2) کیا امام حسین کی عزاداری بدعت ہے؟

مقدمہ:
یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو ابتدا سے تمام قوموں اور ملتوں میں رائج رہا ہے اور تمام دین الہی نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔ اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ وہ لوگ جو سیدالشہداء علیہ السلام کی عزاداری کو بدعت سمجھتے ہیں، کس بنیاد پر اس دعویٰ کو پیش کرتے ہیں؟ اور کیا یہ دعویٰ ثابت ہوسکتا ہے؟ یا اس کے برعکس، خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام اور خصوصاً کربلا کے سردار اور شہداء کے سردار حضرت ابا عبد اللہ الحسین علیہ السلام کی عزاداری ذاتاً مطلوب ہے اور اللہ کے نزدیک افضل ترین قربت میں شمار ہوتی ہے؟
حصہ اول: بدعت کی تعریف اور اس کے ارکان
1. بدعت کے معنی کی غلط تفہیم:
وہابیت کی طرف سے امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کے قیام کے بارے میں اس قسم کے بیانات اور فیصلوں کے بارے میں خوشبینانہ نظر یہ ہے کہ ہم کہیں: وہابیت نے ‘بدعت’ کے معنی کی صحیح تفہیم نہیں کی اور وہم میں مبتلا ہو گئے ہیں اور جو کچھ ان کے خیالات سے مختلف ہوتا ہے اسے بدعت قرار دے کر دوسروں کو محکوم کرتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ پہلے لغوی اور اصطلاحی لحاظ سے بدعت کے معنی کو واضح کریں اور پھر کتاب و سنت کی روشنی میں بدعت کا جائزہ لیں۔
2. لغوی معنی ‘بدعت’:
لغت نویسوں کے مطابق، بدعت اس چیز کو کہتے ہیں جو پہلے موجود نہیں تھی اور اس کا کوئی اثر نہیں تھا۔
جوہری لکھتے ہیں:
“البدعة: إنشاء الشيء لا على مثال سابق، واختراعه وابتكاره بعد أن لم يكن.”
بدعت کا مطلب ایسی چیز کا خلق کرنا جو پہلے نہ ہو اور نئی اور انوکھی چیزخلق کرنا
(صحاح اللغة، جوہری، جلد 3، صفحہ 113)
یقیناً بدعت اس معنی میں آیات اور روایات میں حرام نہیں ہے؛ کیونکہ اسلام انسانی زندگی میں نئی چیز کو بنانےکے خلاف نہیں ہے، بلکہ فطرت بشری کے مطابق ہے جو ہمیشہ اسے فردی اور اجتماعی زندگی میں نوانی کی طرف لے جاتی ہے۔ اس لئے مخترعین اور موجدین جو اپنی اختراعات میں بناتے ہیں ہیں اس تعریف میں شامل ہوتا ہے جو نہ صرف مذموم نہیں ہے بلکہ پسندیدہ اور قابل ستائش ہے۔
3. علمائے شیعہ و سنی کے نزدیک بدعت کا اصطلاحی معنی:
لیکن شرعی لحاظ سے اور علماء کی اصطلاح میں، بدعت کا ایک مختلف معنی ہے جو لغوی معنی سے مختلف ہے، کیونکہ بدعت دین میں ایسی چیزوں کا نسبت دینا اور داخل کرنا ہے جو شارع اور دین کے لانے والے نے اسے ایجاد نہیں کیا اور اس پر راضی نہیں تھے۔ دین میں بدعت کا مطلب ہر قسم کا اضافہ یا کمی دین میں نام دین سے نسبت دینا ہے اور یہ لغوی معنی سے مختلف ہے۔
راغب اصفہانی کہتے ہیں:
“البدعة في المذهب: إيراد قول لم يستنَّ قائله وفاعله فيه بصاحب الشريعة وأمثاله المتقدمة وأصولها المتقنة.”
دین میں بدعت ایک ایسا قول اور فعل ہے جو صاحب شریعت سے منسوب نہ ہو اور اس کی مشابہت اور اصول مستحکم شریعت سے نہ لی گئی ہو۔
(مفردات ألفاظ القرآن، راغب اصفہانی، صفحہ 39)
ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں:
“والمُحْدَثات بفتح الدال جمع مُحْدَثَة، والمراد بها: ما أحدث وليس له أصل في الشرع ويُسمّى في عرف الشرع بدعة، وما كان له أصل يدل عليه الشرع فليس ببدعة.”
ہر نئی چیز جس کی شرعی اصل نہ ہو، شرعی عرف میں بدعت کہلاتی ہے، اور جس کی شرعی اصل ہو اسے بدعت نہیں کہتے۔
(فتح الباری، جلد 13، صفحہ 212)
عینی نے اپنی شرح صحیح بخاری اور مبارکفوری نے اپنی شرح صحیح ترمذی میں یہی تعریف پیش کی ہے اور عظیم آبادی نے اپنی شرح سنن ابوداود اور ابن رجب حنبلی نے جامع العلوم میں ذکر کیا ہے۔
سید مرتضی، جو شیعہ کے متکلم اور معروف فقہا میں سے ہیں، بدعت کی تعریف میں کہتے ہیں:
“البدعة زيادة في الدين أو نقصان منه، من إسناد إلى الدين.”
بدعت یعنی دین میں کچھ بڑھانا یا کم کرنا ہے اور اسے دین سے نسبت دینا ہے۔
(رسائل شریف مرتضی، جلد 2، صفحہ 264، نشر دار القرآن الکریم ـ قم)
طریحی کہتے ہیں:
“البدعة: الحدث في الدين، وما ليس له أصل في كتابٍ ولا سنة، وإنّما سُمّيت بدعة؛ لأنّ قائلها ابتدعها هو نفسه.”
بدعت دین میں نئی چیز ہے جس کی قرآن و سنت میں کوئی اصل نہیں ہے اور اسے بدعت اس لئے کہا گیا ہے کہ اس کا قائل اسے خود ایجاد کرتا ہے۔
