (ع) کے ساتھ ان کی محبت اور امامت کے بارے میں ان کی دینی بصیرت اس قدر تھی کہ ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:

” ام البنین کی عظمت و معرفت اور بصیرت کے بارے میں بس اتنا ہی کافی ہے کہ: ” جب وہ امیر المؤمنین (ع) کی خدمت میں حاضر ہوتی تھیں اور حسنین (ع) بیمار ہوتے تو وہ ہمدردی اور مہربانی کے ساتھ پیش آتی تھیں اور ان کے ساتھ ہم کلام ہوتی تھیں اور حد درجہ محبت سے ان کے ساتھ برتاؤ کرتی تھیں، جیسے ایک ہمدرد اور مہربان ماں پیش آتی ہے۔”

ان کے اور ان کے عظمت والے بیٹے میں ان کا علم متجلی ہے۔ وہ ایک محدثہ ہیں اور انھوں نے اپنے بیٹوں کی علم و دانش سے تربیت کی ہے۔ اگرچہ ان کے بیٹے ” باب علم نبی” کے فرزند تھے، لیکن اپنی ماں کے علم و دانش سے بھی بہرہ مند تھے، چنانچہ حضرت علی (ع) اپنے بیٹے حضرت عباس (ع) کے بارے میں فرماتے تھے کہ:

” انّ ولدی العباس زقّ العلم زقا ”

بیشک میرے بیٹے عباس نے بچپن میں ہی علم سیکھا ہے اور جس طرح کبوتر کا بچہ اپنی ماں سے پانی اور غذا حاصل کرتا ہے، اسی طرح اس نے مجھ سے معارف کی تربیت پائی ہے۔

حضرت ام البنین (ع) کی رحلت:

حضرت ام البنین، حضرت زینب کبری (س) کی رحلت کے بعد دارفانی کو الوداع کہہ گئی ہیں۔

تاریخ لکھنے والوں نے ان کی تاریخ وفات مختلف بتائی ہے، اس طرح کہ ان میں سے بعض نے ان کی تاریخ وفات کو سال 70 ہجری بیان کیا ہے اور بعض دوسرے مورخین نے ان کی تاریخ وفات کو 13 جمادی الثانی سال 64 ہجری بتایا ہے اور دوسرا نظریہ زیادہ مشہور ہے۔

ام البنین کی مہر و محبت سے چھلکتی زندگی آخری لمحات میں تھی، ام البنین کی زندگی کی آخری رات تھی۔ خادمہ فضہ نے اس مودّب خاتون سے مخاطب ہو کر درخواست کی کہ ان آخری لمحات میں اسے ایک بہترین جملہ سکھائے ۔ ام البنین نے ایک تبسم کی حالت میں فرمایا: ” السلام علیک یا ابا عبد اللہ الحسین،

اس کے فورا بعد فضہ نے ام البنین کو احتضار کی حالت میں پایا اور دوڑ کے علی (ع) اور حسین (ع) کی اولاد کو بلایا۔

تھوڑی ہی دیر بعد اماں! اماں ! کی آواز مدینہ میں گونج اٹھی۔

حضرت فاطمہ زہراء (س) کے بیٹے اور نواسے ام البنین کو ماں کہہ کر پکارتے تھے اور یہ خاتون انھیں منع نہیں کرتی تھیں، شاید اب اس میں یہ کہنے کی طاقت باقی نہ رہی تھی کہ:” میں فاطمہ (س) کی کنیز ہوں۔”

بہر حال ام البنین (ع) کو جنت البقیع میں، رسول خدا (ص) کی دو پھپھیوں : صفیہ و عاتکہ کے پاس امام حسن (ع) اور فاطمہ بنت اسد (س) کی قبروں کے قریب سپرد خاک کیا گیا۔

