اہل تسنّن خلفیہ دوم کی شان میں اس حدیث کو اکثر و بیشتر نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا: اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب ہوتے۔
ہمارا مقصد یہاں پر اس حدیث کی صحت پر گفتگو کرنا نہیں ہے۔ نہ ہی اس مضمون میں ہم اس حدیث کے اسناد پر بحث کرنا چاہتے ہیں۔ ہم صرف اس کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس حدیث کو قبول کرنے سے پہلے چند سوالات کے جواب حاصل کرنا ضروری ہیں:-
• کیا کسی نبی نے شراب خوری کی تھی؟
• کیا کوئی نبی کفر کے مقابلے پرمیدانِ جنگ سے فرار ہوا تھا؟
• کیا کسی نبی نے بتوں سے اس قدر محبت کی کہ اپنی بہن کو توحید قبول کرنے پر ضرب لگائی ہو؟
• کیا کبھی کسی نبی نے کسی دوسرے نبی کی نبوت پر شک کیا تھا؟
اگر ان تمام سوالات کا جواب”‘نہیں'” میں ہے تو پھر یقیناً یہ جملہ قولِ رسول اعظم (ص) نہیں ہو سکتا۔
نیز، اہل تسنّن کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ صحابہ میں سب سے زیادہ افضلیت خلفاء راشدین کو حاصل ہے اور ان میں فضیلت کی وہی ترتیب ہے جو خلافت کی ترتیب ہے۔ لہذا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جو شخص امتی یعنی خلیفہ اول سے افضل نہیں ہے وہ نبی کیسے بنایا جا سکتا ہے؟
الف۔ صدر اسلام میں عربوں کے درمیان ((عمر)) مشہور اور رائج ناموں میں سے تھا…
کیوں شیعوں کو کچھ سال پہلے تک دختر رسول کی خلیفہ کے ہاتھوں شہادت کے…
الف۔ کیا بنی ہاشم اور بہت سے وہ لوگ کہ جنہوں نے سقیفہ اور اس…
الف۔ امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے اپنے مناظرہ میں جو کہ عمرو بن عثمان…
چوتھے اعتراض کا جواب الف۔ کیا حضرت علی ابن ابی طالبؑ کی زندگی اور تاریخ…
تیسرے اعتراض کا جواب: خلفاء سے دوستی کا دعویٰ بالکل غلط ہے۔حضرت علیؑ کا ابو…