(مجمع البحرين، جلد 1، صفحہ 163، مادہ «بدع»)
لہذا، بدعت لغوی معنی کے لحاظ سے ،شرعی معنی سے زیادہ عمومی ہوگی۔
4. بدعت کے ارکان:
مذکورہ مطالب کی روشنی میں، بدعت کے دو رکن ہیں:
– دین میں تصرف: ہر قسم کا تصرف جو دین کو نشانہ بنائے اور اس میں کچھ بڑھائے یا کم کرے بشرطیکہ عامل اس تصرف کو خدا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نسبت دے۔ لیکن وہ نوآوری جو انسان کی تنوع اور نوانی کی روح کی جواب دہی کی حالت میں ہو، جیسے فٹبال، باسکٹبال، والیبال وغیرہ، بدعت نہیں ہوگی۔
– کتاب و سنت میں بنیاد نہ ہونا: بدعت کی اصطلاحی تعریف کے مطابق، ایسی چیز بدعت سمجھی جاتی ہے جس کی اسلامی منابع میں خاص یا عام طور پر کوئی دلیل نہ ہو۔ لیکن جو چیز نہ صرف مشروعیت میں کتاب و سنت میں خاص یا عمومی طور پر قابل استنباط ہو بلکہ، جیسا کہ اب بیان کیا جائے گا، دین اسلام اور دیگر آسمانی ادیان میں بھی موجود ہو اور فطرت سلیم بشری کے مطابق ہو، اسے بدعت نہیں کہا جاتا۔
5- وہابیت کے انحراف کی جڑ “بدعت” کے معنی میں
لغوی اور اصطلاحی بدعت کے معنی اور اس کے ارکان کے حوالے سے جو بات گزری، اس سے واضح ہوگیا کہ بدعت کو کسی شخص یا گروہ سے منسوب کرنا اتنا آسان نہیں ہے جتنا کہ وہابیت ہر نئے اور جدید پدیده کو دیکھ کر بدعت کا لیبل لگا دیتی ہے؛ بلکہ اس کے لیے خاص شرائط اور خصوصیات ہوتی ہیں جو پورا ہونے پر ہی بدعت کہلائی جا سکتی ہے۔
لیکن جو چیز باعث بنی کہ کچھ لوگ اس معاملے میں غلطی کر کے دوسروں کو آسانی سے بدعت کا الزام دیتے ہیں، یہ ہے کہ انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ایک حدیث سے نقل کیا ہے:
کلّ بدعه ضلالہ.
ہر بدعت گمراہی ہے۔
صحیح مسلم، جلد 3، صفحہ 11 – مسند احمد، جلد 3، صفحہ 310۔
لیکن کیا اس روایت کی بنیاد پر ہم ہر نئے پدیده کو جو معاشرے میں خاص مقام و منزلت حاصل کر لے، بدعت کے مصداق قرار دے کر اس کے ماننے والوں کو دین سے خارج شمار کر سکتے ہیں؟
سوال کا جواب منفی ہے، کیونکہ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا، شارع کا فریضہ حکم بیان کرنا ہے، مصداق کا تعین نہیں کرنا، ہو سکتا ہے کسی خاص شخص یا گروہ کی نظر میں کوئی پدیده کسی خاص معاشرے میں بدعت شمار ہو، لیکن کسی دوسرے فکری مکتب کے پیروکاروں کے نزدیک یہ دین کے شعائر اور نیک سنتوں میں شمار ہو۔
6- بدعت کے عنوان سے نکلنے کے لیے شرعی دلیل کا وجود
پہلے کی باتوں سے واضح ہو گیا: بدعت کی حقیقت یہ ہے کہ کوئی شخص خدا اور دین پر افتراء کی نیت سے دین میں کچھ اضافہ کرے یا اس میں کچھ کمی کرے اور اسے خدا اور دین کی طرف منسوب کرے۔ اور جب بدعت کی تشخیص کا معیار معلوم ہو گیا، تو ان صورتوں میں جن کے لیے شرعی دلیل موجود ہو، بدعت کے عنوان سے نکل جاتے ہیں۔
اب یہ شرعی دلیل دو قسموں میں تقسیم ہو سکتی ہے:
1- قرآنی یا نبوی سنت کی خاص دلیل جو کسی خاص مسئلے کے حد و حدود اور تفصیلات کے بارے میں ہو، جیسے عید الفطر اور عید الأضحیٰ کی خوشیاں منانا اور عرفات و منیٰ میں اجتماع کرنا، ایسی صورت میں یہ اجتماعات اور جشن بدعت شمار نہیں ہوں گے بلکہ سنت ہوں گے جو شارع مقدس نے خاص طور پر حکم دیئے ہیں اور ان کا انجام دینا امتثال امر الہیٰ شمار ہو گا۔
2- قرآنی یا نبوی سنت کی عمومی دلیل جو اپنی عمومیت کے ساتھ نئے اور جدید مصداق کو شامل کرے، بشرطیکہ نیا اور جدید مسئلہ جو رسول کے زمانے میں موجود تھا، حقیقت اور ماہیت کے لحاظ سے متحد ہو، چاہے شکل اور صورت میں فرق ہو، لیکن عمومی دلیل اپنی عمومیت کے ساتھ دونوں مصداقوں کو شامل کرے گی اور شرعی دلیل شمار ہوگی۔
مثال کے طور پر: اللہ سبحان و تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں:
وَ أَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ وَ مِنْ رِباطِ الْخَيْلِ تُرْهِبُونَ بِهِ عَدُوَّ اللَّهِ وَ عَدُوَّكُمْ الأنفال (8): 60
اور ان کے خلاف جس قدر تمہاری استطاعت ہو، قوت اور بندھے ہوئے گھوڑے تیار رکھو، تاکہ اس سے اللہ کے دشمن اور اپنے دشمن کو خوفزدہ کرو۔
مسلمانوں کے لیے واجب امور میں سے ایک یہ ہے کہ وہ کفار کے حملے کے مقابلے میں مکمل استعداد اور آمادگی رکھیں اور جہاں بھی خطرہ کا اندیشہ ہو اس مقام کو بند کریں اور دفاع کے لیے تیار رہیں۔
آیت مذکورہ میں دو خاص دلیل موجود ہیں:
خاص دلیل کہ اسلامی حکومت کو امتثال امر الہیٰ کے لیے اپنے آپ کو گھوڑے سواروں کے ساتھ تیار رکھنا چاہیے جو صدر اسلام کے زمانے کے ساتھ خاص تھی۔
اور عمومی دلیل کے ساتھ، انہیں اپنے آپ کو توپ، ٹینک، میزائل اور دیگر جدید ترین ہوائی، زمینی اور سمندری آلات کے ساتھ خود کو آمادہ کرنا چاہیے تاکہ وہ آیت شریفہ میں دیئے گئے حکم کو پورا کر سکیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں موجود نہیں تھی۔
لہذا یہ امور شرعی غیر عادی ہیں جنہیں اس توجیہ کے ساتھ نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے لیے کوئی خاص دلیل موجود نہیں ہے۔
دوسرے الفاظ میں اور مثال کے طور پر، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَ إِذا قُرِیَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَ أَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُون‏. الأعراف (5): 204
اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
یہ آیت مسلمانوں کو قرآن کی تلاوت کے وقت سننے کی دعوت دیتی ہے؛ لیکن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں موجود مصداق مسجد النبی یا گھر میں قاری کی زبانی تلاوت کو براہ راست سننے کا تھا۔ لیکن آج کے زمانے اور جدید دور میں تکنیکی ترقی کے ساتھ اس کا ایک نیا مصداق پایا گیا ہے جو اس وقت موجود نہیں تھا، جیسے کہ ریڈیو، ٹیلی ویژن اور دیگر ذرائع سے قرآن کی تلاوت، لہذا وہی آیت دونوں صورتوں کے لیے شرعی حجت شمار ہوگی اور ہم قرآن سننے اور اس پر توجہ دینے کو اس بہانے ترک نہیں کر سکتے کہ دوسری صورت بدعت شمار ہو اور اس کی شرعی حجت نہیں ہے؛ کیونکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں یہ موجود نہیں تھا۔
اور ہزاروں مثالیں اور مصداق موجود ہیں جن کا یہاں بیان کرنے کا ارادہ نہیں ہے۔
لہذا، ہر زمانے میں اور تمام انسانوں کے لیے عمومی دلیل شرعی حجت شمار ہوگی۔
لہذا، ان معاملات میں عمومی قاعدہ منصفانہ نظر اور معتبر شرعی دلیل پر مبنی ہونا چاہیے، نہ کہ بغض اور تعصب سے آلودہ نظر۔ کیونکہ اگر نیا معاشرتی پدیده معاشرتی نشوونما اور خدا اور دین سے زیادہ واقفیت کا سبب بنے اور فساد کے پھیلاؤ کو روکنے میں مددگار ہو، تو یہ نیک سنت کے مصداق میں شمار ہو گا جسے شارع نے قبول کیا ہے۔
7- اصل، چیزوں کا مباح ہونا ہے
ان دیگر مسائل میں جو بدعت کی بحث میں خاص توجہ کی ضرورت ہے وہ اصالۃ الاباحہ ہے؛ یعنی: جب تک کہ شارع مقدس کی طرف سے کسی خاص معاملے میں نہی اور ممانعت نہ ہو، اصل اشیاء میں اباحہ اور اس کا انجام دینا جائز ہے۔
یہ شرعی قاعدہ تمام شرعی احکام پر حاوی ہے۔ یہاں تک کہ قرآن کریم تصریح فرماتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فریضہ محرمات کی بیان کرنا ہے نہ کہ حلال چیزوں کی، اور اصل اشیاء اور اعمال میں ہر عمل کا حلال ہونا اور اس کا انجام دینا جائز ہے، جب تک کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اس کی حرمت کی نص وارد نہ ہو، اور علمائے امت کا فرض ہے کہ وہ اپنی تمام وسعت اور توانائی کو استعمال کر کے شرعی دلیل سے حکم الهی استنباط کریں اور جب تک حرمت کی کوئی دلیل نہ ملے، حکم جواز ہو گا۔
یہاں ایک آیت کی مثال دی گئی ہے جس سے جواز اور اصالۃ الاباحہ کا حکم نکلتا ہے:
وَ ما لَكُمْ أَلاَّ تَأْكُلُوا مِمَّا ذُكِرَ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَ قَدْ فَصَّلَ لَكُمْ ما حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلاَّ ما اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ وَ إِنَّ كَثِيراً لَيُضِلُّونَ بِأَهْوائِهِمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِينَ الانعام (6): 119
اور کیوں نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو، جب کہ (اللہ) نے وہ سب کچھ بیان کر دیا جو تم پر حرام ہے، سوائے اس کے جس کے کھانے کی تمہیں سخت مجبوری ہو۔ اور بہت سے لوگ اپنی خواہشات کے مطابق بے علم گمراہ کرتے ہیں۔ بے شک تمہارا رب تجاوز کرنے والوں کو خوب جانتا ہے۔
یہ آیت بیان کرتی ہے کہ جس چیز کی بیان کی ضرورت ہے وہ محرمات ہیں، نہ کہ مباحات اور مجاز چیزیں، اور اس وجہ سے خاص معاملے میں شک ہونے پر جب تک کہ محرمات کی فہرست میں اس کا ذکر نہ ہو، رکو اور عمل نہ کرو۔