بہادر شوہر کی بہادر زوجہ، بہادر بیٹے کی بہادر ماں ’’ام البنین‘‘

تاریخ اسلام کی عظیم المرتبت خواتین میں سے ایک جلیل القدر خاتون حضرت ام البنین ہیں جو ہمیشہ حضرت امام حسین (ع) کے قاتلوں اور بنی امیہ کے حکمرانوں کی مذمت کیا کرتی تھیں۔ آپ ہمیشہ مجالس عزائے حسینی برپا کرتی تھیں تا کہ شہدای کربلا کا مشن و مقصد ہمیشہ زندہ رہے۔  اہل بیت (ع) سے عشق و محبت رکھنے والی خواتین ان مجلسوں میں شرکت کرتی تھیں اور مظلوم کربلا پر ہونے والے مصائب و آلام کو یاد کر کے آنسو بہایا کرتی تھیں ۔
حضرت فاطمہ کلابیہ جن کا مشہور و معروف لقب ام البنین تھا۔ حضرت علی (ع) کی شریک حیات اور باب الحوائج حضرت عباس (ع) کی مادر گرامی حضرت ام البنین بے حد مضطرب و بے چین تھیں کہ اتنے میں خبر ملی کہ بشیر حضرت امام سجاد (ع) کے حکم سے مدینہ میں آیا ہے تا کہ لوگوں کو کربلا کے دلسوز واقعے اور اسیران اہل بیت کی مدینہ واپسی سے آگاہ کرے، بشیر مدینے میں منادی سنا رہا تھا کہ اے اہل مدینہ، اہل بیت طاہرین کا لٹا ہوا قافلہ مدینہ واپس آ گيا ہے جب یہ آواز حضرت ام البنین کے کانوں سے ٹکرائی تو عصا کے سہارے گھر سے باہر نکلیں اور بشیر سے سوال کیا اے بشیر میرے حسین کی کیا خبر ہے ؟ بشیر نے کہا خدا آپ کو صبر عطا کرے آپ کا فرزند عباس شہید کر دیا گیا ام البنین نے دوبارہ سوال کیا اے بشیر میرے حسین کے بارے میں بتاؤ ؟ بشیر نے آپ کے تمام فرزندوں کی شہادت کو ایک ایک کر کے بیان کیا لیکن حضرت ام البنین مسلسل امام حسین ع کے بارے میں سوال کر رہی تھیں اور کہتی جارہی تھیں اے بشیر میرے تمام فرزند اور جو کچھ بھی آسمان کے نیچے ہے سب میرے حسین پر قربان ہوں، اس وقت بشیر نے امام حسین (ع) کی شہادت کی خبر سنائی آپ اس دلخراش خبر کو سن کر لرز گئیں اور کہا : اے بشیر تو نے میرے جگر کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا  آپ نے ایک چیخ ماری اور نالہ و شیون کرنے لگیں
مورخین لکھتے ہیں کہ:

