اہل اسلام نے ہمیشہ سے انبیائے کرام (ع) اور اولیاۓ خدا کی قبروں کا احترام کیا ہے۔ مسجد نبویؐ سے لے کر عراق, ایران، فلسطین اور شام میں موجود انبیاء، صالحین، خدا پرست افراد اور بزرگانِ دین کی قبور مسلمانوں کے لیے ہمیشہ سے زیارت گاہیں رہیں۔ ان مزارات پر اہل ایمان مسلسل حاضری دیتے رہتے ہیں اور اپنے اس عمل کو اپنے لیے قُربِ خدا حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے رہے ہیں۔ مگر خود کو سلفی کہنے والے وہابی اس فعل کو شرک بتاتے ہیں۔ لہذا جہاں جہاں بھی اور جب جب بھی وہابیوں کو اقتدار حاصل ہوا انھوں نے اپنی حکومت میں موجود مزارات منہدم کر دیے۔ مدینہ منورہ میں جنّت البقیع کا قبرستان اور مکہ میں جنّت المعلیّٰ کا قبرستان بھی ان کی اس بدعقیدتی کا شکار بن گے ہیں۔ وہابیوں کا یہ ماننا ہے کہ قبروں پر تعمیرات کرنا نہ صرف یہ کہ حرام ہے بلکہ ان قبروں پر جاکر دعا مانگنا بھی شرک ہے۔ اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لیے وہ جن احادیث کا سہارا لیتے ہیں ان میں سے چند ایک یہ ہیں۔
صحیح مسلم میں مرقوم ہے کہ ام حبیبہ اور ام سلمہ نے یہ بیان کیا کہ انھوں نے حبشہ میں ایک کلیسا (یہودیوں کی عبادت گاہ) دیکھی جس پر رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا : جب بھی اس قوم کے درمیان کوئی صالح انسان مرتا تھا تو وہ اس کی قبر پر مسجد بنا کر اس طرح کی تصویریں بناتے تھے، قیامت کے روز یہ سب سے بری قوم ہوگی۔
(صحيح مسلم: ج2، ص66)
اس روایت میں یہودیوں کے بارے میں دو باتوں کا ذکر ہو رہا ہے ایک یہ کہ یہ لوگ اپنی عبادت گاہوں میں صالح افراد کی تصویر بناتے تھے۔ (ایک غور طالب بات اس حدیث میں یہ ہے کہ کیسے ممکن ہے کہ یہودی جو آج تک سرورِؐ کائنات کی رسالت کے قائل نہیں ہیں وہ کیوں کر حضورؐ کی تصویر اپنی عبادت گاہ میں لگائیں گے۔) دوسری بات یہ کہ ان کے اس فعل کی بنا پر یہودی قوم روزِ قیامت سب سے بری قوم ہوگی۔
اس کے علاوہ صحیح مسلم میں باقاعدہ اس موضوع پر ایک باب مرتب کیا گیا ہے۔ اس باب کی تمام احادیث کا ایک مرکزی نقطہ یہی ہے – چونکہ یہود و نصاریٰ نے اپنے انبیاء کی قبروں کو اپنے لیے عبادت کی جگہ قرار دیا، اس لیے ان پر لعنت کی گئ ہے۔
(صحیح مسلم کتاب ۴ ح ١٠٨٠،١٠٨١)
اسی باب میں ح١٠٨٢ جو کہ عائشہ سے مروی ہے، میں یہ اضافہ بھی ہے کہ گویا آنحضرتؐ نے اپنی امت کو ایسا کرنے سے روکا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعًا قبروں پر، خصوصًا انبیائے کرام کی قبور پر، تعمیرات کرنا ممنوع ہے؟؟
اس سوال کا جواب دینے سے پہلے اس بات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔
ان روایات میں ایک مشترک بات جو بیان ہوئ ہے وہ یہ ہے کہ یہودی اپنے انبیاء کے احترام میں ان کی قبروں کے پاس جاکر عبادت کیا کرتے تھے۔ پہلا سوال تو یہی ہے کہ کیا واقعًا ایسا ہے؟؟
قرآن نے یہودیوں کے بارے میں جو منظر پیش کیا ہے وہ ان روایات کے بالکل برعکس ہے۔ قرآن کی متعدد آیات میں اس بات کا ذکر ملتا ہے کہ یہودیوں کا طور طریقہ یہ تھا کہ وہ اپنے انبیاء پر ظلم کرتے، ان کی بے احترامی کرتے، ان کو جلاوطن کرتے اور ان کے ساتھ طرح طرح کی بدسلوکیاں کرتے تھے۔ اتنا ہی نہیں ان لوگوں نے بہت سے نبیوں کو طولِ تاریخ میں قتل بھی کیا ہے۔ اس بات کا ذکر قرآنِ مجید کی متعدد آیات میں ملتا ہے۔ ان میں سے کچھ کو بطور نمونہ پیش کر رہے ہیں :
” لَقَدْ سَمِعَ اللَّہُ قَوْلَ الَّذینَ قالُوا إِنَّ اللَّہَ فَقیرٌ وَ نَحْنُ اٴَغْنِیاء ُ سَنَکْتُبُ ما قالُوا وَ قَتْلَہُمُ الْاٴَنْبِیاء َ بِغَیْرِ حَقٍّ وَ نَقُولُ ذُوقُوا عَذابَ الْحَریقِ“ (آل عمران: 181.)
