بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت میں
گریہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت میں
1۔ حضرت حمزہؓ کی شہادت پر گریہ
حمزہ، عبدالمطلب کے فرزند، اسلام کے نمایاں چہرے اور بہادر تھے جو جنگ احد میں شہید ہوئے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے چچا کی شہادت پر بہت غمگین ہوئے اور انہیں سیدالشہداء کا لقب دیا اور ان کی جدائی پر گریہ کیا۔
جنگ احد میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حمزہ کی شہادت کی خبر نے ان کے دل و روح پر گہرا اثر ڈالا کیونکہ انہوں نے ایک بڑے محافظ اور اپنے حقیقی حامی کو کھو دیا تھا۔ اس دردناک واقعے کے مقابلے میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ردعمل ان کے پیروکاروں کے لیے ایک ابدی سبق بن گیا۔
حلبی اپنی سیرت میں لکھتے ہیں:
لما رأی النبی حمزہ قتیلا، بکی فلما رای ما مثّل بہ شہق
جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حمزہ کا خون آلود جسم دیکھا تو روئے اور جب ان کی مثلہ کی گئی حالت کو دیکھا تو بلند آواز سے گریہ کیا۔
(السیرہ الحلبیہ، ج 2، ص 247)
اس گریہ اور نالہ کی شدت اتنی زیادہ تھی کہ ابن مسعود کہتے ہیں:
ما رأینا رسول اللّه صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باکیاً أشدّ من بکایہ علی حمزہ، وضعہ فی القبلہ، ثمّ وقف علی جنازتہ، وانتحب حتی بلغ بہ الغشی، یقول: یا عمّ رسول اللّه! یا حمزہ! یا أسد اللّه! وأسد رسولہ! یا حمزہ! یا فاعل الخیرات! یا حمزہ! یا کاشف الکربات! یا حمزہ! یا ذابّ عن وجہ رسول اللّه!.
ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی کے لیے اتنا زیادہ روتے نہیں دیکھا جتنا کہ انہوں نے اپنے چچا حمزہ کی شہادت پر گریہ کیا۔ انہوں نے حمزہ کے جسم کو قبلہ کی طرف رکھا، پھر جنازے کے قریب کھڑے ہو کر بلند آواز سے روئے یہاں تک کہ غشی طاری ہو گئی، اور حمزہ سے مخاطب ہو کر فرماتے تھے: اے نبی کے چچا، اے حمزہ! اے اللہ کے شیر اور اس کے رسول کے شیر، اے حمزہ! اے نیک کاموں کے کرنے والے، اے حمزہ! اے مشکلات کو دور کرنے والے، اے حمزہ! اے رسول خدا کے چہرے سے مشکلات کو دور کرنے والے۔
(ذخایر العقبی، ص 181)
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمزہ پر گریہ کی اصل داستان اس وقت شروع ہوئی جب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم احد سے واپس آ رہے تھے اور مدینہ کے لوگوں کے گھروں سے شہدا پر گریہ کی آواز سنائی دی:
ومر رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بدار من دور الأنصار من بنی عبد الأشہل وبنی ظفر فسمع البکاء والنوایح علی قتلاهم فذرفت عینا رسول الله صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فبکی ثم قال لکن حمزہ لا بواکی لہ فلما رجع سعد بن معاذ وأسید بن حضیر إلی دار بنی عبد الأشہل أمرا نساءهم أن یتحزمن ثم یذهبن فیبکین علی عم رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انصار (بنی عبد الأشہل وبنی ظفر) کے گھروں کے پاس سے گزر رہے تھے کہ شہدا پر گریہ و نوحہ کی آواز سنی۔ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں اور فرمایا: میرے چچا حمزہ کا کوئی رونے والا نہیں ہے۔ جب سعد بن معاذ اور اسید بن حضیر بنی عبد الأشہل کے گھروں میں واپس آئے تو انہوں نے اپنی عورتوں کو حکم دیا کہ اپنے دکھ کو سینے میں دبا کر پہلے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے لیے گریہ کریں۔
(تاریخ طبری، ج 2، ص 210۔ السیرہ النبویہ لابن هشام، ج 3، ص 613۔ الثقات، ج 1، ص 234۔ البدایه والنهایه، ج 4، ص 54 و 55)
اس کے بعد جو لوگ نبی کی بات سن چکے تھے، ہر شہید پر گریہ کرنے سے پہلے حمزہ کے لیے گریہ کرتے تھے:
فلم تبک امرأہ من الأنصار علی میّت بعد قول رسول اللّه صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لکنّ حمزہ لابواکی لہ إلی الیوم إلّا بدأت البکاء علی حمزہ.
