اہل باطل نے اہل حق سے ہمیشہ شدید اختلاف رکھا ہے اور جس جرم کے وہ خود مرتکب ہوتے رہے ہیں اس کی نسبت اہل حق کو دیتے رہے۔ قرآن میں کفار کا جملہ نقل ہے کہ وہ اللہ والوں کو گمراہ اور فساد پھیلانے والا کہتے ہیں جبکہ وہ خود ویسے ہیں۔ اسی طرح وہابی شیعوں کو اور دوسرے مسلمانوں کو مشرک اور بدعتی کہتے ہیں اس لئے کہ وہ ‘یا علی مدد’ کہتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مولا علیؑ سے مدد مانگنا عین تعلیم و سنّت پیغمبر (ص) ہے، کیونکہ بارہا مرسلِ اعظم (ص) نے حکم خدا پر عمل کرتے ہوئے مولائے کائنات کونصرت و مدد کے لیے پکارا ہے۔ اپنی بات کے ثبوت کے لیے ہم رسول اکرم (ص) سے متعلق دو روایتیں یہاں پر پیش کر رہے ہیں۔
١) عبد اللہ ابن مسعود روایت کرتے ہیں کہ جنگ احد میں مسلمانوں کے لشکر کو شکست ہونے لگی اور منافقین فرار ہونے لگے۔ مسلمانوں کے لشکر کی اکثریت نے آنحضرتؐ کو چھوڑ کر فرار اختیار کر لیا جبکہ سرورِ عالم کو مشرکین مکہ نے چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔ اس وقت جبرئیل اللہ کی جانب سے یہ پیغام لے کر نازل ہوئے۔
“ناد عليّاً مظهر العجائب تجده عَوناً لك في النوائب
كلّ همّ و غمّ سينجلی بولايتك يا عليّ يا عليّ يا عليّ۔”
‘(اے حبیب!) آپ مدد کے لیے علیؑ کو پکاریئے۔ آپ ان کو مصیبتوں میں اپنا مددگار پائیں گے۔ تب علیؑ کی ولایت کے صدقے میں ہر پریشانی اور غم دور ہو جائے گی’
حالہ جات:
• شجرة طوبى ج ٢ ص ٧۴
• مستدرك سفينة البحار ج ١٠ ص ١٩
• زاد المعاد ص ۴٢٦۔
اس روایت سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ ‘ناد علی’ پڑھنے کا حکم اللہ نے دیا ہے۔ لہذا یہ عمل نہ بدعت ہے اور نہ ہی شرک ہے۔ بلکہ اس قول کو تو حدیث قدسی کہا جاسکتا ہے۔
٢) جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنگ تبوک کے لیے آمادہ ہوئے تو آپؐ نے امیرالمومنینؑ کو مدینہ میں اپنا جانشین بنا دیا اور انھیں مدینے میں ہی رہنے کا حکم دیا۔ …… دوران سفر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان کا لشکر کچھ الگ ہوگیا اور آپؐ کو خطرہ محسوس ہوا۔ اس وقت جناب جبرئیلؑ نازل ہوئے اور عرض کی: “اے الله کے نبیؐ ! الله آپ کو سلام کہتا ہے اور آپ سے نصرت و مدد کا وعدہ کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ آپؐ کو یہ اختیار دیتا ہے کہ آپ جس طرح چاہیں اللہ کی نصرت حاصل کر لیں۔ آپ چاہیں تو آسمان سے ملائکہ کی صفیں آپ کی مدد کے لیےنازل ہوں اور آپ کے لشکر کے ہمراہ جنگ کریں یا آپ چاہیں تو نصرت کے لیے علیؑ کو بلا لیں تو رسول(ﷺوآلہ) نے علیؑ کو انتخاب کیا۔ پس جبرئیل نے کہا: آپؐ جب علیؑ کو مدد کے لیے بلانا چاہیں تو مدینے کا رخ کریں اور ان کو آواز دیں- “یا ابا الغیث ادرکنی ! یا علیؑ ادرکنی ! یا علیؑ ادرکنی۔”
(مدینة المعاجز ج ٢ ص ١٠)
اس روایت سے یہ بات مزید واضح ہو جاتی ہے کہ مرسل اعظم (ص) کو ‘یا علی مدد’ کہنے کا مشورہ خود منجانب خدا جبرئیل نے دیا ہے۔ اور خود آنحضرتؐ کو بھی مولا علیؑ سے مدد حاصل کرنا زیادہ پسند تھا۔ اس طرح کے اور واقعات کتب احادیث میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ پس مولا علیؑ سے ‘یا علی مدد’ کہہ کر یا ‘یا علی ادرکنی’ پکار کر مدد طلب کرنا سنّت رسولؐ ہے۔
بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر…
بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…
بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…
بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…
دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…
مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…