دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت
1 ـ قرآن میں رونے اور آنسو کی توثیق
جیسے کہ بدعت کی تعریف میں بیان ہوا، قرآن کے دلائل کے مطابق رونے اور آنسو کا مقام کیا ہے، یہ جاننا ضروری ہے کہ کیا قرآن میں آنسوکی کوئی تعریف کی گئی ہے یا اسے ناپسندیدہ سمجھا گیا ہے؟ قرآن مجید کی کئی آیات رونے اور آنسوکی تعریف کرتی ہیں، جن کی بنیاد پر قرآن کی توثیق کی جا سکتی ہے:
آیات جو روتے ہوئے آنکھوں کا ذکر کرتی ہیں:
“پس تھوڑا ہنسیں اور بہت زیادہ روئیں” (التوبہ 82)
اس آیت میں اللہ تعالیٰ اس عمل کا حکم دیتا ہے جسے اللہ کی رضا حاصل ہے۔
اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبروں کی تعریف میں فرماتے ہیں:
“جب ان پر رحمان کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ سجدے میں گر کر روتے ہیں” (مریم 58)
اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی صفات بیان کرتے ہیں جنہیں علم عطا کیا گیا ہے:
“وہ چہرے کے بل گر جاتے ہیں، روتے ہیں اور ان کا خشوع بڑھ جاتا ہے” (الإسراء 109)
یا اللہ سبحانہ و تعالیٰ مومنوں کو قرآن کی آیات کے نزول پر اس طرح بیان کرتے ہیں:
“تم ان کی آنکھوں کو دیکھتے ہو کہ آنسوؤں سے بھری ہوئی ہیں” (المائدہ 83)
قرآن میں رونا اور آنسوؤں کا بہنا، جو روحانی اثرات کا نتیجہ ہے، نہ صرف ناپسندیدہ نہیں ہے بلکہ تعریف اور ستائش کا باعث ہے کیونکہ یہ انسانی فطرت اور مثبت شخصیت کا حصہ ہے۔
2 ـ پیغمبروں کی سیرت میں رونا اور آنسوؤں کی اہمیت
پیغمبروں کی عملی سیرت کی پیروی کرنا یقیناً عزاداری اور امام حسین علیہ السلام کے لئے رونے کی مشروعیت کے موضوع میں ایک اہم عنصر ہے، کیونکہ پیغمبروں کی سیرت ہمارے اعمال کی مشروعیت پر مضبوط دلیل فراہم کرتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی پیروی کو واجب قرار دیا ہے:
“یقیناً ابراہیم میں تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے” (الممتحنہ 4)
“یقیناً رسول اللہ کی پیروی تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے” (الأحزاب 21)
پیغمبروں کی زندگی کی تفصیلات جو ان کے روحانی اثرات سے متعلق ہیں، ہمیں قائل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر:
الف ـ حضرت یعقوب کا اپنے بیٹے کے بچھڑنے پر رونا
حضرت یوسف کی داستان ایک خوفناک اور متاثر کن تراژدی کی طرح بیان کی گئی ہے۔ جب یوسف کے بھائیوں کے دلوں میں حسد بھرا ہوتا ہے اور وہ اسے غائب کرنے کی سازش کرتے ہیں، جب وہ چادر خون آلود کے ساتھ اپنے والد کو بتاتے ہیں اور یعقوب کا بے حد غم اور ہر دن رات رونا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“کہا: اے افسوس یوسف پر، اور وہ اپنے غم کو چھپائے ہوئے تھا، اس کی آنکھیں اندھیرے سے سفید ہو چکی تھیں” (یوسف 84)
یعقوب اپنے بیٹے کے بچھڑنے پر باوجود جانتے ہوئے کہ وہ زندہ ہے، پھر بھی اس کی روحانی حالت پر اثرانداز ہوتا ہے اور اپنے دکھ کا تذکرہ اللہ کے سامنے کرتے ہیں:
“کہا: میں اپنی فکری شکایت اور غم اللہ کے سامنے پیش کرتا ہوں اور اللہ کے بارے میں ایسی باتیں جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے” (یوسف 86)
کیا پیغمبروں کی زندگی کی کہانیاں صرف جذبات کو ابھارنے اور حسد کی برائی کو ظاہر کرنے کے لیے بیان کی گئی ہیں؟ اس قرآنی دلیل سے، پیغمبروں اور اولیاء اللہ کے لیے رونے اور شکوہ کرنے کی اجازت ملتی ہے، جو عزاداری اور مصیبتوں پر رونے کی مشروعیت کا مضبوط قرآنی دلیل فراہم کرتی ہے۔
ایک مثال کے طور پر اہل سنت کے روایتی اور تفسیری ماخذ سے ایک حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے:
