اہل تسنّن کے بعض خطباء اس بات کو فخریہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے امام ابوحنیفہ نعمان بن ابی شبرمہ, امام جعفر صادقؑ کے شاگرد رہے ہیں۔ اس بابت ابوحنیفہ سے یہ جملہ منسوب کیا جاتا ہے کہ انھوں نے کہا ہے: “لولا السّنتان لھلک النعمان- اگر وہ دو سال نہ ہوتے (جن میں میں نے امام جعفر صادقؑ کی شاگردی کی) تو نعمان ہلاک ہوجاتا۔”
(مختصر التحفة الاثنا عشرية: ٩)۔
حالانکہ سنّیوں میں موجود دشمنئ اہلبیتؑ رکھنے والے علماء اس بات کو قبول نہیں کرتے ہیں۔ مثلًا وہابیوں کے سربراہ ابن تیمیہ نے اپنی ناصبیت کی بناپر اس بات کو قبول نہیں کیا ہے۔ بہر حال اہل تسنّن کے بعض مورخین کا ماننا ہے کہ اس جملے میں جو لفظِ ‘سنتان’ یعنی دو سال استعمال ہوا ہے وہ زید بن علیؑ کی شاگردی کا دور ہے نہ کہ امام باقرؑ یاامام صادقؑ کی شاگردی کا۔ اس ضمن میں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ عربی عبارت کا یہ لفظ ‘سٙنتٙان’ غلط پڑھا جاتا ہے در حقیقت یہ لفظ ‘سُنّٙتٙان’ ہے جس سے مراد دو سنتیں لی جاتی ہیں ایک سنّت رسولؑ اور دوسری سنّتِ صحابہ، یعنی ابوحنیفہ کہہ رہے ہیں کہ اگر یہ دو سُنتیں نہ ہوتیں تو نعمان اجتہاد نہ کرپاتا۔
اس مضمون میں اس جملے کی حقیقت پر گفتگو کرنا ہمارا مقصد نہیں ہے۔ ہمارا مقصد صرف یہی ہے کہ اس سوال کا جواب دیا جائے کہ کیا واقعًا سنّیوں کے امام اعظم ابوحنیفہ نے امام جعفر صادق (ع) کی شاگردی کے اصول کی پاس داری کی تھی؟ کیا انھوں نے امامؑ کی نصیحتوں کو قبول کیا تھا؟ یہ تو ابوحنیفہ کی خوش نصیبی ہے کہ ان کو امام جعفر صادقؑ کا سنہرا دور ملا جس میں پوری امت امام صادقؑ سے فیضیاب ہو رہی تھی مگر افسوس بجائے امام صادقؑ کے علم سے کسب فیض کرنے کے ابوحنیفہ نے خود اپنی الگ دکان کھول لی۔ بجائے یہ کہ وہ ‘حدیث ثقلین’ پر عمل کرتے ہوئے علوم اہلبیتؑ کے سمندر سے سیراب ہوتے، انھوں نے اپنا ایک الگ مکتب شروع کردیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ امت مسلمہ حقیقی دین سے مکمل طور پر دور جا پڑی۔ اگر ابوحنیفہ جیسے افراد خاموش رہتے اور اپنے گھروں میں بیٹھے رہتے تو امت علوم اہلبیتؑ تک پہنچ جاتی۔
اس حقیقت کو خود امام جعفر صادقؑ کے اس جملے سے سمجھا جاسکتا ہے جو آپؑ نے ابوحنیفہ جیسے لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے۔
کتاب ‘اصول کافی’ میں ایک روایت نقل ہوئ ہے جس میں امام جعفر صادق (ع) کے ایک معروف صحابی جن کا نام سدیر ہے، نقل کرتے ہیں کہ میں امام جعفر صادق (ع) کے ہمراہ مسجد نبوی میں موجود تھا کہ حضرت نے ارشاد فرمایا:” قرآن کی آیت میں جو ارشاد ہورہا ہے – ‘یقینًا میں (اللہ) بہت معاف کرنے والا ہوں۔ ہر توبہ کرنے والے، با ایمان، نیک عمل کرنے والے کو بخش دیتا ہوں، پھر اس کی ہدایت کرتا ہوں'”۔ (طٰہٰ:٨٢)
