ايك وہابى كا سوال ہے كہ اہل تشيع كى معتبر كتبِ احاديث اور تاريخ ميں وارد ہوا ہے كہ نبى اكرم صلى اللہ عليہ وآلہ كى ۴ بيٹياں تھيں اور بلا شك و شبہ ان ميں سے دو كا نكاح حضرت عثمان بن عفان سے ہوا ، آخر شيعہ حضرات كيوں نبى اكرم صلى اللہ عليہ وآلہ كے داماد پر تبرّا كرتے ہيں ؟!! جبكہ ان كے علماء اور كتابيں بھى كہتى ہيں كہ آپ ص كى ۴ بيٹياں تھيں ؟ پھر مومن پر تبرّا كرنے كى خود شيعہ كتب ميں شديد مذمت آئى ہے اور ايسا كرنے والے كو فاسق قرار ديا گيا ہے ؟!!
اس كا جواب اس طور پر ديا جا سكتا ہے :
۱) علماءِ تشيع ميں اختلاف موجود ہے كہ نبى اكرم صلى اللہ عليہ وآلہ كى چار بيٹياں تھيں يا ايك ۔ اكثر ايرانى اور عراقى علماء قائل ہيں كہ ۴ بيٹياں تھيں كيونكہ تاريخ اور احاديث ميں يہ وارد ہوا ہے ، اگرچے احاديث اس حوالے سے جانچ پڑتال كى محتاج ہيں ۔
۲) اكثر برصغير اور لبنان كے علماء قائل ہيں كہ نبى اكرم صلى اللہ عليہ وآلہ كى ايك بيٹى تھى اور ۳ بيٹياں جناب خديجہ سلام اللہ عليہا كى بہن ھالة كى بيٹياں تھيں ۔ جب جناب ھالة كے شوہر وفات پا گئے تو وہ اپنى بيٹيوں سميت جناِب خديجہ (س) كے پاس منتقل ہو گئيں، كيونكہ اس دور ميں اہل عرب شديد فقر و غربت ميں رہتے تھے اور جناب خديجہ سلام اللہ عليہا مالى طور پر قوى اور مضبوط تھيں اس ليے انہوں نے اپنى بہن كا بوجھ اپنے سر پر لے ليا ۔ جب نبى اكرم صلى اللہ عليہ وآلہ كے ساتھ ازدواج ہوا تو جناب ھالة اپنى بيٹيوں سميت آپ ص كے گھر منتقل ہو گئيں ۔ عرب كے ہاں رواج تھا كہ جو شخص كسى كو پال بوس كر بڑھا كرے اور اس كے دسترخوان پر كھاتا پيتا ہو وہ اسے اس مربى كى اولاد تصور كرتے تھے جيساكہ جناب زيد بن اسامة كا واقعہ ہے كہ قرآن كريم نے معاشرے كے اس نظريے كو باطل قرار ديا ۔ يہى وجہ تھى كہ اہل عرب ميں يہ شہرت پھيل گئى كہ ۳ بيٹياں آپ صلى اللہ عليہ وآلہ كى بيٹياں ہيں۔ نيز رسول اللہ صلى اللہ عليہ وآلہ كى شادى كے كچھ عرصہ بعد ہى ان بيٹيوں كى شادى كر دى گئى ۔ اگر ان كو رسول اللہ ص كى حقيقى بيٹى مانا جائے تو اس كا مطلب يہ ہو گا كہ رسول اللہ ص كى بيٹيوں كى شادى ۲ يا ۴ يا ۶ سال كى عمر ميں ہوئى اور يہ كسى صورت قابل قبول بات نہيں ہے ۔
۳) بيٹيوں كے اختلاف سے كوئى فرق نہيں پڑتا كيونكہ اس كا تعلق نظريات سے نہيں بلكہ نسب سے ہے۔ اتفاق سے يہ برصغير ميں مناظرہ كا موضوع رہا ہے اس ليے اس موضوع پر حساسيت پائى جاتى ہے ۔