انصار کی کوئی عورت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کو سننے کے بعد کسی مردہ پر گریہ نہیں کرتی تھی مگر یہ کہ پہلے حمزہ کے لیے گریہ کرتی۔
(مجمع الزواید، ج 6، ص 126)
حمزہ کے لیے گریہ کی استمراریہ تمام عزاوں میں:
ابن کثیر کہتے ہیں: آج تک انصار کی عورتیں اپنے مردوں پر گریہ کرنے سے پہلے حمزہ پر گریہ کرتی ہیں۔
(البدایه والنهایه، ج 4، ص 55)
واقدی بھی کہتے ہیں کہ ہمارے زمانے تک یہ رواج جاری رہا کہ عورتیں پہلے حضرت ہمزہ پر گریہ کرتی تھیں
(أسد الغابه، ج 2، ص 48)
یہ روایت ابن سعد کی کتاب “الطبقات الکبریٰ” میں آئی ہے۔ اس روایت میں کہا گیا ہے کہ حمزہ (نبی محمد ﷺ کے چچا) کی شہادت کے بعد، انصار کی عورتیں جب کسی کا انتقال ہوتا، تو پہلے حمزہ کے لیے روتی تھیں اور پھر اپنے مردے کے لیے روتی تھیں۔
(الطبقات الکبری، ج ۲، ص ۴۴)
کیا یہ عمل رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ندبہ اور گریہ و زاری کی مشروعیت کی دلیل نہیں ہے؟
اہل ایمان اور پیروان راستین پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سنت عملی آنحضرت کو دینی اعمال کا معیار سمجھتے ہیں، لہذا، آنحضرت کی عملی سیرت ان کے چچا حمزہ کی شہادت پر گریہ و زاری اور سوگ منانے میں، دین کے بزرگوں اور اولیاء اللہ کی وفات اور شہادت پر سوگ منانے کی مشروعیت کا معیار ہو سکتی ہے۔
۲- جعفر بن ابی طالب کی شہادت پر نبی کا گریہ
جعفر بن ابی طالب بھی جنگ موتہ کے کمانڈروں میں سے تھے، جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان کی شہادت کی خبر ملی تو ان کے بچوں سے ملاقات کے لیے گئے، جب گھر میں داخل ہوئے تو جعفر کے بچوں کو بلایا، انہیں گلے سے لگایا جبکہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔
اسماء، جعفر کی بیوی نے محسوس کیا کہ ان کے شوہر کے ساتھ کچھ ہوا ہے، لہذا سوال کیا:
“میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کیا آپ نے جعفر اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں کچھ سنا ہے؟”
آپ نے فرمایا: “ہاں، آج انہیں شہید کر دیا گیا ہے۔”
اسماء کی چیخیں بلند ہو گئیں، عورتیں ان کے ارد گرد جمع ہو گئیں، فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا گھر میں داخل ہوئیں اور گریہ کرنے لگیں، اور فرمایا: “وائے عمو!”