جناب ام البنین کی امام حسین (ع) سے بے پناہ عشق و محبت ان کے اعلی ایمان اور آپ کی امامت پر کامل اعتقاد کی مستحکم دلیل ہے یہ کہ آپ نے اپنے چار بیٹوں کو اپنے پیشوا و امام کے نام پر قربان کر دیا۔
حضرت ام البنین (س) تاریخ اسلام کی ان عظیم خواتین میں سے ہیں جن کے چار فرزندوں نے واقعہ کربلا میں اسلام پر اپنی جانیں نچھاور کیں ام البنین یعنی بچوں کی ماں ، آپ کے چار شجاع و بہادر بیٹے عباس، جعفر، عبد اللہ اور عثمان  تھے حضرت علی بن ابی طالب (ع) کے شجاع و بہادر بچے امام حسین (ع) کی نصرت و مدد کرتے ہوئے کربلا میں شہادت کے درجے پر فائز ہو گئے تھے۔
پیغمبر اسلام (ص) کی لاڈلی بیٹی ، حضرت علی (ع) کی شریک حیات حضرت فاطمہ زہرا (س) کی شہادت عظمی کو تقریبا 15 سال کا عرصہ گذر چکا تھا۔ حضرت علی (ع) نے اپنے  بھائی عقیل کو جو خاندان عرب کے حسب ونسب سے بہت زيادہ واقف تھے اپنے پاس بلایا اور ان سے فرمایا کہ آپ ایک بہادر خاندان سے ایک ایسی خاتون تلاش کریں جس سے بہادر بچے پیدا ہوں۔
حضرت علی (ع) جانتے تھے کہ سن 61 ہجری جیسے حساس اور پر آشوب زمانے میں اسلام کے دوام اور قانون و آئین محمدی کے احیاء کے لیے بہت زيادہ ایثار و قربانی کی ضرورت پیش آئے گی خصوصا حضرت علی (ع) اس بات سے بھی با خبر تھے کہ ان کی شہادت کے دو عشروں بعد کربلا کا واقعہ رونما ہو گا لہذا ضرورت تھی کہ ایسے موقع کے لیے ایک ایسا بہادر و جانباز فرزند موجود ہو جو کربلا میں امام حسین کی نصرت و مدد کرے ۔اسی لیے جناب عقیل نے جناب ام البنین کی حضرت علی (ع) سے سفارش کی کیونکہ ان کا خاندان اور قبیلہ ” بنی کلاب ” عرب کے شجاع و بہادر کے نام سےمشہورتھا۔
جناب عقیل نے حضرت ام البنین کے گھرانے کے بارے میں بتایا کہ پورے عرب میں ان کے آباؤ و اجداد سے زيادہ بہادر کوئی نہ تھا علی (ع) نے اس تجویز کو قبول کرلیا اور عقیل کو رشتہ لے کر جناب ام البنین کے والد کے پاس بھیجا ان کے والد اس مبارک رشتے سے بہت زيادہ خوش ہوئے اور فورا ہی اپنی بیٹی کے پاس گئے اور اس سلسلے میں ان کی مرضی معلوم کرنا چاہی، ام البنین نے اس رشتے کو سربلندی و افتخار سمجھ کر قبول کر لیا اور پھر اس طرح جناب ام البنین اور حضرت علی (ع) رشتہ ازدواج سے منسلک ہو گئے حضرت ام البنین عقل و خرد، مستحکم ایمان اور بہترین صفات سے مزین تھیں اسی لیے علی (ع) ان کا بہت زیادہ احترام کرتے تھے اور ان کی حرمت کا پاس و لحاظ رکھتے تھے۔
جناب ام البنین ایک بہادر و شجاع ، مستحکم و راسخ ایمان و ایثار اور فدا کاری کا بہترین پیکر اور بافضیلت خاتون تھیں آپ کی اولادیں بھی نہایت ہی شجاع و بہادر تھیں لیکن ان کے درمیان حضرت عباس (ع) ایک خاص مقام و مرتبہ کے حامل تھے آپ تمام شہداء تاریخ  کے درمیان ستاروں کی طرح چمکتے تھے حضرت ام البنین کی تمام تر کوشش یہ تھی کہ جوانان اہل بہشت امام حسن و حسین اور علی و فاطمہ کی دو بیٹیوں زینب و ام کلثوم کی زندگی میں ماں کی کمی کو پورا کر دیں اور بچے اس کمی کا احساس نہ کر سکیں ۔ حضرت علی (ع) کے تمام فرزند ایسی شفیق و مہربان ماں کے با برکت وجود کے ہوتے ہوئے ماں کے ‏غم کو بہت کم یاد کرتے تھے ۔ کیونکہ حضرت ام البنین پیغمبر اسلام کے بچوں کو جو صاحبان فضيلت و کرم تھے انہیں اپنے بچوں پر ہمیشہ مقدم رکھتی تھیں اور اپنے بچوں سے زیادہ ان سے محبت کرتی تھیں اور اس راہ میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہیں کرتی تھیں آپ رسول خدا (ص) کے بچوں کی حفاظت و محبت کو دینی فریضہ شمار کرتی تھیں ۔چونکہ خداوند عالم نے اپنی معجز نما کتاب قرآن مجید میں تمام لوگوں کو حکم دیا ہے کہ ان سے محبت کریں۔
روایت میں ہے کہ: جس دن حضرت ام البنین رخصت ہو کر حضرت علی (ع) کے بیت الشرف تشریف لائیں اس دن امام حسن و امام حسین (ع) بستر بیماری پر تھے حضرت علی (ع) کی شریک حیات نے جیسے ہی گھر میں قدم رکھا دونوں بچوں کے سراہنے پہنچ گئیں اور مہربان ماں کی طرح ان کی دلجوئی کرنے لگیں جیسا کہ تاریخ کی اہم کتابوں میں آیا ہے کہ:

