اہل تسنّن خلفیہ دوم کی شان میں اس حدیث کو اکثر و بیشتر نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب ہوتے۔
ہمارا مقصد یہاں پر اس حدیث کی صحت پر گفتگو کرنا نہیں ہے۔ نہ ہی اس مضمون میں ہم اس حدیث کے اسناد پر بحث کرنا چاہتے ہیں۔ ہم صرف اس کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس حدیث کو قبول کرنے سے پہلے چند سوالات کے جواب حاصل کرنا ضروری ہیں:-
• کیا کسی نبی نے شراب خوری کی تھی؟
• کیا کوئی نبی کفر کے مقابلے پرمیدانِ جنگ سے فرار ہوا تھا؟
• کیا کسی نبی نے بتوں سے اس قدر محبت کی کہ اپنی بہن کو توحید قبول کرنے پر ضرب لگائی ہو؟
• کیا کبھی کسی نبی نے کسی دوسرے نبی کی نبوت پر شک کیا تھا؟
اگر ان تمام سوالات کا جواب”‘نہیں'” میں ہے تو پھر یقیناً یہ جملہ قولِ رسول اعظم (ص) نہیں ہو سکتا۔
نیز، اہل تسنّن کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ صحابہ میں سب سے زیادہ افضلیت خلفاء راشدین کو حاصل ہے اور ان میں فضیلت کی وہی ترتیب ہے جو خلافت کی ترتیب ہے۔ لہذا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو شخص امتی یعنی خلیفہ اول سے افضل نہیں ہے وہ نبی کیسے بنایا جا سکتا ہے؟
بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر…
بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…
بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…
بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…
دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…
مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…