بخش هفتم: عزاداری در اہل سنت
گریہ و اشک اهل سنت کے علماء کی نظر میں
اہل سنت کے علماءکے گریہ و نوحه کے بارے میں فتاویٰ
اس بحث کے آغاز میں اہل سنت کے بعض علمائے کے گریہ و نوحه کے بارے میں فتاویٰ پر غور کرتے ہیں تاکہ یہ دیکھیں کہ کیا میت کے لیے گریہ و بکاء کبیرہ گناہ اور ناقابل معافی سمجھا جاتا ہے؟!
نووی اپنی کتاب «المجموع» میں علماء کے آراء کو جمع کرتے ہیں:
۱ ـ جمہور علماء کا کہنا ہے کہ: حرمت گریہ و نوحه وہاں محدود ہے جہاں شخص نے وصیت کی ہو کہ اس کے لیے گریہ و نوحه کیا جائے۔ نووی نے بھی یہی قول اختیار کیا ہے۔
۲ ـ ایک گروہ کا کہنا ہے کہ: حرمت وہاں ہے جہاں شخص نے نوحه و گریہ سے پرہیز کی وصیت نہ کی ہو۔
۳ ـ ایک گروہ کا یہ نظریہ ہے کہ: حرمت وہاں ہے جہاں بازماندگان، میت کو ایسی صفات اور محاسن سے بیان کریں جو شرع میں جائز نہیں ہیں؛ جیسے یہ کہنا کہ: اے یتیم کرنے والے بچوں کو اور اے بیوہ کرنے والے عورتوں کو اور اے برباد کرنے والے بستیوں کو اور اس طرح سے گریہ کریں۔
۴ ـ اور ایک گروہ کا یہ نظریہ ہے کہ: میت اپنے اہل و عیال کے گریہ و بکاء کی آواز سن کر عذاب میں مبتلا ہوتا ہے اور ان کے حال پر افسوس کرتا ہے۔ یہ قول و نظر محمد بن جریر اور قاضی عیاض کا ہے۔
اور آخر میں یہ نکتہ علماء کا اجماع مانا جاتا ہے: اور سب نے اپنے مذاہب کے اختلاف کے باوجود اس بات پر اجماع کیا ہے کہ گریہ اور بکا کا مطلب آواز اور نوحہ کے ساتھ ہے نہ کہ محض آنکھوں کا آنسو۔
تمام علماء اختلاف مذهب کے باوجود اس بات پر متفق ہیں کہ ممنوع گریہ اور بکا وہ ہے جو آواز اور نوحہ کے ساتھ ہو نہ کہ مطلق گریہ۔
المجموع، نووی، جلد ۵، صفحہ ۳۰۸۔
تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات درست نہیں کہ مطلق گریہ اور بکا اہل سنت کے علماء کے نزدیک ممنوع اور حرام ہے۔
امام حسین علیہ السلام کے لیے عزا کی برپائی ۳۵۲ھ میں
ذہبی نے ۳۵۲ھ کے عزا داری کے واقعات کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا:
ثابت نے کہا: معز الدولہ نے لوگوں کو بازار بند کرنے کا حکم دیا اور آٹادینے والوں اور پکانے والوں کو کھانا پکانے سے روک دیا، اور بازاروں میں عزا کے علم نصب کیے اور ان پر خستہ کپڑے لٹکائے، اور خواتین کو جن کے بال بکھرے ہوئے تھے اور چہرے پیٹے ہوئے تھے، گلیوں اور سڑکوں پر نکال دیا تاکہ وہ حسین علیہ السلام کے غم میں عزا داری کریں اور نوحہ کریں، اور یہ بغداد میں پہلی بار نوحہ کرنا تھا۔
تاریخ الاسلام، جلد ۲۶، صفحہ ۱۱۔
امام حسین علیہ السلام کے لیے عزا سبط ابن جوزی (اہل سنت کے علماء) کے ذریعہ
دوسری طرف، اہل سنت کے علماء میں سے کچھ ایسے ہیں جو خود امام حسین علیہ السلام کے عزادار رہے ہیں۔
ابن کثیر اپنے تاریخ میں لکھتے ہیں:
عاشورا کے دن سبط ابن جوزی سے کہا گیا کہ وہ منبر پر چڑھیں اور لوگوں کو امام حسین علیہ السلام کے قتل اور شہادت کے بارے میں بتائیں۔ سبط ابن جوزی نے اس درخواست کو قبول کیا اور منبر پر بیٹھ گئے، انہوں نے ایک طویل خاموشی کے بعد، اپنی رومال کو چہرے پر رکھا اور شدید گریہ کیا اور پھر جبکہ وہ رو رہے تھے، یہ دو اشعار پڑھے:
