اہل تسنن ،حضرت علیؑ کوخلفاۓ راشدین کی ترتیب کے حساب سے چوتھے مقام پر رکھتے ہیں جبکہ شیعوں کا ماننا الگ ہے۔ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت علیؑ نبی نہیں ہیں مگر نبئ کریمؐ کی طرح تمام انبیاء سے افضل و برتر ہیں۔ اس کا سیدھا سا مطلب یہ ہو جاتا ہے کہ شیعوں کے یہاں بعد از سرور کائناتؐ حضرت علیؑ بلا تفریق تمام اصحاب اور خلفاء سے بھی افضل ہیں۔ شائد یہی بات اہل تسنن علماء کو کھٹکتی ہے۔ اس لیے وہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ شیعہ اہلبیتؑ کی محبت میں ‘غلو’ کرتے ہیں یعنی ان کے مقام و منزلت کو حد سے زیادہ بڑھا دیتے ہیں۔ شیعوں کے نزدیک مخلوقات میں ترتیب فضیلت اس طرح ہے: سب سے افضل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ان کے بعد مولا علیؑ اور اہلبیتؑ نبیؐ ان کے بعد انبیائے کرام وغیرہ جبکہ اہل تسنن کے یہاں یہ ترتیب اس طرح ہے: سب سے افضل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر انبیائے کرام اس کے بعد خلفائے راشدین (ان میں ترتیب دور خلافت کے اعتبار سے مولا علیؑ کا نمبر سب سے آخر میں ہے) وغیرہ۔ اہل تشیع چونکہ خلافت راشدہ کے قائل نہیں ہیں اس لیے وہ خلفاء کی الگ سے کسی فضیلت کے قائل نہیں ہیں۔ شائد یہی بات اہل تسنن کو ناگوار گزرتی ہے۔

اس بات پر تمام اہل اسلام کا اتفاق ہے بلکہ مسلمانوں کا یہ بنیادی عقیدہ ہے کہ آنحضرتؐ تمام مخلوقات سے افضل ہیں۔اس وجہ سے یہ ثابت کرنا کہ مولا علیؑ بھی تمام مخلوقات پر فضیلت رکھتے ہیں کوئ دشوار مسئلہ نہیں ہے۔ اس ضمن میں صرف اتنا ثابت کرنا کافی ہے کہ حضرت علیؑ بنصِّ قرآن اور بہ احادیث نبویؐ نفسِ رسولؐ ہیں۔ اس کے بعد ہر حق شناس اور غیر متعصب شخص خود بہ خود یہ نتیجہ اخذ کر سکتا ہے کہ مولا علیؑ کو بھی تمام تمام انبیاء پر اسی طرح افضلیت حاصل ہے، جس طرح رسولؐ اللہ کو حاصل ہے۔

پہلی قرآنی دلیل : آیئہ مباہلہ یعنی سورہ آلِ عمران کی آیت نمبر ٦١ میں لفظ ‘انفسنا’ یعنی ‘نفسِ رسولؐ’ سے مراد حضرت علی ابن ابی طالب (ع) کی ذات ہے۔

فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنفُسَنَا وَأَنفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَل لَّعْنَتَ اللَّـهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ”، [سورۂ آل عمران؛ 61]
“اے پیغمبر! علم آجانے کے بعد جو لوگ آپؐ سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آؤ ہم لوگ اپنے اپنے فرزندوں, اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں”۔

تمام شیعہ مفسیرین اور اکثر اہل تسنن مفسرین نے اس بات کو قبول کیا ہے کہ اس آیت میں ‘نفسِ رسولؐ’ حضرت علیؑ ہیں۔ اتنا ہی نہیں اہل تسنن کے تاریخ نویسوں اور محقق علماء نے اپنی اپنی کتابوں میں اس بات کو نقل بھی کیا ہے کہ حضرت علی (علیہ السلام) ہی “نفسِ پیغمبرؐ” ہیں۔

