بخش ششم: سیرت صحابہ میں عزاداری
سیرت اصحاب میں ایک دوسرے کے لیے عزاداری
صحابہ کی طرف سے عزاداری، جن کی عدالَت اہل سنت تسلیم کرتے ہیں اور ان کے اعمال کو حجت سمجھتے ہیں، مطلق عزاداری میں بالخصوص رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فقدان کی مصیبت میں مکہ اور مدینہ کے لوگوں کی طرف سے عزاداری، صدر اسلام میں صحابہ کے درمیان عزاداری کے وجود کا ثبوت ہے اور کسی نے اس قسم کے مراسم کو بدعت وغیرہ نہیں سمجھا ہے۔
۱ ـ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وفات کے بعد مکہ کے لوگوں کی عزاداری
سعید بن مسیب کے مطابق، رسول گرامی اسلام کی وفات کے وقت، مکہ شہر لوگوں کے نالہ و گریہ سے لرز اٹھا۔
لما قبض النبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) ارتجت مکہ بصوت.
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد تمام شہر مکہ ایکپارچہ گریہ و نالہ میں مبتلا ہوا۔
اخبار مکہ، فاکہی، ج۳، ص ۸۰.
۲ ـ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سوگ میں عائشہ اور دیگر مدینہ کی خواتین کی عزاداری
عائشہ کہتی ہیں:
و قمتُ التدم (اضرب صدری) مع النساء و اضرب وجهی.
رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد میں اٹھی اور دیگر مدینہ کی خواتین کے ساتھ اس حضرت کے عزاداری میں چہرے اور سینے پر مارنے لگی۔
السیره النبویه، ج ۴، ص ۳۰۵.
۳ ـ محمد بن ابی بکر کے لیے امیر المؤمنین علیہ السلام کا گریہ
صاحب کتاب تذکرہ الخواص لکھتے ہیں:
بلغ علیا قتل محمد بن أبی بکر فبکی وتأسف علیه ولعن قاتله
محمد بن ابی بکر کے قتل کی خبر امیر المؤمنین علیہ السلام کو ملی تو حضرت اس خبر کو سن کر گریہ کیا اور افسوس کیا اور قاتلوں پر لعنت کی۔
تذکره الخواص، ص ۱۰۲.
۴ ـ عمر کا نعمان بن مقرن کے لیے عزاداری
جب نعمان بن مقرن کی موت کی خبر عمر بن خطاب کو دی گئی، وہ اس کے سوگ میں سر پر ہاتھ رکھ کر روئے۔
ابن ابی شیبہ المصنف میں لکھتے ہیں:
عن ابی عثمان: اتیتُ عمر بنعی النعمان بن مقرن، فجعل یده علی راسه و جعل یبکی.
ابو عثمان کہتے ہیں کہ میں نے عمر کو نعمان بن مقرن کی موت کی خبر دی تو انہوں نے سر پر ہاتھ رکھا اور رونے لگے۔
المصنف، ابن أبی شیبہ کوفی، ج ۳، ص ۱۷۵ و ج ۸، ص ۲۱.
۵ ـ خالد بن ولید کے لیے خواتین کی عزاداری اور عمر کی اجازت
حاکم المستدرک میں کہتے ہیں:
عن أبی وائل قال قیل لعمر بن الخطاب رضی الله عنه أن نسوة من بنی المغیره قد اجتمعن فی دار خالد بن الولید یبکین وإنا نکره أن یؤذینک فلو نهیتهن فقال عمر ما علیهن أن یهرقن من دموعهن سجلا أو سجلین ما لم یکن لقع ولا لقلقه یعنی باللقع اللطم وباللقلقه الصراخ
عمر بن خطاب سے کہا گیا کہ بنی مغیرہ کی کچھ خواتین خالد بن ولید کے گھر میں جمع ہوکر رو رہی ہیں اور ہمیں خدشہ ہے کہ یہ تمہیں تکلیف دیں گی، اگر ممکن ہو تو انہیں منع کرو۔ عمر نے کہا: کوئی حرج نہیں اگر وہ چند آنسو بہائیں، بشرطیکہ وہ خود کو نہ ماریں اور نہ ہی زور سے چیخیں۔
المستدرک علی الصحیحین، ج ۳، ص ۳۳۶.