Short URL : https://saqlain.org/2xbd
saqlain

Recent Posts

3) کیا امام حسین کی عزاداری بدعت ہے؟

دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…

6 hours ago

1) کیا امام حسین کی عزاداری بدعت ہے؟

تاریخ میں ہمیشہ وہابیت کی طرف سے حضرت امام حسین علیہ السلام کے قیام اور…

2 days ago

امام حسین علیہ السلام پر زمین اور آسمان والوں کا رونا

بُکاءُ المَلایِکَةِ فرشتوں کا رونا ۲۸۵۰.الکافی عن هارون بن خارجة:سَمِعتُ أبا عَبدِ اللّه ِ [الصّادِقَ]…

2 months ago

کیا عزاداری میں کالے کپڑے پہننا (اس کے مکروہ ہونے کو نظر میں رکھتے ہوئے) جائز ہے?

پہلا: ہاں، صدوق نے اپنی کتاب "من لایحضره الفقیہ" میں حدیث ۷۶۷ کے تحت روایت…

2 months ago

امام حسین علیہ السلام کی مصیبت پر شعر پڑھنے کی ٖفضیلت اور ثواب

فَضلُ إنشادِ الشِّعرِ فی مُصیبَتِهِم اہلبیت کی مصیبت پر شعر پڑھنے کا ثواب: ۲۷۸۱.ثواب الأعمال…

2 months ago

فضائل عزاداری، امام حسین علیہ السلام پر رونا یا رلانا

البُکاءُ وَالإِبکاءُ عَلی سَیِّدِ الشُّهَداءِ علیه السلام وأصحابِهِ سیدالشہداء اور انکے اصحاب پر رونا یا…

2 months ago