تاریخ میں یہ واقعہ مشہور ہے کہ بعد از وفات رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب مسلمانوں سے زبر دستی بیعت لی جارہی تھی،اس وقت خلیفہ کے طرفداروں نے دختر رسولؐ کے مکان پر حملہ کیا اور ان کے گھر کے دروازے کو آگ لگادی۔ اسی دوران خاتون محشر جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا نے ان ظالموں کو اپنے گھر میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی ۔ مگر ایک شخص اور اس کے ساتھیوں نے زور و زبردستی سے گھر کے دروازے کو آگ لگا دی اور گھر میں داخل ہوگئے، حضرت علیؑ کے گلے میں رسی ڈال کر بیعت کے لیے لے گئے۔ اسی دوران جناب زہراؑ نے اپنے شوہر کے دفاع کے لیے ظالموں کا مقابلہ کیا ان ظالموں نے ان پر بھی شدید حملہ کیا۔ آپؑ کو مکان کے درودیوار کے مابین اس طرح دبا دیا گیا کہ اس کے سبب آپؑ شدید زخمی ہو گئیں، آپ کی پسلیاں ٹوٹ گئیں اور آپ کے بطن میں آپ کے فرزند محسن شہید ہوگئے۔ یہ واقعہ تاریخ کی کتابوں میں درج ہے اور بعض اہل تسنن علماء نے بھی اس واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے اور بعض نے تو اس کو اپنی کتابوں میں بھی نقل کیا ہے۔
جو لوگ تاریخ سے ناواقف اور نا بلد ہوتے ہیں وہ وہابیت کے جھانسے میں آکر حقیقت پر پردہ ڈالتے ہوے غیر علمی بیانات دینے لگتے ہیں ۔ چنانچہ اسی ضمن میں یہ غلط فہمی پھیلائ جا رہی ہے کہ اسلام کے ابتدائی دور میں مكہ اور مدینہ كے مكانات پر لكڑی كے دروازے نہیں ہوا کرتے تھے بلكہ انجان لوگوں سے گھروں كو محفوظ ركھنے كے لئے صرف چٹائی یا كپڑے كے پردوں كا استعمال كیا جاتا تھا۔ یہ فکر وہابیوں نے اس لیے رائج کی ہے تاکہ وہ اس عظیم حادثہ کو جہٹلا سکیں اور ظالموں کو بےگناہ ثابت کرسکیں۔ ان کا اصل ہدف یہ ہے کہ جناب زہرا سلام اللہ علیہا کے قاتلوں کو ان کے خون کے الزام سے بری کردیں۔
جس روایت کا سہارا لے کر وہ یہ غلط نتیجہ نکالتے ہیں وہ اس طرح ہے:
حضرت امیر المؤمنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے روایت كی گئی ہے آپ نے فرمایا “ہم محمدؐ كے اہلبیتؑ ہیں۔ ہمارے گھر پر نہ چھت ہے اور نہ ہی دروازہ……”
( الخصال، شیخ صدوق، صفحہ ۳۸۲، شرح اخبار، قاضی نعمان مغربی، جدل ۱، صفحہ ۳۶۲، الاختصاص، شیخ مفید، صفحہ ۱۶۳ اور بحار انوار علامہ مجلسی، جلد ۳۸، صفہ ۱۶۷۔)
اس روایت کے ظاہری الفاظ سے یہ لوگ نتیجہ نکالتے ہیں کہ جب اہل بیت کے گھروں میں دروازے ہوتے ہی نہیں تھے،تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ جناب فاطمہؑ اپنے گھر کی دیوار اور دروازے کے درمیان آگئیں، لہزا جناب فاطمہؑ کے دروازے کے جلنےاور ان کے دیوار ودر کے درمیان پس جانے والی بات سراسر غلط ہے اور ان کے گھر کے دروازے کا جلایا جانا ایک منگھڑت بات ہے۔اس طرح حقیقت پر پردہ ڈالنے کی اپنی کوشش کو بروئےکار لانا چاہتے ہیں۔
جواب:-
ان کے اس بےہودہ، اور بے بنیاد اعتراض کا جواب معتبر تاریخی کتابوں اور قریقین کی مستند کتابوں سے باآسانی دیا جا سکتا ہے۔ تاریخ کی مشہور کتب کے مطالعے اور اہل تشیع اور اہل تسنن دونوں كی كتب احادیث سے یہ نتیجہ باآسانی اخذ كیا جاسكتا ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے دور میں مدینہ میں لكڑی كے دروازے ہوا کرتے تھے۔ مگر سب سے پہلے ہم قرآن کی ان آیات کا جائزہ لیں گے جن میں گھروں پر دروازوں کے وجود کی صداقت ملتی ہے۔ مثلاً:
الف: قرآن کا حکم ہے كہ گھروں پر نہ صرف یہ کہ دروازے ہونے چاہئیں بلکہ ان دروازوں پر حفاظتی تالے بھی ہونے چاہئیں۔
متعدد قرآنی آیات میں گھروں پر دروازے کے ہونے كی وضاحت ہو جاتی ہے ،مثال كے طور پر مندرجہ ذیل آیت:
وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَىٰ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا
اور یہ کوئی نیکی نہیں ہے کہ مکانات میں پچھواڑے کی طرف سے آﺅ،بلکہ نیکی ان کے لئے ہے جو پرہیزگار ہوں اور مکانات میں دروازوں کی طرف سے آئیں۔ (سورہٴ بقرہ آیت ۱۸۹)
مندرجہ بالا آیت میں گھروں پر دروازے ہونے کی وضاحت ہو جاتی ہے۔