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: “جعفر جیسے لوگوں پر گریہ کرنے والوں کو رونا چاہیے۔”
الاستیعاب، جلد ۱، صفحہ ۳۱۳ – اسد الغابہ، جلد ۱، صفحہ ۲۴۱ – الاصابہ، جلد ۲، صفحہ ۲۳۸ – الکامل فی التاریخ، جلد ۲، صفحہ ۴۲۰۔
ذکر کردہ نمونے رسول خدا کی عملی سنت کے علاوہ، مردوں پر سوگ منانے اور گریہ کی تائید بھی ہیں؛ کیونکہ آپ نے غم زدہ لوگوں کے ندبہ اور گریہ سے منع نہیں فرمایا، بلکہ اس سے بڑھ کر گریہ و زاری کا حکم بھی دیا۔
۳- زید بن حارثہ کی شہادت پر نبی کا گریہ
زید بن حارثہ بھی جنگ موتہ کے کمانڈروں میں سے تھے، جو رسول خدا کے حکم پر جعفر بن ابی طالب اور عبداللہ بن رواحہ کے ساتھ جنگ کی قیادت کر رہے تھے، جب ان کی شہادت کی خبر پہونچی تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے گھر تشریف لے گئے، زید کی بیٹی نے پیغمبر اکرم کو دیکھ کر اونچی آواز میں رونا شروع کر دیا، پیغمبر بھی رونے لگے، لوگوں نے سوال کیا، آپ کیوں رو رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: “محبوب کی اپنے محبوب سے محبت۔”
فیض القدیر، جلد ۳، صفحہ ۶۹۵۔
۴- اپنے بیٹے ابراہیم کی وفات پر نبی کا گریہ
ابراہیم، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ واحد بیٹا تھا جو مدینہ میں پیدا ہوا، لیکن وہ ایک سال کی عمر میں انتقال کر گیا اور آپ کو غم میں مبتلا کر گیا۔
ابراہیم کی والدہ کا نام “ماریہ” تھا، وہ ۱۸ ماہ سے زیادہ نہ جیا اور قضا نے اسے والد سے چھین لیا، آپ اپنے بیٹے کی وفات پر گریہ کر رہے تھے کہ عبدالرحمان بن عوف نے آپ کے گریہ پر تعجب کیا، اور کہا: “کیا آپ بھی اپنے بیٹے کی وفات پر رو رہے ہیں؟” آپ نے فرمایا: “اے ابن عوف، یہ رحمت ہے۔” پھر فرمایا:
“آنکھ گریہ کرتی ہے، اور دل غمگین ہوتا ہے، اور ہم وہی بات کہتے ہیں جو ہمارے رب کو راضی کرے، اے ابراہیم ہم تمہاری جدائی پر غمگین ہیں۔”
صحیح بخاری، جلد ۲، صفحہ ۸۵، صحیح مسلم، جلد ۴، صفحہ ۱۸۰۸، کتاب الفضائل، باب رحمته بالصبیان – العقد الفرید، جلد ۳، صفحہ ۱۹، کتاب التعزیہ – سنن ابن ماجہ، جلد ۱، صفحہ ۵۰۶، ش ۱۵۸۹، باب ما جاء فی البکاء علی المیت – مصنف عبد الرزاق، جلد ۳، صفحہ ۵۵۲، ش ۶۶۷۲، باب الصبر والبکاء والنیاحه
۵- عبدالمطلب کی وفات پر نبی کا گریہ
حضرت عبدالمطلب کی وفات کے بعد، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے عزیز دادا پر گریہ کرتے رہے؛ ام ایمن کہتی ہیں:
“میں نے رسول اللہ کو دیکھا کہ وہ جنازہ کے نیچے چل رہے تھے اور رو رہے تھے۔”
تذکرہ الخواص، صفحہ ۷۔
۶- ابوطالب کی وفات پر نبی کا گریہ
ابوطالب کی وفات، جو نبی کے مومن چچا اور عزیز حامی تھے، بھی آپ پر بہت بھاری گزری، امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں:
“جب میں نے اپنے والد ابوطالب کی وفات کی خبر پیغمبر کو دی، وہ روئے اور فرمایا:
‘جا کر انہیں غسل دو، کفن دو اور دفن کرو، اللہ انہیں بخشے اور اپنی رحمت میں لے لے۔'”
الطبقات الکبری، ابن سعد، جلد ۱، صفحہ ۱۰۵۔
۷- اپنی والدہ آمنہ کی قبر پر نبی کا گریہ
ایک دن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی عزیز والدہ آمنہ کی قبر کو ابواء میں زیارت کیا۔ مورخین کے مطابق، آپ قبر کے پاس بیٹھ کر روئے اور اپنے ساتھیوں کو بھی رلا دیا۔
