اہل تسنّن میں جہاں بہت سے افراد اہلبیتؑ رسولؐ سے محبت رکھنے والے افراد ہیں وہیں بعض وہابی فکر رکھنے والے ناصبی بھی موجود ہیں۔ یہ بدعقیدہ لوگ مسلمانوں کو بدعتی بتاتے ہیں اور مسلماتِ دین میں شک پیدا کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ عيد غدیر بهی ہمیشہ سے ان کی تنقید کا ہدف رہی ہے ۔ ان کا الزام ہے کہ ‘عید غدیر’ شیعوں کی ایجاد ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ (یاد رہے کہ ان وہابیوں کو عید میلاد النبیؐ پر بھی اعتراض ہے۔) بزرگ اہل تسنّن علماء بھی غدیر کو عید مانتے ہیں مثلاً بُزرگ عالمِ امام غزالی اس بات کے قائل رہے ہیں کہ ١٨ ذی الحجہ کی تاریخ کو اسلام میں خاص فضیلت حاصل ہے۔ سنہ دس ہجری میں اسی دن رسول اسلام (ص) نے حضرت علیؑ ابن ابی طالبؑ کی ولایت کا اعلان کیا تھا۔ اسی دن خدا کی طرف سے آیت ‘اکملت’ نازل ہوئ تھی جس نے دین کے کامل ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ نے مسلمانوں کے دین سے راضی ہونے کا بھی اعلان کیا ہے۔ (مائدہ:٣) اہل تسنّن کی کتابوں میں بھی یہ بات درج ہے کہ اس روز کو خود پیغمبر اکرم (ص) نے بابرکت بتلایا ہے انھوں نے اس دن شکرانے کا روزہ رکھنے کی فضیلت کو بھی بیان کیا ہے۔ شیعہ مفسرین کی طرح بعض بزرگ سنّی مفسرینِ قرآن بھی اس بات کے قائل ہیں کہ بروز غدیر آیہ ‘اکملت’ نازل ہوئ تھی۔ اہل تسنّن عالم ابن طلحہ نے اپنی تالیف ‘مطالب السؤول’ میں اس دن کے عید ہونے کا ایک سبب اس طرح بیان کیا ہے: ‘یہ دن اس لیے عید قرار پایا ہے کہ رسول خدا (ص) نے حضرت علیؑ کو ولایت کے مرتبہ عظمیٰ پر فائزفرمایا ہے۔ اور اس طرح آپؑ کو تمام خلائق پر برتری اور فضیلت عطا کی ہے۔ (مطالب السئوول ص ۵٣)
یہ ایک دستور ہے کہ جس دن بادشاہ تخت شاہی پر جلوہ افروز ہوتا ہے اس دن کومملکت میں مسرت و شادمانی کا دن قرار دیا جاتا ہے۔ اس دن چراغاں ہوتا ہے، جشن منایا جاتا ہے، بزم مسرت سجائ جاتی ہے۔ خطباء، ادباء، شعراء قصائد کے انبار لگا دیتے ہیں۔ غدیر کا دن خلیفہ رسولؐ کی تاج پوشی کا دن ہے۔ اسی لیے رسول خدا (ص) نے حاضرین کو حکم دیا کہ امیرالمومنینؑ کو ولایت کبریٰ کے منصب پر فائز ہونے پر مبارک باد پیش کریں۔ یہی سبب ہے کہ شیعہ ١٨ ذی الحجہ کے روز کو بطورِعید مناتے ہیں۔ اختصار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اس ضمن میں اہل تسنّن کی کتاب سے ہم صرف دو روایات پیش کر رہے ہیں جن سے یہ واضح ہوجائے گا کہ بزرگ علماء نے رسول اللہ (ص) کی پیروی کرتے ہوئے روز غدیر کو عید قرار دیا ہے۔
اہل تسنّن عالم خطیب بغدادی اپنی کتاب مدینة السلام کی جلد ٩ کی حدیث نمبر ۴٣۴۵ کو مشہور صحابی ابو ہریرہ سے اس طرح نقل کرتے ہیں کہ آنحضرتؐ نے فرمایا:” جو شخص ١٨ ذی الحجہ کو روزہ رکھے گا اس کو ٦٠ ماہ روزہ رکھنے کا ثواب ملے گا۔” ابوہریرہ مزید کہتے ہیں چونکہ یہ دن غدیرِ خم کا دن ہے، جس دن رسول اللہ (ص) نے علیؑ کا ہاتھ بلند کیا اور فرمایا “من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ’ یعنی جس کا میں مولا ہوں یہ علیؑ بھی اس کے مولا ہیں۔ اس کے بعد عمر بن خطاب نے علی کو مبارک باد پیش کی اور اس کے بعد آیت اکملت لکم.. کا نزول ہوا۔ اس طرح علیؑ ابن ابی طالبؑ کی اعلانِ ولایت کے ساتھ ہی دین کامل ہوا اور اس دن کو یہ فضیلت بھی حاصل ہوئ۔”