امامؑ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: “اللہ اس شخص کی ہدایت ہماری ولایت کی طرف کرتا ہے”۔
امامؑ نے مزید فرمایا: “اے سدیر! کیا تم ان لوگوں کو دیکھنا چاہتے ہو جو دین خدا کے رہزن ہیں (جو حیران و پریشان مسلمانوں کا شکار کرتے ہیں)؟؟” پھر آپؑ نے ابو حنیفہ اور سفیان ثوری کی طرف اشارہ کیا جو وہاں مسجد میں چکّر لگا رہے تھے۔ امامؑ نے فرمایا: یہی وہ لوگ ہیں جو دینِ خدا کے رہزن ہیں۔ نہ ان کو اللہ نے ہدایت دی ہے نہ ہی کتاب خدا سے ان کو ہدایت ملی ہے (اس کے باوجود یہ لوگ دوسروں کو دین سکھاتے ہیں)۔ یقینًا یہ لوگ خبیث ترین افراد ہیں۔ اگر یہ لوگ اپنے گھروں ہی میں بیٹھے رہتے اور لوگوں کو اپنی طرف مائل نہ کرتے تو امت، دین خدا اور سنّتِ رسولؐ کی تعلیمات کے لیے ہمارے پاس آتی اور ہم ان کو اللہ اور رسولؐ کے دین کی حقیقی تعلیم دیتے۔
(کافی ج ١ ص ٣٩٣)
اس روایت سے یہ بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ امام جعفر صادقؑ، ابو حنیفہ اور سفیان ثوری جیسے افراد کے بارے میں کیا رائے رکھتے تھے کیونکہ ان لوگوں کے پاس نہ تو دین خدا کا صحیح علم تھا اور نہ ہی قرآنِ مجید کی آیتوں کو سمجھنے کی صلاحیت اس کے باوجود وہ لوگوں کو دین کی تعلیم دیتے رہے۔ یہی حال اہل تسنّن کی دوسری فقہوں کے اماموں کا رہا کہ انھوں نے شریعت میں اپنی رائے سے فیصلے دیے جبکہ قرآن کا حکم ہے کہ ‘من لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الظالمون'(۵:۴۵): یعنی جو کچھ اللہ نے نازل کیا ہے اگر اس سے ہٹ کر کوئ فیصلہ کرتا ہے تو وہ ظالموں میں شمار ہوتا ہے۔’
یہاں پر امیرکائنات حضرت علیؑ ابن ابی طالبؑ کا یہ قول نقل کرنا مناسب ہوگا کہ آپؑ نے فرمایا: “لو سكت الجاهل ما اختلف الناس” “اگر جاہل خاموش رہے تو لوگوں میں کبھی اختلاف نہ ہو”
(كشف الغمة: ٣ / ١٣٩، بحار الأنوار: ٧٨ / ٨١ / ٧٥؛ الفصول المهمة: ٢٧١)
ابوحنیفہ کے بارے میں ایک روایت اہل تسنّن حوالے سے بھی پیش کیے دیتے ہیں تاکہ واضح ہوجائے کہ امام جعفر صادقؑ ابوحنیفہ کے بارے میں ایسی رائے کیوں رکھتے تھے؟؟
ابوحنیفہ بن ابی شبرمہ و ابن ابی لیلی ، امام جعفر صادق (ع) کی خدمت میں پہنچے ، امام صادق (ع) نے ابن ابی لیلی سے فرمایا : یہ تمھارے ساتھ کون ہے ؟ اس نے عرض کی : یہ ایسا شخص ہے جو صاحب بصیرت اور دین میں فہم رکھتا ہے ۔ امام (ع) نے فرمایا : گویا یہ شخص دین کے امور میں اپنی رائے سے قیاس کرتا ہے؟ اس نے کہا : جی ہاں۔ امام (ع) نے ابوحنیفہ سے فرمایا : تمھارا کیا نام ہے؟ اس نے کہا : نعمان ۔ امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا : میں دیکھ رہاہوں کہ تم کسی بھی چیز کو اچھی طرح نہیں جانتے؟ اس کے بعد امام (علیہ السلام) نے کچھ مسائل بیان کرنے شروع کئے جن کا ابوحنیفہ کے پاس کوئی جواب نہیں تھا ۔