المستدرک، جلد ۱، صفحہ ۳۵۷ – تاریخ المدینہ، ابن شبہ، جلد ۱، صفحہ ۱۱۸۔
۸- فاطمہ بنت اسد کی وفات پر نبی کا گریہ
فاطمہ بنت اسد، ابوطالب کی بیوی اور امیر المؤمنین علیہ السلام کی والدہ، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک بہت محبوب تھیں، وہ رسول خدا کی سرپرستی میں بہت اہتمام کرتی تھیں۔ جب فاطمہ تیسرے ہجری سال میں وفات پا گئیں، نبی جو انہیں اپنی ماں کی طرح سمجھتے تھے، ان کی وفات پر بہت غمگین ہوئے اور روئے، مورخین کہتے ہیں:
“آپ نے ان پر نماز جنازہ پڑھی اور ان کے قبر میں لیٹ گئے اور روئے۔”
ذخائر العقبی، صفحہ ۵۶۔
۹- عثمان بن مظعون کی وفات پر نبی کا گریہ
حاکم مستدرک میں کہتے ہیں:
“نبی نے عثمان بن مظعون کی موت پر انہیں بوسہ دیا اور ان کے لیے روئے۔”
المستدرک علی الصحیحین، جلد ۱، صفحہ ۵۱۴، ش ۱۳۳۴ – سنن ترمذی، جلد ۳، صفحہ ۳۱۴، ش ۹۸۹، کتاب الجنایز باب ما جاء فی تقبیل المیت – المعجم الکبیر، جلد ۲۴، صفحہ ۳۴۳، ش ۸۵۵، باب عائشہ بنت قدامہ بن مظعون الجمحیہ – سنن البیہقی الکبری، جلد ۳، صفحہ ۴۰۷، ش ۶۵۰۳ – ربیع الأبرار، جلد ۴، صفحہ ۱۸۷ – جامع الأصول، جلد ۱۱، صفحہ ۱۰۵۔
10۔ سعد بن ربیع شہید احد پر رسول اللہ کا رونا
حاکم مستدرک میں جابر بن عبداللہ انصاری سے نقل کرتے ہیں:
جب سعد بن ربیع جنگ احد میں شہید ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ واپس تشریف لائے… آپؐ ان کے گھر تشریف لے گئے اور ہم بھی ساتھ تھے۔ جابر کہتے ہیں: خدا کی قسم وہاں نہ تو کوئی بچھونا تھا نہ کوئی سامان۔ ہم رسول اللہ کے ساتھ بیٹھے اور آپؐ سعد بن ربیع کے بارے میں بات کرتے اور ان کے لیے رحمت کی دعا کرتے… جب عورتوں نے یہ باتیں سنیں، وہ رونے لگیں اور رسول اللہ کی آنکھیں بھی اشکبار ہو گئیں۔ اور آپؐ نے ان کے رونے سے منع نہیں کیا۔
امتاع الاسماع، مقریزی، ج ۱۳، ص ۲۶۹۔
11۔ رسول اللہ نے عمر کو عورتوں کے رونے سے روکنے پر منع کیا
نیچے دیے گئے متن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ عمر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی میں عورتوں کے رونے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں جو جنازے میں شرکت کر رہی تھیں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمر کو اس عمل سے منع فرماتے ہیں:
خرج النبی علی جنازه ومعه عمر بن الخطاب، فسمع نساء یبکین، فزبرهن عمر فقال رسول الله (صلی الله علیه و آله و سلم) یا عمر، دعهن، فإن العین دامعه والنفس مصابه والعهد قریب
نبی جنازے کے ساتھ نکلے اور ان کے ساتھ عمر بن خطاب بھی تھے۔ عورتوں کے رونے کی آواز آئی تو عمر نے انہیں ڈانٹا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عمر، انہیں چھوڑ دو، بے شک آنکھ اشکبار ہے، نفس مصیبت زدہ ہے، اور ابھی نیا ہے۔
المستدرک علی الصحیحین، ج ۱، ص ۳۸۱،ش ۱۴۰۶،کتاب الجنایز ـ سنن النسائی (المجتبی)، ج۴، ص۱۹، ش ۱۸۵۰، کتاب الجنایز باب الرخصه فی البکاء علی المیت ـ مسند أحمد بن حنبل، ج۲، ص۴۴۴، ش ۹۷۲۹، باب مسند أبی ہریره ـ سنن ابن ماجہ، ج۱،ص۵۰۵، ش ۱۵۸۷، کتاب الجنایز باب ما جاء فی البکاء علی المیت.
اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ میت پر رونے کی حرمت جو بعض لوگ بیان کرتے ہیں، شاید عمر کے اس عمل سے ماخوذ ہو، لیکن رسول اللہ کے منع کرنے کے باوجود، کچھ لوگ اب بھی عمر کے فعل سے استناد کر کے میت پر رونے سے منع کرتے ہیں۔
12۔ رسول اللہ آنسو کو رحمت الہیٰ قرار دیتے ہیں
اسامہ بن زید سے روایت ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی نے پیغام بھیجا کہ میرا بیٹا مر رہا ہے، ہمارے پاس آئیں۔ رسول اللہ نے کسی کو بھیجا کہ اسے سلام کہو اور کہو: اللہ کے پاس جو کچھ ہے، وہ لے لیتا ہے اور جو دیتا ہے، اس کا بھی وقت مقرر ہے، صبر کرو اور ثواب کی نیت رکھو۔ پھر بیٹی نے دوبارہ پیغام بھیجا اور قسم دی کہ آئیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سعد بن عبادہ، معاذ بن جبل، ابی بن کعب، زید بن ثابت اور چند دیگر لوگوں کے ساتھ گئے۔ رسول اللہ نے بچے کو اٹھایا جو نفس نفس کر رہا تھا اور آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ سعد نے پوچھا: یا رسول اللہ، یہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ رحمت ہے جو اللہ اپنے بندوں کے دلوں میں رکھتا ہے، اللہ اپنے رحم کرنے والے بندوں پر رحم کرتا ہے۔
صحیح بخاری، ج ۱، ص ۴۳۱، ش ۱۲۲۴، کتاب الجنایز باب قول النبی یعذب المیت ببعض بکاء أهله و ج ۵، ص ۲۱۴۱، ش ۵۳۳۱، کتاب المرضی باب عیاده الصبیان و ج ۶، ص ۲۴۵۲، ش ۶۲۷۹، کتاب الأیمان والنذور باب قول الله تعالی «وأقسموا بالله» ـ صحیح مسلم، ج ۲، ص۶۳۵، ش ۹۲۳، کتاب الجنایز باب البکاء علی المیت ـ سنن النسائی (المجتبی)، ج ۴، ص ۲۲، ش ۱۸۶۸، کتاب الجنایز باب الأمر بالاحتساب والصبر عند نزول المصیبه ـ سنن النسائی الکبری، ج ۱، ص ۶۱۲، ش ۱۹۹۵، کتاب الجنایز باب الأمر بالاحتساب والصبر عند نزول المصیبه ـ سنن أبی داود، ج ۳، ص۱۹۳، ش ۳۱۲۵، کتاب الجنایز باب فی البکاء علی المیت ـ مصنف عبد الرزاق، ج ۳، ص۵۵۱، ش۶۶۷۰، باب الصبر والبکاء والنیاحه.