زمخشری کی تفسیر کشاف میں اس آیہ شریفہ کی تفسیر میں آیا ہے:
“حضرت یعقوب کے آنکھیں یوسف کی جدائی کے وقت سے ملاقات تک، جو کہ اسی سال تک جاری رہی، آنسوؤں سے خشک نہ ہوئیں۔ اور زمین پر اس چیز سے زیادہ اللہ کے نزدیک کوئی چیز قابل احترام نہیں تھی۔”
(الکشاف عن حقایق التنزیل وعیون الأقاویل، زمخشری، ج ۲، ص ۳۳۹)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی روایت ہے:
“حضرت جبریل سے پوچھا گیا: یعقوب کا یوسف کی جدائی پر کیا حال ہوا؟ جبریل نے جواب دیا: وہ ستر ماؤں کی جدائی کے برابر تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: یعقوب کا اس صبر کا کیا اجر ہے؟ جواب ملا: سو شہیدوں کا اجر، اور یعقوب کبھی بھی اللہ پر برا گمان نہ کیا۔”
(الکشاف عن حقایق التنزیل وعیون الأقاویل، زمخشری، ج ۲، ص ۳۳۹)
عبدالرحمان سیوطی نے ابن جریر سے نقل کیا ہے:
“جبریل نے یوسف سے جیل میں ملاقات کی اور پوچھا: اے اللہ کے قریب فرشتہ، کیا تمہیں یعقوب کی خبر ہے؟ جبریل نے کہا: ہاں، وہ بہت غمگین ہیں۔ یوسف نے پوچھا: ان کا اجر کیا ہے؟ جواب دیا: ستر ماؤں کا اجر۔ یوسف نے پوچھا: کیا میں ان سے مل سکوں گا؟ جبریل نے کہا: ہاں۔”
(الدرّ المنثور، جلال الدین عبدالرحمان سیوطی، ج ۴، ص ۳۱)
تفسیر الدرّ المنثور میں لکھا ہے:
“یعقوب نے یوسف کے لئے اسی سال تک روتے رہے، یہاں تک کہ ان کی آنکھیں اندھیرے سے سفید ہو گئیں۔”
(الدر المنثور، ج۴، ص ۳۱، اور تفسیر طبری، ج ۱، ص ۲۵۰)
ب ـ یوسف علیہ السلام کا رونا
یہ صرف یعقوب ہی نہیں تھے جو اپنے بیٹے کی جدائی پر روتے رہے، بلکہ یوسف بھی اپنے والد کی جدائی میں غمزدہ تھے۔
ابن عباس سے روایت ہے:
“جب یوسف جیل میں داخل ہوئے، وہ اتنا روتے تھے کہ دیواریں اور دروازے بھی ان کے ساتھ روتے لگتے تھے۔”
(تفسیر قرطبی، ج ۹، ص ۸۸)
امام صادق علیہ السلام سے بھی روایت ہے:
“پانچ افراد زیادہ روتے تھے: آدم، یعقوب،… اور یوسف اپنے والد کی جدائی میں اتنا روتے کہ جیل کے باقی لوگ ان کے رونے سے تنگ آ گئے اور انہوں نے کہا: یا دن میں رویا کرو یا رات میں، یوسف نے ان کی بات مانی۔”
(کشف الغمہ، ابن أبی الفتح الإربلی، ج ۲، ص ۱۲۰ـ الخصال، صدوق، ص ۲۷۲ ـ الأمالی، صدوق، ص ۲۰۴ ـ روضہ الواعظین، نیشابوری، ص ۴۵۱ ـ المناقب، ابن شہرآشوب، ج ۳، ص ۱۰۴)
ج ـ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت میں رونا اور آنسو
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آرزو تھی کہ ان کی آنکھیں ہمیشہ اشکبار رہیں۔
تفسیر قرطبی میں نبی اکرم کی مناجات کا ذکر ہے:
“اے اللہ، مجھے ان لوگوں میں سے بنا دے جو تیرے لئے روتے ہیں اور تیرے لئے خشوع کرتے ہیں۔”
(تفسیر قرطبی، ج۱۱، ص ۲۱۵)
ایک اور دعا میں:
“اے اللہ، مجھے روتی ہوئی آنکھیں عطا فرما۔”
(فیض القدیر، ج ۲، ص ۱۸۱)
حقیقت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی مناجات میں اس عمل کی خواہش کی جو اللہ کی رضا کے مطابق ہے، اگر یہ عمل اللہ کے نزدیک قابل قبول نہ ہوتا تو وہ اسے اپنی مناجات میں شامل نہ کرتے۔
دو آنکھیں جو کبھی جہنم کی آگ سے نہیں جلیں گی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو گروہوں کی تعریف میں فرمایا:
“دو آنکھیں جہنم کی آگ سے محفوظ رہیں گی: ایک وہ جو اللہ کے خوف سے روتی ہے، اور دوسری وہ جو اللہ کے لئے رات بھر جاگتی ہے۔”
(سنن ترمذی، ج ۳، ص۹۶)
اللہ کے ذکرپررونا
صحیح بخاری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت ہے:
“سات لوگ قیامت کے دن اللہ کے عرش کے سائے میں ہوں گے… ان میں سے ایک وہ شخص جو اللہ کے ذکر پر روتا ہے۔”
(صحیح بخاری، ج۷، ص ۱۸۵)