حضرت ام البنین نے ازدواجی زندگی شروع ہونے کے فورا بعد ہی حضرت علی (ع) سے درخواست کی کہ ہمیں ہمارے اصلی نام فاطمہ کے بجائے ام البنین کے نام سے پکاریں تا کہ دونوں شہزادوں حسن و حسین کو اس نام کی وجہ سے اپنی مادر گرامی فاطمہ زہرا کی یاد نہ آئے اور انہیں یاد کر کے ان کے دل میں اپنی ماں کا غم تازہ نہ ہو۔
آپ حضرت زہرا کے فرزندوں کو بہت زیادہ عزيز رکھتی تھیں اور خود کو ان کی خدمت کے لیے وقف کردیا تھا البتہ رسول خدا (ص) کے فرزندوں کے ساتھ ان کی بے لوث محبتیں اور ان کے بچوں کی ایثار و قربانی امام حسین (ع) کی راہ میں کارگر ثابت ہوئیں اور تاريخ میں آج بھی ان کے ایثار و قربانی کا ذکر موجود ہے ۔ پیغمبر اسلام (ص) کے اہل بیت حضرت ام البنین کا بہت زيادہ احترام کرتے تھے اور ہمیشہ ان کے ایثار و قربانی کا ذکر کرتے تھے ۔ حضرت زینب (س) واقعہ کربلا کے بعد جب مدینہ پہنچیں تو حضرت ام البنین کی خدمت میں تشریف لائیں اور آپ کے چاروں فرزندوں کی المناک شہادت کی تعزیت پیش کی اور جب بھی آپ کو وقت ملتا آپ کی خدمت میں تشریف لاتی تھیں۔
حضرت ام البنین کی ایک خاص صفت یہ تھی کہ آپ زمانے کے حالات پر خاص نظر رکھتی تھیں۔ حضرت ام البنین بنی امیہ کے ظالم و ستمگر حاکموں کی جارحیت کی جنہوں نے امام حسین (ع) اور ان کے باوفا ساتھیوں کو شہید کیا تھا ہمیشہ مذمت کیا کرتی تھیں اور ہمیشہ مجالس عزا منعقد کیا کرتی تھیں تا کہ کربلا کے شہیدوں کا ذکر ہمیشہ زندہ رہے اور ان مجلسوں میں خاندان عصمت و طہارت کی عورتیں شریک ہو کر کربلا کے شہیدوں پر آنسو بہاتی تھیں آپ اپنی تقریروں، مرثیوں اور اشعار کے ذریعے شہیدان کربلا کی مظلومیت کو کائنات کے ہر فرد تک پہنچانا چاہتی تھیں ۔
حضرت علی (ع) کی شریک حیات جناب ام البنین کی عظمت و رفعت مسلمانوں کے درمیان مسلم تھی کیونکہ ہرایک کے ذہن و دماغ میں یہ بات موجود تھی کہ خدا کے نزدیک آپ کی بہت زيادہ عظمت و منزلت ہے آپ نے اپنے جگر گوشوں کو کمال اخلاص کے ساتھ خدا اور اسلام کی راہ میں قربان کیا تھا۔
بالآخر ایثار و قربانی اور کمال اخلاص و ایمان کی دولت سے سرشار عظیم خاتون ام البنین کا سال 70 ہجری میں انتقال ہو گیا، البتہ بعض مورخین نے آپ کی وفات کی تاریخ 13 جمادی الثانی سن 64 ہجری تحریر کیا ہے ۔ آپ کی قبر مبارک جنت البقیع میں حضرت امام حسن (ع) کی قبر کے پاس موجود ہے جو آج  بھی نجدیوں وہابیوں کے ظلم کی داستان چیخ چیخ کر ان کے ظلم و بربریت کا اعلان کر رہی ہے۔

جب بی بی ام البنین کا نام فاطمہ رکھا گیا تو اس وقت فاطمہ نام کی تین خواتین موجود تھیں ۔ حضرت فاطمہ بنت اسد ( والدہ حضرت علی ) ، فاطمہ بنت حمزہ یا فاطمہ بنت ربیعہ، اور حضرت فاطمہ زہرا س دختر رسول۔

علامہ فیروز آبادی نے اپنے قاموس نامی کتاب میں بیس ایسی خوتین صحٓابیہ کا ذکر کیا ہے جن کا نام فاطمہ تھا۔ اس لیے رسول اکرم فخر کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ:” انا بن الفواطم ”

میں فواطم (فاطمہ کی جمع) کا بیٹا ہوں۔

یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ نبی اکرم نے اکثر اپنے شجرہ پر فخرو مباہات کیا ہے۔

جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا۔ اس طرح کا یہ بھی ارشاد ہے کہ:

” انا بن الذبیحین ”

میں دو ذبیحوں کا بیٹا ہوں (ایک ذبیح اللہ حضرت اسماعیل بن حضرت ابراہیم اور دوسرے ذبیح اللہ حضرت عبد اللہ بن عبد المطلب )

اسی طرح ایک اور موقع پر ارشاد فرمایاکہ:

” اناا بن العواتک و الفواطم ”

میں عاتکاؤں ( عاتکہ کی جمع) کا بیٹا ہوں میں فواطم (فاطمہ کی جمع) کا بیتا ہوں۔.