وہیل لمن شفعاؤه خصماؤه و الصور فی نشرالخلایق ینفخ
لابد أن ترد القیامه فاطم و قمیصها بدم الحسین ملطخ
افسوس ہے اس پر جس کا شفیع اس کا دشمن ہو! قیامت کے دن، جب لوگوں کو زمین سے نکالنے کے لیے صور پھونکا جائے گا۔
قیامت میں فاطمہ زہراء محشر میں آئیں گی، جبکہ ان کا پیراہن حسین علیہ السلام کے خون سے آلودہ ہوگا۔
پھر سبط ابن جوزی منبر سے نیچے اترے اور روتے ہوئے اپنے گھر چلے گئے۔
البدایه و النهایه، جلد ۱۳، صفحہ ۲۰۷ (واقعات ۶۵۴ ہجری قمری)۔
عبدالمؤمن (م ۳۴۶ھ) کے لیے عزاداری
عبدالمؤمن بن خلف، ظاہری مکتب کے فقیہ اور محمد بن داود کے پیروکار ہیں۔ نسفی نے ان کی جنازہ اور عزاداری کا ذکر کیا ہے۔
تاریخ مدینہ دمشق، ابن عساکر، جلد ۱۰، صفحہ ۲۷۲ ـ سیر اعلام النبلاء، جلد ۱۵، صفحہ ۴۸۰۔
جوینی (م ۴۷۸ھ) کے لیے عزاداری
ذہبی جوینی کی وفات اور ان کے سوگ کی تقریب کا اس طرح ذکر کرتے ہیں:
وہ اپنے والد کی قبر کے پاس دفن کیے گئے، اور ان کے منبر کو توڑا گیا، اور بازار بند کردیے گئے، اور ان کے رثا میں قصیدے پڑھے گئے، اور ان کے تقریباً چار سو شاگرد تھے، انہوں نے اپنے قلم اور دوات توڑ دیے، اور ایک سال عزاداری کی، اور ایک سال بھر اپنی سر سے منادیل (چفیہ جیسے کپڑے) ہٹائے، اور اتنی زیادہ شدت تھی کہ کوئی بھی اپنی سر پر کپڑا ڈالنے کی جرأت نہیں کرتا۔ اور اس دوران طلباء شہر میں گلیوں اور بازاروں میں گھومتے رہے اور نوحہ پڑھتےرہے اور چیخ و پکار میں مبالغہ کرتے رہے۔
سیر أعلام النبلاء، جلد ۱۸، صفحہ ۴۷۶۔
اگرچہ عبدالمؤمن کے شاگردوں کی عزاداری پر کوئی بات نہیں ہے، مگر بعض حرکتیں اور افراط جیسے کہ منبر، دوات، قلم توڑنا اور ایک سال تک منادیل ہٹائے رکھنا، اور کسی کو بھی پارچہ سر پر ڈالنے سے روکنا، ہرگز قابل توجیہ نہیں؛ لہذا، شاید ذہبی نے صرف اسی معاملے میں تبصرہ کیا ہے۔ اس لیے کہا ہے:
قلت: هذا کان من زی الأعاجم لا من فعل العلماء المتبعین۔
یہ حرکتیں عجموں کی شان سے ہیں، اور تابعین علماء سے متوقع نہیں ہیں۔
سیر أعلام النبلاء، جلد ۱۸، صفحہ ۴۷۶۔
ابن جوزی (م ۵۹۷ھ) کے لیے عزاداری
ذہبی ان کی وفات کے ردعمل کے بارے میں لکھتے ہیں:
اور وہ جمعہ کی رات کو رمضان کی تیرہویں رات کو وفات پا گئے… ان کی وفات کے ساتھ بازار بند کردیے گئے اور لوگوں کی بڑی تعداد ان کے مراسم میں شامل ہوئی، لوگوں کی کثرت اور گرمی کی شدت کی وجہ سے بہت سے سوگواروں نے روزہ توڑ دیا! بعض لوگوں نے خود کو دجلہ میں پھینک دیا… کفن کا کچھ حصہ رہ گیا… لوگ رمضان کے آخر تک ان کی قبر کے کنارے رات گزارتے رہے، انہوں نے موم بتیوں، لالٹینوں اور چراغوں کے ساتھ قرآن ختم کیا۔ ہم نے ہفتے کے دن عزاداری کا اہتمام کیا، خطیبوں نے ان کے بارے میں گفتگو کی، بہت سے لوگوں نے شرکت کی اور ان کے بارے میں مرثیہ کہا گیا…
سیر أعلام النبلاء، جلد ۲۱، صفحہ ۳۷۹۔
آسمان کا عمر بن عبدالعزیز کی وفات پر رونا
خالد ربعی نے کہا: تورات میں لکھا ہے کہ آسمان اور زمین عمر بن عبدالعزیز کی موت پر چالیس دن تک روتے رہیں گے!!!