(تاریخ مدینۃ السلام ج 9 روایت نمبر 4345)
اس روایت میں روز غدیر کے متبرک ہونے کا ذکر ہے کیونکہ اس دن کا روزہ ساٹھ ماہ کے روزے کا ثواب رکھتا ہے۔ روایت میں اس دن کے شرف کا سبب بھی بیان کیا گیا ہے کہ اسی دن حضرت علیؑ کے لیے اعلان ولایت کیا گیا جس کے ساتھ دین کامل ہوا۔ پھر یہ بھی ذکر ہے کہ تمام صحابہ کے ساتھ ساتھ عمر بن خطاب نے بھی حضرت علیؑ کو مبارک باد پیش کی۔ اس پورے واقعے کی تاریخی اہمیت کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ غدیر کے دن کو عید کی طرح منایا جائے۔ ہماری اس بات سے اہل تسنّن کے بعض بزرگ علماء بھی اتفاق رکھتے ہیں۔ بزرگ جلیل القدر عالم امام غزالی اپنی کتاب “سرالعالمین” کے صفحہ دس کے باب “ترتیب الخلافۃ والمملکۃ” میں لکھتے ہیں کہ “واجمع الجماھیر علیٰ متن الحدیث من خطبتہ فی یوم عید غدیر خم”۔ یعنی اہل سنّت کے جمہور کا اس حدیث غدیر کے متن پر اجماع ہے جو کہ اس خطبہ کا حصّہ ہے جسے حضور اکرم (ص) نے “عید غدیر” کے دن ارشاد فرمایا تھا۔ غور طلب ہے کہ امام غزالی غدیر کے دن کو “عید غدیر” لکھ رہے ہیں۔
وہ آگے لکھتے ہیں” باتفاق الجمیع وھو یقول: من کنت مولاہ فعلی مولاہ” یعنی اس بات پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا “جس کا میں مولا ہوں اس کے علیؑ بھی مولا ہیں”۔
پھر امام غزالی نے یہ نقل کیا ہے کہ حضرت علیؑ کے خلیفہ بننے پر عمر بن خطاب نے حضرت علیؑ کو ان الفاظ میں تہنیت پیش کی فقال عمر: “بخ بخ لک یا ابا الحسن اصبحت مولی کل مومن” یعنی ” مبارک ہو اے ابو الحسن (علیؑ) آج تم تمام مومنوں کے مولا بن گئے ہو۔”۔ (صرف عمر ہی نہیں بلکہ وہاں موجود متعدد اصحاب نے حضرت علیؑ کو مولا بننے پر مبارک باد پیش کی تھی۔)
امام غزالی مزید فرماتے ہیں :”فھذا تسلیم ورضی وتحکیم ،ثم بعد ھذا غلب الھویٰ لحبّ الریاسۃ” اس جملہ سے ثابت ہوتا ہے کہ عمر نے علیؑ کی خلافت کو اس دن تسلیم کرلیا تھا اور اس سے راضی ہوگئے تھے۔
بعد میں عمر کے نفس پر حکومت اور ریاست طلبی نے غلبہ پالیا اور انھوں نے علیؑ سے خلافت چھین لی۔”
مختصر یہ کہ ان بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اہل تسنّن کے بزرگ علماء اس بات کو جانتے ہیں کہ غدیر کا دن عید کا دن ہے۔ بھلے ہی وہ اپنے مریدوں سے اس حقیقت کو چھپائیں مگر وہ جانتے ہیں کہ یہ عید کسی کی ایجاد نہیں بلکہ خود سرورِ کائنات (ص) کا فرمان ہے.
بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر…
بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…
بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…
بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…
دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…
مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…
View Comments
یا علی علیہ الصلوۃ والسلام مدد حق حیدری