۴) نسب كے طور پر احترام ضرورى ہے اور شيعہ ان تمام افراد كا احترام كرتے ہيں جو بيٹا يا بيٹى ہونے كے اعتبار سے نبى اكرم صلى اللہ عليہ وآلہ سے منسوب ہيں ۔ كسى شيعہ نے كبھى بھى جناب زينب ، جناب رقيہ اور جناب ام كلثوم كى توہين نہيں كى ، كيونكہ جو لوگ قائل ہيں كہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وآلہ كى ۱ بيٹى ہيں ان كے نزديك بھى باقى تين جناب خديجہ سلام اللہ عليہا كى يا ان كى بہن كى بيٹى ہيں ۔ ان تينوں سے كبھى كوئى ايسى چيز صادر نہيں ہوئى جو دلالت كرتى ہو كہ ان ميں سے كوئى بھى رسول اللہ صلى اللہ عليہ وآلہ يا اہل بيت طہارت عليہم السلام سے ٹكراؤ ركھتى تھى ۔
۵) مكتبِ تشيع كے نزديك توحيد و رسالت و خاتميت كے نظريہ كے ساتھ ولايت و امامت ۱۲ آئمہ عليہم السلام ايمان كا معيار ہے جيساكہ ۱۲ خلفاء كا تذكرہ بخارى ومسلم ميں آيا ہے ۔ لہذا نسب كى حيثيت ہميشہ ايمانى معيارات كے بعد آتى ہے ۔ مكتب تشيع كے نزديك اگر حبشہ كا عيسائى بادشاہ بھى مسلمانوں كى مدد كرے اور نبى اكرم صلى اللہ عليہ وآلہ سے محبت كرے تو وہ قابل احترام ہے اور اگر جناب عبد المطلب كا سگا بيٹا ہاشمى قريشى خون ركھتے ہوئے مكہ جيسى مقدس سرزمين پر بھى زندگى بسر كرتا ہو تو ابو لہب كے عنوان سے اس پر تبرّا كرنا واجب قرار ديتا ہے ۔ آخر سلمان و بلال كا دنياوى نسب سے كيا تعلق ؟!!! ليكن ايمانى نسب سے اتنا گہرا تعلق ہے كہ آج بھى شيعہ ان ناموں پر اپنے بچوں كے نام ركھنے پر فخر كرتے ہيں ۔ اس ليے اگر رسول اللہ صلى اللہ عليہ وآلہ كا سگا چچا يا كوئى اور فرد بھى ايمانى اصول كى مخالفت كرے تو شيعہ اس سے بيزار ہے اور اگر حبشہ و فارس و روم كے افراد بھى اہل بيتِ طہارت عليہم السلام سے تعلق ركھيں تو وہ سر آنكھوں پر ہيں ۔ مكتبِ تشيع كى نگاہ حسب نسب پر نہيں بلكہ ايمان اور الہى اصولوں پر ہے ۔
۶) مكتبِ تشيع كى نظر ميں داماد ہونا اس وقت باعثِ افتخار ہے جب اللہ سبحانہ كى كاملا اطاعت بجا لائى جائے ۔ ورنہ دامادى تو بہت دور كى بات سگا بيٹا بھى قبول نہيں ۔ اسى معيار كى خاطر اللہ تعالى نے پسرِ نوح ع كا واقعہ بيان كيا ہے ۔ اس ليے كسى نبى ، كسى امام كا بيٹا اگر اللہ تعالى كے قائم كردہ اصولوں كو قبول نہيں كرتا تو وہ لائق تبرّا ہے جيساكہ حضرت نوح سلام اللہ على نبينا وآلہ وعليہ كے بيٹے پر قرآن كى اطاعت ميں شيعہ تبرّا كرتے ہيں ، اسى طرح آئمہ طاہرين عليہم السلام كے فرزندان ميں سے جس كسى نے ۱۲ آئمہ عليہم السلام كے مقابلے ميں اپنى امامت كا دعوى كيا شيعہ اس پر تبرّا كرتے ہيں ۔ اگر دامادِ رسول ص مان بھى ليں تو ديكھيں گے تولا و محبت كے معيار ان كى شخصيت ميں موجود ہے يا تبرّا كے معيارات اجاگر ہيں ؟ جيسى شخصيت ہوئى اس كے ساتھ ويسا سلوك كرنا چاہيے ۔ اگر اس طور پر رشتہ دارى ديكھنى ہے تو قارون بھى حضرت موسى عليہ السلام كا رشتہ دار تھا ، يزيد كا تعلق بھى قريش و عبد مناف سے تھا !! آذر بھى حضرت ابراھيم عليہ السلام كا چچا تھا !! اور اولادِ آدم ہونے كے اعتبار سے تو نمرود و فرعون سب ہى رشتہ دار ہوئے !!!!!!!!!!