الروض الفائق، صفحہ ۲۵۵ ـ الغدیر، جلد ۱۱، صفحہ ۱۲۰
آسمان کا ابن عساکر (متوفی ۵۷۱ھ) کی وفات پر رونا
اس کے بیٹے نے کہا: اس سال بارش رک گئی تھی؛ پھر ابن عساکر کی وفات اور جنازہ اٹھانے کے بعد آسمان نے اس طرح بارش کی کہ جیسے آسمان کے آنسو شدید اور وافر بارش میں بہہ رہے ہوں۔
معجم الادباء، جلد ۴، صفحہ ۴۱، مطرت بناحیہ بلخ دماء عبیطا سنہ ۲۴۶، صفحہ ۱۷۔
دوگنارویہ ،علماء اہل سنت کا
لیکن ان تفصیلات کے ساتھ یہ کیا ہوتا ہے کہ اہل سنت کے بڑے مورخین جب امام حسین علیہ السلام کے چاہنے والوں کی عزاداری اور ماتم کا ذکر کرتے ہیں تو اس جائز عمل کو ناپسند کرتے ہیں اور اپنی سخت اور جارحانہ رائے کو چھپانے میں ناکام رہتے ہیں؟!!
ذہبی جب بغداد کے لوگوں کا امام حسین علیہ السلام کے لئے عزاداری کا ذکر کرتا ہے تو وہ لکھتا ہے:
“سال 352 ہجری: عاشورا کے دن معز الدولہ نے اہل بغداد کو حسین بن علی رضی اللہ عنہ کے لئے نوحہ اور ماتم کرنے پر مجبور کیا، اور بازاروں کو بند کرنے، عزا کی علامتیں لٹکانے، اور پکوان بناےوالوں کو کھانا پکانے سے روکنے کا حکم دیا۔ اور شیعہ خواتین بال بکھیر کر، چہرے کو پھیلا کر، ماتم کرتے ہوئے، لوگوں کو فتنہ میں ڈالتے ہوئے باہر نکل آئیں۔ اور یہ پہلا موقع تھا کہ نوحہ کیا گیا۔”
“اللہم ثبت علینا عقولنا.”
“خدایا ہمیں مضبوط عقل عطا فرما!”
“العبر فی خبر من غبر، ذہبی، ج 1، ص 146، تعداد الاجزاء: 4، مصدر کتاب: موقع الوراق،”
اور ذہبی ایک اور جگہ عاشورا کی عزاداری کے بارے میں لکھتا ہے:
“رافضیوں (شیعوں) نے عاشورا کے دن جاہلیت کا شعار بلند کیا…”
“تاریخ الاسلام، ذہبی، ج 26، ص 43”
“رافضیوں (شیعوں) نے اس دور میں اپنے گمراہ کن عمل کو عاشورا پر ماتم اور آہ و بکا کے اعمال کے ساتھ جاری رکھا۔”
“العبر، ذہبی، ج 3، ص 44”
ذہبی سال 388 ہجری کے واقعات میں یوں بیان کرتا ہے:
“اور عاشورا کے دن کے مقابلے میں آٹھ دن بعد مصعب بن زبیر کی شہادت کے دن کے طور پر مقرر کیا گیا اور اس دن مصعب بن زبیر کی قبر کو مسکن میں اسی طرح زیارت کی جاتی ہے جیسے امام حسین علیہ السلام کی قبر زیارت کی جاتی ہے…”
“تاریخ الاسلام، ذہبی، ج 27، ص 25”
ابن کثیر بھی یوں بیان کرتا ہے:
“رافضیوں (شیعوں) نے اپنی شنیع بدعت کو عمل میں لایا…”
“البدایہ والنہایہ، ابن کثیر، ج 11، ص 302”
اتابکی نویں صدی کے اہل سنت علماء میں سے عزاء کے قیام کا ذکر کرتے ہیں:
“علی بن اخشید کے مصر پر حکمرانی کے تیسرے سال، یعنی 352 ہجری میں، معز الدولہ نے لوگوں کو بازاروں کو بند کرنے، پکوان بنانےوالوں کو کھانا پکانے سے روکنے، اور بازاروں میں عزا کے خیمے نصب کرنے کا حکم دیا، اور حسین بن علی رضی اللہ عنہ کے لئے مجالس عزاء قائم کیں… اور تمام یہ رافضی اور خبیث تھے۔”