امام نے فرمایا : اے نعمان ! میرے والد نے میرے جد امجد سے حدیث نقل کی ہے کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا : سب سے پہلے جس شخص نے دین میں اپنی رائے سے قیاس کیا وہ ابلیس تھا ، خداوند عالم نے اس سے فرمایا : آدم کو سجدہ کرو ۔
اس نے جواب میں کہا : “انا خیر منہ خلقتنی من نار و خلقتہ من طین-” ۔ “میں اس سے بہتر ہوں ، کیونکہ تو نے مجھے آگ سے پیدا کیا ہے اور اس کو مٹی سے” ۔(سوره اعراف: 12 )
پس جو شخص بھی دین میں اپنی رائے سے قیاس کرے گا، اس کو خداوند عالم قیامت کے روز ابلیس کے ساتھ محشور کرے گا کیونکہ اس نے قیاس میں ابلیس کی پیروی کی ہے۔
ابن شبرمہ کہتا ہے : پھر امام (علیہ السلام) نے ابوحنیفہ سے سوال کیا : ان دو چیزوں میں زیادہ بڑا گناہ کون سا ہے : انسان کو قتل کرنا ، یا زنا کرنا ؟ ابوحنیفہ نے کہا : انسان کو قتل کرنا ۔ امامؑ نے فرمایا : پھر خداوندعالم نے انسان کو قتل کرنے میں دو گواہوں کو کافی کیوں سمجھا جبکہ زنا کے شواہد میں چار گواہوں کو ضروری سمجھا ہے ؟
ابو حنیفہ کے پاس اس کا کوئ جواب نہیں تھا۔
پھر امامؑ نےفرمایا : نماز زیادہ عظیم ہے یا روزہ؟
ابوحنیفہ نے کہا : نماز ۔ امامؑ نے فرمایا : پھر کیا وجہ ہے کہ حائض عورت اپنے روزوں کی قضا کرتی ہے لیکن نماز کی قضا نہیں کرتی؟
ابو حنیفہ کے پاس اس کا بھی کوئ جواب نہیں تھا۔
حضرتؑ نے اس سے کہا: وائے ہو تجھ پر ! تیرا قیاس کس طرح حکم کرتا ہے ؟ خدا سے ڈر اور دین میں اپنی رائے سے قیاس مت کر۔
اہل تسنّن حوالے :
• الطبقات الکبرى، شعرانى، ج 1، ص 28 ;
• حلیة الاولیاء، ج 3، ص 193
مگر افسوس ابو حنیفہ نے امامؑ کی نصیحت کو قبول نہیں کیا۔ اسی لیے نہ صرف یہ کہ فقہ حنفی میں بلکہ تمام سنّی فقہوں میں ایسے مسائل پائے جاتے ہیں جو قرآن و سنّت کے مخالف ہیں ۔اگر کل لوگوں کو در اہل بیت ع تک آنے سے روکا نہ گیا ہوتا تو آج امت مسلمہ کی کچھ اور ہی شان ہوتی۔
بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر…
بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…
بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…
بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…
دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…
مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…
View Comments
بالکل نئی تحقیق آپ نے share کی ہے۔ بہت سے مومنین اور محققین کے لیے ایک اچھا موضوع ثابت ہوگا۔
جزاک اللہ۔
اللہم صل علیٰ محمدؐ و آلِؑ محمدؐ۔