۷) مكتبِ تشيع كى حضرت عثمان بن عفان سے كوئى دشمنى نہيں ہے سوائے اس كے كہ ان كى سياسى روش پر وہى اعتراضات ہيں جو اہل سنت خود كرتے ہيں ۔ ان سياسى روشوں كى وجہ سے عالم اسلام ميں منافقانہ تحرك پيدا ہوا اور فتنہ فساد پھيل گيا ۔ فرق صرف يہ ہے كہ اہل سنت پہلى صدى كو سب سے آئيڈيل اور بہترين صدى تسليم كرتے ہيں جبكہ مكتب تشيع حقائق كو مدنظر ركھتے ہوئے تا قيامت آنے والے زمانے ميں سب سے بدترين صدى ’’ پہلى صدى ‘‘ كو شمار كرتے ہيں كيونكہ اسى صدى ميں اہل سنت كے ۴ خلفاء ميں سے ۳ خليفہ قتل ہيں اور قتل بھى كسى جنگ ميں نہيں ہوئے بلكہ اپنے گھر ميں يا مدينہ منورہ كى گليوں ميں يا امام على عليہ السلام مسجد كے محراب ميں حالتِ سجدہ و عبادت ميں !!! اسى صدى ميں سيدہ فاطمہ سلام عليہا اوجِ جوانى ميں بڑھاپے كے مشابہ عمر پاتے ہوئى شہيد ہوئيں !! اسى صدى ميں نواسہ رسول ص امام حسن و حسين مظلوم عليہما السلام اولادِ صحابہ كے ہاتھوں شہيد ہوئے !!! اسى صدى ميں مدينہ منورہ پر اولادِ صحابہ نے حملہ كر كے مسجد نبوى ، روضہ رسول ص اور گھرانہ مسلمين كو ۱۰ دن تك اس طرح پامال كيا كہ آج بھى جنت البقيع ميں سب سے بڑى اجتماعى قبر اس سوزناك واقعہ كى ياد تازہ كرتى دكھائى ديتى ہے !!! اسى صدى ميں وہ كعبہ مقدس جس كى بنياديں ابراہيمى اور عبادتِ محمدى ص ہے كو اولادِ صحابہ نے گرا ديا !! اسى صدى ميں حديث كے لكھنے پڑھنے پر پابندى لگا دى گئى !! اسى صدى ميں عالم اسلام ميں جمل و نہروان و صفين ہوئى جس ميں صرف اور صرف صحابہ مارے گئے !! ! بخارى كى حديث كے مطابق قتل ہونے والوں ميں سے ايك جنتى اور دوسرا جہنمى ہے !!! آخر جمل جس ميں ۱۰ يا ۲۰ يا ۴۰ ہزار افراد قتل ہوئے ، نہروان ميں ۴ يا ۸ ہزار قتل ہوئے ، صفين ميں لاكھوں ميں تعداد جاتى ہے اور پھر ان ميں كتنے ہى معذور و اپاھج ہوئے ۔۔۔ جن گھرانوں كے نصيب ميں يتيم بيوہ اور معذور افراد آئے ہوں تو وہ مخالف كى مدح ميں قصيدے تو نہيں پڑھيں گے ۔۔۔ ان سب فتنوں كا آغاز اگرچے واقعہ سقيفہ سے ہوا ليكن فتنے اوج پر حضرت عثمان بن عفان كے دور ميں پہنچے ۔۔۔ كيا ايسے ميں صرف داماد ہونے كى وجہ سے سب سياسى امور پر پردہ ڈال ديا جائے !!!!!!!!!!!! ايسا كرنا قرآن اور سيرتِ رسول صلى اللہ عليہ وآلہ كى مخالفت ہے ۔۔۔ شيعہ ايسا تصور بھى نہيں كر سكتا كہ قرآن اور رسول صلى اللہ عليہ وآلہ كى مخالفت كرے ۔۔۔
۸) اہل سنت اور مكتبِ تشيع ميں وارد ہونے والى روايات كے مطابق رسول اللہ صلى اللہ عليہ وآلہ كے اہل بيت دو حصوں ميں تقسيم ہوتے ہيں اور اسى تقسيم كى رعايت بخارى و مسلم اور تمام صحاح ستہ نے كى ہے :