۔ اللہ نے ان (بنی اسرائیل/یہودیوں) کی بات کو بھی سن لیا ہے جن کا کہنا ہے کہ خدا فقیر ہے اور ہم مالدار ہیں- ہم ان کی اس مہمل بات کو اور ان کے انبیاء کے ناحق قتل کرنے کو لکھ رہے ہیں اور نتیجہ میں ان سے کہیں گے کہ اب جہّنم کا مزہ چکھو۔
”الَّذینَ قالُوا إِنَّ اللَّہَ عَہِدَ إِلَیْنا اٴَلاَّ نُؤْمِنَ لِرَسُولٍ حَتَّی یَاٴْتِیَنا بِقُرْبانٍ تَاٴْکُلُہُ النَّارُ قُلْ قَدْ جاء َکُمْ رُسُلٌ مِنْ قَبْلی بِالْبَیِّناتِ وَ بِالَّذی قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوہُمْ إِنْ کُنْتُمْ صادِقینَ “ (آل عمران: 183)
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اللہ نے ہم سے عہد لیا ہے کہ ہم اس وقت تک کسی رسول پر ایمان نہ لائیں جب تک وہ ایسی قربانی پیش نہ کرے جسے آسمانی آگ کھا جائے تو ان (بنی اسرائیل/یہودیوں) سے کہہ دیجئے کہ مجھ سے پہلے بہت سے رسول معجزات اور تمھاری فرمائش کے مطابق صداقت کی نشانی لے آئے پھر تم نے انہیں کیوں قتل کردیا اگر تم اپنی بات میں سچےّ ہو ۔
” فَبِما نَقْضِہِمْ میثاقَہُمْ وَ کُفْرِہِمْ بِآیاتِ اللَّہِ وَ قَتْلِہِمُ الْاٴَنْبِیاء َ بِغَیْرِ حَقٍّ وَ قَوْلِہِمْ قُلُوبُنا غُلْفٌ بَلْ طَبَعَ اللَّہُ عَلَیْہا بِکُفْرِہِمْ فَلا یُؤْمِنُونَ إِلاَّ قَلیلاً “(نساء: 155) ۔
پس ان (بنی اسرائیل/یہودیوں) کے عہد کو توڑ دینے ,آیاتِ خدا کے انکار کرنے اور انبیاء کو ناحق قتل کر دینے اور یہ کہنے کی بنا پر کہ ہمارے دلوں پر فطرتًا غلاف چڑھے ہوئے ہیں ، حالانکہ ایسا نہیں ہے، بلکہ خدا نے ان کے کفر کی بنا پر ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے اور اب چند ایک کے علاوہ کوئی ایمان نہ لائے گا ۔
قرآن کی بہت سی آیتوں میں الله نے یہودیوں کی اس بات پر سرزنش کی ہے کہ وہ انبیاء کے ساتھ برا برتاو کرتے اور ان کو قتل کردیا کرتے تھے۔ یہ بھی ذکر ہوا ہے کہ ان یہودیوں میں بہت سی اخلاقی بیماریاں بھی تھیں جن کو قرآن نے بدستور نقل کیا ہے مگر خدا نے کہیں بھی ان کا شمار شرک کرنے والوں میں نہیں کیا۔ لہذا اوپر دی ہوئ روایات میں جو یہ ذکر ہے کہ یہودی انبیا کے احترام میں ان کی قبر کو مسجد بناتے اور اس طرح شرک کے مرتکب ہوتے یہ قرآن کی آیتوں کے مطابق نہیں ہے۔
نیز قرآن بتا رہا ہے کہ یہودی انبیاء کا احترام نہیں کرتے تھے اور حدیث بتا رہی ہے کہ وہ احترام میں قبروں پر مسجد بناتے تھے۔ یہ اختلاف کافی ہے ان روایات کی صحت پر شک کرنے کے لیے۔
دوسری بات یہ ہے کہ آج بھی اگر آپ ان مقامات کی جانب سفر کریں جہاں انبیاء کے مزارات ہیں، مثلًا جناب موسیٰؑ کی قبر، جناب آدمؑ کی قبر، اسی طرح فلسطین میں دیگر انبیاء کی قبور، تو آپ پائیں گے کہ مسلمانوں نے ان قبروں کے قریب مسجدیں تعمیر کی ہیں اور وہاں عبادت کرتے ہیں۔ خود مسجد نبویؐ سامنے کی مثال ہے۔ مسجد نبوی کی عمارت کی تعمیر اور توسیع کے بارے میں مورخین نے اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہے۔ مثلًا کتاب ‘وفاء الوفاء’ اور ‘البدایہ’ میں مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ عمر بن خطّاب کے دور حکومت کی یہ بات نقل ہوئ ہے:
“فأدخل فیه الحجرة النبویة حجرة عائشة فدخل القبر فی المسجد”
نبی کا حجرہ اور آپؐ کی قبر ، عائشہ کا گھر سب مسجد میں شامل کر دیا گیا.
(البداية والنهاية ، ج9، ص 75)
یعنی قبرِ رسولؐ دور خلافت سے ہی مسجد نبویؐ کا حصّہ رہی ہے۔ اس لیے یہ نتیجہ نکالنا درست ہوگا کہ سلف کا طریقہ یہی رہا ہے کہ وہ انبیاء کی قبروں پر مسجد تعمیر کرنے کو حرام نہیں جانتے تھے۔
انبیاء، صالحین اور بزرگان دین کی قبروں پر تعمیرات آج کے دور کی ایجاد نہیں ہے بلکہ ان میں سے کوئ عمارت ۵٠٠ سال پرانی ہے تو کوئ اس سے بھی زیادہ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر دور میں جہاں بھی بزگان دین کی قبریں رہیں وہاں عقیدت مند مسلمانوں نے مزارات بنائے ہیں۔
لھذا تعمیر قبور نہ شرک ہے نہ بدعت بلکہ قرآن و سنت اور اصحاب و اسلاف کے عمل کے عین مطابق ہے۔
بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر…
بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…
بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…
بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…
دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…
مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…