ایک آیت میں ہم پڑھتے ہیں کہ:
…مِنْ بُيُوتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ آبَائِكُمْ…أَوْ مَا مَلَكْتُمْ مَفَاتِحَهُ أَوْ صَدِيقِكُمْ ۚ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَأْكُلُوا جَمِيعًا أَوْ أَشْتَاتًا (سورہٴ نور آیت ۶۱)
… اپنے گھروں سے یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے … یا جن گھروں کی کنجیاں تمھارے اختیار میں ہیں یا اپنے دوستوں کے گھروں سے کھانا کھالو …. اور تمھارے لئے اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے کہ سب مل کر کھاؤ یا متفرق طریقہ سے کھاؤ…
مندرجہ بالا آیت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اجازت دی ہے کہ جو افراد گھر کی چابیاں ركھتے ہیں وہ گھروں میں داخل ہوں اور وہاں كھانا كھائیں۔ ان گھروں کی چابیوں کا ہونا یہ بتاتا ہے کہ ان کے دروازے ہوتے تھے جن پر تالا بھی ہوتا تھا۔ ان علامتوں سے یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ ان گھروں پر چٹائ یا کپڑے کے پردے نہیں بلکہ لکڑی یا لوہے کے دروازے ہوتے تھے جن پر تالے ہوتے اور ان کی چابییاں بھی ہوتی تھیں۔
ب: روایتوں میں گھروں کے دروازوں كی موجودگی کا ذکر۔
قرآنی آیتوں کی طرح کچھ روایات بھی ہیں جن میں اس زمانے کے گھروں پر دروازوں کے ہونے کا ذکر ملتا ہے۔
دكین بن سعید منزی روایت كرتےہیں كہ ہم کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے پاس گئے اور ان سے درخواست كی كہ ہمیں اپنے گھر سے کچھ کھانے کے لیے عطا کریں۔آنحضرتؐ نے عمر سے كہا: جاؤ اور انھیں كھانا کھلا دو۔ عمر ہمیں اوپر لے گئے، اور اپنے كمر سے چابی نكالی اور دروازے كو كھولا……
(سنن ابی داؤد، جلد ۲، صفحہ ۵۲۷، حدیث ۵۲۴۰)
اسی طرح کی ایک اور روایت ملتی ہے جسے مسلم نے اپنی صحیح میں ذكر كیا ہے۔ یہ روایتیں اس بات کا ثبوت ہیں كہ ابتدائی دورِ اسلام میں گھروں پر دروازے ہوا کرتے تھے۔
ابو حمید كہتا ہے : پیغمبر اكرمؐ نے ہمیں حكم دیا كہ پانی كے برتن كو كونے میں ركھیں اور رات كو دروازے بند كریں۔
(صحیح مسلم، جلد ۳، صفحہ ۱۵۹۳، حدیث ۲۰۱۰، كتاب الاشربہ (والاطعمہ)، باب فی شرح نبیذ و تخمیر الانا۔)
ج۔ پیغمبر اكرمؐ كے گهر كا دروازہ:
ابن كثیر دمشقی، نے حسن بصری كاحوالہ دیتے ہوئے پیغمبر اكرمؐ كے گھر كے دروازے كے بارے میں كہا ہے:
پیغمبر اكرمؐ كا مكان درخت كی موٹی شاخوں اور بال سے بنایا گیا تھا۔ تاریخ بخاری میں بیان كیا گیا ہے كہ پیغمبر اكرمؐ كے دروازے كو انگلیوں اور ناخنوں سے دستك دی جاتی تھی۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے كہ دروازے پر كوئی چیز دستك دینے كے لئے نہیں لگی تھی۔
(البدایه والنہایه، جلد ۳، صفحہ ۲۲۱)
مذكورہ روایات بھی اس بات کی دلیل ہیں كہ ابتدائی دور اسلام میں مکہ اور مدینہ کے مكانات پر دروازے ہوا کرتے تھے۔
د: حضرت امیرالمؤمنین ؑ كے مكان كا دروازہ:
شیعہ اور سنی دونوں كی متعدد روایتوں میں حضرت امیر المؤمنین ؑ كے مكان كے دروازے كا ذكر كیا گیا ہے۔ مثال كے طور پر جناب زہراؐ اور علیؑ كے عقد كی تفصیلات كے ذیل میں کچھ روایتوں میں دروازے کا ذکر ملتا ہے۔ ان میں سے ایک بطور نمونہ یہاں پیش کررہے ہیں:
پیغمبر اكرمؐ نے علی ابن ابی طالب ؑ كو بلایا اور كوئ ذکر زبان مبارک پر جاری فرمایا اور علی ؑ كے لئے دعا فرمائ، پھر یہی ذکر آپؐ نے جناب فاطمہؐ كے لئے بھی پڑھا۔ ان دعاؤں كے بعد رسول اللہ ؐكھڑے ہوئے اور دروازے كو بند كردیا۔
(المصنف جلد ۵، صفحہ ۴۸۹)
ہ: معترضین كے اعتراض كا جواب-
وہ روایت جو امیر المؤمنینؑ كی طرف منسوب كی…
بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر…
بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…
بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…
بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…
دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…
مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…