اہل بيتِ طہارت : يہ وہ اہل بيت ہيں جنہيں چادر كے نيچے جمع فرما كر ان كى طہارت و پاكيزگى كى گواہى آنحضرت صلى اللہ عليہ وآلہ نے دى ۔ يہ صرف پانچ اور ان كى نسل سے آنے والے ۹ امام عليہم السلام وأرواحنا لہم الفداء ہيں ۔ يہ محمد ، على ، فاطمہ ، حسن و حسين عليہم السلام ہيں ۔ اس ليے ان كو اہل بيت طہارت كہا جاتا ہے ۔
اہل بيت نسبى : ان سے مراد وہ اہل بيت ہيں جو قبيلہ يا حسب نسب كى وجہ سے نبى اكرم صلى اللہ عليہ وآلہ كے ساتھ منسوب ہيں ۔ اس كے مطابق تمام ازواج ، داماد اور قبيلہِ بنى ہاشم اور اس كے بعد قريش والے نبى اكرم صلى اللہ عليہ وآلہ كے اہل بيت ہيں ۔
بخارى و مسلم اور صحاح ستہ ميں اسى تقسيم كے مطابق ابواب بندى ہے ۔ اس ليے اہل بيت طہارت ع كے ذيل ميں انہوں نے بھى كسى اور كو داخل كرنے كى جرأت نہيں کی۔
اگر نبى اكرم صلى اللہ عليہ وآلہ كى ايك ہزار بھى بيٹياں ہوتيں تو ان ميں فاطمہ (روحى وأرواحنا لہا الفداء) ايك ہى ہے ۔۔۔ بالكل اسى طرح جيسے يعقوب على نبينا وعليہ السلام كے ۱۱ بيٹے تھے ليكن ان ميں ’’ يوسف ع ‘‘ ايك ہى تھے ۔۔۔ اگر بالفرض مان بھى ليا جائے كہ نبى اكرم صلى اللہ عليہ وآلہ كى ۴ بيٹياں تھيں تو ان ميں فاطمہ ع ايك ہى ہيں ۔ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وآلہ نے كسى بيٹى كى ناراضگى كو معيار ايمان و جنت و جہنم قرار نہيں ديا ، كسى كے ليے يہ نہيں فرمايا : فاطمة بضعة منى فمن أبغضہا أبغضنى ‘‘ ۔ جناب فاطمہ سلام اللہ عليہا كے اتنے فضائل ہيں كہ جلال الدين سيوطى نے ’’ مسند فاطمہ ‘‘ باقاعدہ كتاب مرتّب كى ۔ كيا يہ فضائل كسى اور بيٹى كے ليے وارد ہوئے ہيں !!! بس تعداد كے كم يا زيادہ ہونے سے جناب فاطمہ سلام اللہ عليہا كى شخصيت اور حيثيت اور بلند منزلت تك نہ كوئى اور خاتون پہنچتى ہے اور نہ كسى كى رسائى ممكن ہے ۔۔۔ فرزندانِ يعقوب ميں يوسف ايك ہى ہے اور نسلِ آدم ميں ’’ فاطمہ ‘‘ ايك ہى ہيں ۔۔ كوئى ان جيسا نہيں ۔۔ كوئى ان كى مثل نہيں ۔۔۔ ہزار يوسف قربان محمد مصطفى كى طاہر و اطہر بيٹى فاطمة الزہراء الزكية الطاھرة ( سلام اللہ عليہا ) پر۔
بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر…
بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…
بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…
بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…
دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…
مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…