اپنی بات کو ثابت کرنے کے لیے ہم یہاں پر ایک روایت بطور نمونہ نقل کر رہے ہیں۔ اہل تسنن کے ایک بڑے عالم امام احمد ابن حنبل اپنی مسند میں روایت کرتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ سلم) نے حضرت علی علیہ السلام، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اور حضرات حسنین- امام حسن علیہ السلام اور امام حسین علیہ السلام کو بلایا اور فرمایا “اے پروردگار!! یہ میرے اہل بیت ہیں”
(مسند احمد جلد۱ صفحہ ۱۸۵۔)

اسی بات کو دیگر اہل تسنن علماء نے اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے۔ زمخشری نے اپنی تفسیر ‘الکشاف’ میں، فخررازی نے تفسیر ‘الکبیر’ میں اور بیضاوی نے تفسیر ‘انوار التنزیل و اسرار التأویل’ میں سورہ آل عمران، آیت 61 کے ذیل میں رقم کیا ہے کہ اس آیت میں ‘ابناءنا’ (ہمارے بیٹوں) سے مراد حسن و حسین(ع) ہیں، اور ‘نساءنا’ (ہماری عورتوں) سے مراد فاطمه زهرا (س) ہیں اور ‘انفسنا’ (ہمارے نفس) سے مراد حضرت علی(ع) ہیں۔

ان دلائل کے بعد یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ بنصِّ قرآن حضرت علیؑ کی ذات، نفسِ رسولؐ ہے۔ یہ واحد تاریخی مثال نہیں ہے کہ جب سرورِ عالم نے اپنے چچازاد بھائ کو اپنے جیسا بتلایا ہو یا یہ کہ حکم خدا کی تکمیل میں مولا علیؑ کو اپنے نفس ہونے کا اظہار کیا ہو۔ ایک اور مشہور و معروف تاریخی واقعہ (سورہ ‘براءت’ کی تبلیغ) میں بھی یہ بات بخوبی ظاہر ہوجاتی ہے۔

آیات برائت کی تبلیغ کا واقعہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر کو سورہ برائت کی آیات کے ابلاغ کے لئے مشرکین مکہ کی طرف بھیجا،اس موقع پر جناب جبرئیل، اللہ تعالی کی طرف سے پیغام لے کر آئے کہ “لایُؤَدّی عَنْکَ اِلّا اَنْتَ اَوْ رَجُلٌ مِنْکَ”یہ آیات یا بذات خود پیغمبرؐ اکرم یا اس شخص کے ذریعے پہنچائ جانی چاہیے جو آنحضرتؐ سے ہو۔ چنانچہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (علیہ السلام) کو ان آیات کے ابلاغ کے لئے بھیجا.
(مسند احمد ابن حنبل ج2 ص427, مغازی واقدی ج3 ص1077)

اس واقعہ کی تفصیلات کو تاریخ کی کتابوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس واقعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حکم خدا کی پیروی کرنے کے لیے رسولؐ اللہ نے جس شخص کو بلایا وہ ان میں سے نہ تھا اور جس کو روانہ کیا وہی ان میں سے تھا۔ یعنی ‘رٙجُلُ مِنْکٙ’ کا اطلاق حضرت علیؑ پر ہو رہا تھا، ابوبکر پر نہیں۔

ایک اور واقعہ اسی طرح کا ملتا ہے جس میں حضرت ختمیؐ مرتبت نے خود حضرت علیؑ کو اپنے جیسا ہونے کا اعلان کیا ہے۔
احمد بن حنبل نے مطَّلب بن عبد الله سے نقل کیا ہے کہ جب قوم ثقیف کا ایک وفد رسول اللہ (ص) کے پاس آیا اور کٹ ہجتی کرنے لگا تو آنحضرتؐ نے ان سے فرمایا: ” تم لوگ اسلام قبول کرلو ورنہ میں ایسے ایک مرد کو تمھاری طرف بھیجوں گا جو مجھ سے ہے ، یا آپؐ نے فرمایا: مجھ جیسا ہے، تو وہ تمھاری گردنیں اڑا دے گا اور تمھارے گھروالوں کو قیدی بنالے گا اور تمھارا مال لے لے گا”، تو عمر کا کہنا ہے کہ اللہ کی قسم! میں نے ہرگز حکومت کی آرزو نہیں کی، مگر اس دن۔ میں نے اپنا سینہ تان لیا اس امید سے کہ پیغمبرؐ کہیں کہ وہ مرد یہ ہے، راوی کہتا ہے: پھر آنحضرت علی (ع) کی طرف متوجہ ہوئے تو آنحضرت نے علی (ع) کا ہاتھ پکڑا، اس کے بعد فرمایا: وہ مرد یہ ہے، وہ مرد یہ ہے”
(فضائل الصحابة، أحمد بن حنبل، ج 2 ص 593۔)