جناب ہاشم کی والدہ کا نام عاتکہ تھا، جناب وہب کی والدہ کا نام عاتکہ تھا، جناب عبد المناف کی والدہ کا نام عاتکہ تھا ، اسی طرح رسول اکرم کی دادی( یعنی حضرت عبد اللہ و ابو طالب کی والدہ ) کا نام فاطمہ تھا، جناب قصئی کی والدہ کا نام فاطمہ تھا، جناب آمنہ کی والدہ کا نام تاریخ کی کتابوں میں فاطمہ لکھا گیا، جناب حمزہ کی بیٹی کا نام فاطمہ تھا، رسول اکرم نے اپنی بیٹی کا نام فاطمہ رکھا، حضرت علی کی والدہ کا نام فاطمہ تھا ، امام حسن و حسین نے اپنی بیٹیوں کے نام فاطمہ رکھے تھے، اور بعد تک ہر امام نے اپنی بیٹی کا نام فاطمہ رکھا۔ ماؤں کی طرف سے ہو یا باپ کی طرف سے تمام عرب میں آپ کے شجرے سے اعلی شجرہ کوئی نہیں ہے اسی لیے آپ نے فرمایا کہ:

” کل حسب و نسب ینقطع فی القیامہ الاّ حسبیِ و نسبی ”

ہر حسب و نسب قیامت میں منقطع ہو جائے گا سوائے میرے حسب و نسب کے۔

حسب و نسب کی یہ بلندی نہ کسی گھرانے نے پائی اور نہ خداوند نے کسی کو عطا کی ہے ۔ صرف رسول اکرم کی نسبت اور نسب کا یہ احترام اور عظمت ہے ۔

آپ کی کنیت ام البنین تھی آپ اپنی اس کنیت سے اسقدر مشہور ہوئیں کہ اکثر مورخین نے اسی کنیت کو اصل نام لکھا ہے،

تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ عربوں میں ام البنین کی کنیت سے بہت سی عورتیں مشہور تھیں ۔ اصل میں عربوں کے درمیان رواج تھا کہ جس عورت کے بطن سے تین فرزند پیدا ہوتے تھے تو اس عورت کو ام البنین کی کنیت سے پکارتے تھے۔ ایام جاہلیت اور اسلام کے بعد بھی عربوں میں یہی رسم و رواج رہا۔

بعض عرب نیک شگونی کے طور پر بچی کو بچپنے سے ہی ام البنین کی کنیت سے اس لیے پکارتے تھے کہ اس امید سے کہ کسی دن یہی بچی صاحب اولاد ہو گی۔ اسی طرح ام الخیر اور ام المکارمہ کی کنیت رکھتے تھے تا کہ خیر و برکت اور اچھے اخلاق کی مالک بنے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ مرد اور خواتین کے اصل نام سے ان کی کنیت غالب آگئی جیسے ام ایمن، ام سلمہ، ام کلثوم، ابو الحسن وغیرہ

آپ وحید بن کعب اور کلاب بن ربیعہ کے خاندان سے تھیں جو عرب میں ایک بہادر خاندان مانا جاتا تھا۔ اکثر سنی و شیعہ مؤرخین نے لکھا کہ ایک روز حضرت علی (ع) نے اپنے بھائی حضرت عقیل کو جو عرب کے علم الانسابمیں سب سے ماہر تھے بلایا اور آپ نے ان سے فرمایا کے بھائی میرے لیے ایک ایسی زوجہ انتخاب کریں جس سے ایک بہادر اور جری فرزند پیدا ہو، حضرت عقیل نے جناب حزام جو کہ ایک انتہائی  شجاع انسان تھے کی  بیٹی حضرت ام البنین کا نام پیش کیا ، اور کہا کہ تمام عرب میں کوئی شخص ان کے باپ اور دادا سے زیادہ شجاع اور دلیر نہیں ہے۔