صاحب أغانی اسی مورد میں اضافہ کرتے ہیں:
عن أبی بکر الهذلی قال سمع عمر بن الخطاب نساء بنی مخزوم یبکین علی خالد بن الولید فبکی وقال لیقل نساء بنی مخزوم فی أبی سلیمان ما شئن فإنهن لا یکذبن وعلی مثل أبی سلیمان تبکی البواکی
أبو بکر هذلی کہتے ہیں: عمر بن خطاب نے سنا کہ بنی مخزوم کی خواتین خالد بن ولید پر رو رہی ہیں تو وہ بھی خالد کے لیے روئے اور کہا: بنی مخزوم کی خواتین کو کہو کہ أبو سلیمان کے بارے میں جو چاہیں کہہ دیں، وہ جھوٹ نہیں بولتیں اور أبو سلیمان جیسے لوگوں پر گریہ کرنے والے گریہ کریں۔
الأغانی، ج ۲۲، ص ۹۸.
۶ ـ ابن مسعود کا عمر کی قبر پر گریہ
عمر کی وفات کے بعد، جب ابن مسعود ان کی قبر کے پاس کھڑے ہوئے، ان کے لیے روئے۔
فوقف ابن مسعود علی قبره یبکی
ابن مسعود عمر کی قبر کے پاس کھڑے ہوئے اور روئے۔
العقد الفرید، ج ۴، ص ۲۸۳.
۷ ـ عبداللہ بن رواحه کا حمزه پر گریہ
عبداللہ بن رواحه حمزه پر روئے اور ان کے رثا میں اشعار پڑھے۔
السیره النبویه، ج ۳، ص ۱۷۱.
مدینہ کے لوگوں اور خواتین کا امام حسین علیہ السلام کی شہادت کی خبر سن کر گریہ
طبری اپنی تاریخ میں نقل کرتے ہیں:
لما قتل عبید الله بن زیاد الحسین بن علی و جیء برأسه إلیه دعا عبد الملک بن أبی الحارث السلمی فقال: انطلق حتی تقدم المدینه علی عمر بن سعید فبشّره بقتل الحسین – وکان عمرو أمیر المدینه -… قال عبد الملک فقدمت المدینه، فلقینی رجل من قریش فقال: ما الخبر؟ فقلت: الخبر عند الأمیر؛ فقال إنا لله وإنا إلیه راجعون؛ قتل الحسین بن علی.
جب عبید اللہ بن زیاد نے حسین بن علی علیہما السلام کو قتل کیا اور ان کا سر مبارک عبد الملک بن أبی الحارث سلمی کے پاس لایا تو اس نے کہا: ان کو مدینہ کی طرف لے جاؤ اور حسین کی شہادت کی خبر مدینہ کے لوگوں کو دو… عبد الملک کہتے ہیں کہ میں مدینہ آیا، ایک قریش کے شخص سے ملاقات ہوئی اور اس نے مجھ سے پوچھا: کیا خبر؟ میں نے کہا: خبر امیر کے پاس ہے؛ اس نے کہا: إنا لله وإنا إلیه راجعون؛ حسین بن علی قتل ہوگئے۔
پس میں عمرو بن سعید، حاکم مدینہ کے پاس گیا، انہوں نے کہا: تمہارے پاس کیا خبر ہے؟ میں نے کہا: وہ جو امیر نے چھپائی ہے؛ حسین بن علی قتل ہوگئے ہیں؛ انہوں نے حکم دیا کہ مدینہ میں اعلان کریں اور حسین کی شہادت کی خبر سنائیں۔
خدا کی قسم! میں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی ایسا نالہ نہیں سنا جیسا کہ مدینہ کی خواتین نے اپنے گھروں میں امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر کیا۔
تاریخ طبری، ج ۳، ص ۳۴۲.
بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر…
بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…
بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…
بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…
دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…
مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…