اس روایت سے اس بات کا انکشاف بھی ہوتا ہے کہ رسولؐ جیسا ہونے کی فضیلت صرف مولا علیؑ کو ہی حاصل تھی نہ ابوبکر کو نہ ہی عمر کو۔ اس طرح آنحضرتؐ نے لوگوں پر اس بات کو اعلانیہ طور پر ظاہر کر دیا تھا کہ امت میں حضرت علیؑ کا مقام خود ان ہی کی طرح ہے اور اس فضیلت میں کوئ ان کا شریک نہیں ہے۔

یوں تو دلائل اور بھی موجود ہیں مگر اختصار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوے گفتگو کے آخر میں اس معروف اور معتبر حدیث کو نقل کرتے ہیں جو حضرت علیؑ کی انبیاء پر فضیلت کو بخوبی ثابت کر دیتی ہے۔

آنحضرتؐ کے بزرگ صحابی جناب سلمانؓ فارسی (محمدی) روایت کرتے ہیں کہ میرے حبیب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا (جب کچھ نہ تھا) بارگاہ احدیّت میں، میںؐ اور علیؑ ایک ہی نور تھے۔ آدمؑ کی خلقت سے چالیس ہزار سال قبل یہ نور اللہ کی تسبیح و تقدیس کر رہا تھا۔ جب آدمؑ خلق ہوئے تو اس نور کو ان کے صلب میں رکھ دیا گیا۔ ہم دونوں (نور کی شکل میں) ساتھ ہی رہے یہاں تک کہ یہ نور صلب عبد المطلب میں منتقل ہوا۔ پھر اس نور کے دو ٹکڑے ہوے، مجھ کو نبوّت ملی اور علیؑ کو امامت۔”
(ينابيع المودة / 1 / 47 ، لسان الميزان / 2 / 229، الفردوس بمأثور الخطاب / 3 / 283 ،ميزان الاعتدال / 2 /258 ،مناقب أميرالمؤمنين(ع)للخوارزمي / 145 )

اس روایت سے بہت سے شبہات کا ازالہ ہو جاتا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ بلاشبہ حضرت علیؑ نبی نہیں بلکہ امام ہیں مگر رسولؐ اللہ کے ہی نور کا جز ہیں۔ اس وجہ سے ان کو دیگر انبیاء پر اسی طرح فضیلت حاصل ہے جس طرح سرورِ عالم، حبیبِ خدا، حضرت محمد مصطفٰی (صلی اللہ علیہ و الہ وسلم) کو تمام انبیاء پر فضیلت حاصل ہے۔

Short URL : https://saqlain.org/so/0pcy
saqlain

Recent Posts

8) کیا امام حسین کی عزاداری بدعت ہے؟

بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر…

4 weeks ago

6) کیا امام حسین کی عزاداری بدعت ہے؟

بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…

1 month ago

5) کیا امام حسین کی عزاداری بدعت ہے؟

بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…

1 month ago

4) کیا امام حسین کی عزاداری بدعت ہے؟

بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…

1 month ago

3) کیا امام حسین کی عزاداری بدعت ہے؟

دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…

1 month ago

2) کیا امام حسین کی عزاداری بدعت ہے؟

مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…

1 month ago