الاصابہ ج1 ص 375

حضرت بی بی فاطمہ ام البنین کی والدہ ماجدہ ثمامہ خاتون بنت سہیل بن عامر تھیں۔ ثمامہ خاتوں کو صحابیات رسول اکرم ہونے کا شرف حاصل ہے آپ کا شمار عرب کی صاحب دانش خواتین میں ہوتا تھا آپ ادیبہ اور بھی زیرک و دانا خاتون تھیں۔ حضرت جناب ام البنین کو آداب دین و شریعت آپ نے ہی تعلیم کئے تھے اور تربیت دی تھی اس کے علاوہ ثمامہ خاتوں نے اپنی بیٹی کو تمام اخلاق پسندیدہ اور آداب حمیدہ بھی تعلیم کئے۔ حضرت ام البنین کی نانی کے بھائی عامر بن طفیل تھے جو گھمسان کی لڑائیوں میں عرب کے بہادر شہسواروں میں نظر آتے تھے۔ آپ کا نام سن کر عرب و غیر عرب کانپنا شروع کر دیتے تھے۔ آپ اشجع عرب کے لقب سے مشہور تھے۔ یہ عالم تھا کہ جب بھی قیصر روم کے پاس کوئی عرب سے جاتا تو وہ پوچھا کرتا کہ تمھارا عامر سے کیا رشتہ ہے۔ اگر کوئی رشتہ نکل آتا تو اسے بے حد عزت و احترام حاصل ہوتا تھا۔

آپ ہی کے خاندان کے ایک شخص عامر بن مالک کو ” نیزوں سے کھیلنے والا ” کا لقب ملا ہوا تھا آپ کے والد محترم کا نام حزام تھا اور حزام کے معنی لغت میں “چوڑے سینے والا ” ہے۔

مصباح اللغات ص 150

تاریخ کی کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ جناب بی بی فاطمہ ام البنین حسب و نسب اور طہارت و عفت اور خاندانی صفات کے لحاظ سے اپنوں کے درمیان منفرد حیثت رکھتیں تھی۔

بی بی ام البنین کے کئی اور بھی القابات ہیں کہ جن میں مشہور القابات باب الحوائج ، ام الشہداء اربعہ مشہور ہے۔ آپ کے بطن مبارک سے چار فرزند پیدا ہوئے اور یہ چاروں کربلا میں اپنے امام وقت، مظلوم کربلا، حضرت امام حسین (ع) کی نصرت کرتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔

اعیان الشیعہ، آغا بزرگ تہرانی

حضرت عباس علمدار، جن کی روز ولادت 4 شعبان22 ہجری ہے اور اس حساب سے آپ کی عمر روز عاشورہ 38 سال بنتی ہے، حضرت عبد اللہ واقعہ کربلا کے وقت ان کی عمر 30 سال تھی، حضرت عمران اور کربلا کے واقعے کے دوران ان کی عمر 28 سال تھی، حضرت جعفر اور ان کی عمر شہادت کے وقت 26 سال تھی۔

حضرت ام البنین (ع) کی زیارت کا ایک حصہ:

السلام علیک یا زوجة ولی اللہ ، السلام علیک یا زوجة امیر المؤمنین، السلام علیک یا ام البنین ، السلام علیک یا ام العباس ابن امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام ، رضی اللہ تعالی عنک و جعل منزلک و ماواکِ  الجنہ و رحمتہ اللہ و برکاتہ، لا حول و لا قوة الا بالله العلی العظيم و صلی الله علی محمد و آله الطاهرين……

Short URL : https://saqlain.org/so/wxzt
saqlain

Recent Posts

8) کیا امام حسین کی عزاداری بدعت ہے؟

بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر…

4 weeks ago

6) کیا امام حسین کی عزاداری بدعت ہے؟

بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…

1 month ago

5) کیا امام حسین کی عزاداری بدعت ہے؟

بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…

1 month ago

4) کیا امام حسین کی عزاداری بدعت ہے؟

بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…

1 month ago

3) کیا امام حسین کی عزاداری بدعت ہے؟

دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…

1 month ago

2) کیا امام حسین کی عزاداری بدعت ہے؟

مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…

1 month ago