“النجوم الزاہرہ (جمال الدین اتابکی)، ج 2، ص 334”
اب یہ لوگ جو امام حسین علیہ السلام کی مجالس عزاء کے بارے میں اتنی سخت اور متعصب زبان استعمال کرتے ہیں، وہ سنی علماء کے سوگ اور عزاداری کے مناظر کو بغیر کسی تجزیہ یا تنقید کے بیان کرتے ہیں اور آسانی سے ان سے گزر جاتے ہیں۔
تحقیقی خلاصہ
پچھلے حصوں میں ذکر کردہ مثالوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان مردہ پر عزاداری اور گریہ کرنا جائز ہے، کیونکہ تمام مثالیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عملی سیرت سے مستند ہیں، اور یہ کم تعداد میں لوگوں کی سطحی سوچ کو رد کرتی ہیں جو دین سے خرافات کو دور کرنے کے بہانے ہر مخالف عقیدہ اور فکر پر حملہ آور ہوتے ہیں۔
اس مباحثے سے درج ذیل اہم نکات اخذ کیے گئے:
1.مصیبتوں اور عزیزوں کی موت پر رونا پسندیدہ اور تعریف کے قابل ہے۔
2.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت، امام حسین علیہ السلام کی موت پر عزاداری کرنے والے لوگوں کی باتوں کو چیلنج کرتی ہے اور ان پر بطلان کا نشان لگاتی ہے۔
3.انسانی روح کی نرمی اور مصیبتوں کے سامنے قدرتی جذبات، انسانی حقیقت کا حصہ اور خدا کی طرف سے رحمت ہے۔
آخر میں یہ کہ امام حسین علیہ السلام کے لئے عزاداری نہ صرف یہ کہ ابن تیمیہ اور ان کے پیروکاروں کے مطابق بدعت نہیں ہے، بلکہ چونکہ شیعہ کے نزدیک عدل قرآن کریم اور مفسرین قرآن کے ہم پلہ ہے؛ اور یہی لوگ ہمیں سنت نبوی کی وضاحت اور تفسیر کرتے ہیں، اور ان کی باتیں صحیح اور متواتر حدیث کے نصوص کے مطابق شرعی حجت ہیں، اس لیے ہر صحیح سند کے ساتھ جو کچھ ہم تک پہنچتا ہے، وہ ہمارے اور اللہ کے درمیان شرعی حجت ہوگا، اور قرآن کریم اور صحیح سنت نبوی کی حجت میں اضافہ ہوگا۔ ہمارے نزدیک امام حسین علیہ السلام کے عزاداری کی تکریم اسی طرح ہے، کیونکہ معصومین علیہم السلام کی طرف سے صحیح اور متواتر احادیث آئی ہیں جو کسی اور کی عزاداری کے لیے نہیں آئی ہیں۔
لہذا ہمارے نزدیک شرعی حکم یہ ہے کہ:
امام حسین علیہ السلام کے لئے عزاداری کرنا، جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل بیت معصومین علیہم السلام کی فضائل و مناقب کا ذکر ہوتا ہے، دین و شریعت کے احکام بیان کیے جاتے ہیں، اور آخر میں ان بزرگوار کی مصیبتیں بیان کی جاتی ہیں اور ان پر روتے ہیں، ایک مستحب مؤکد عمل ہے، جو اللہ تعالی کے نزدیک بہترین قربت میں شمار ہوتا ہے۔
بخش پنجم: امام حسین کی عزاداری معصومین کی سیرعت میں الف:کربلا واقع ہونے سے بہت…
بخش چهارم: سنت نبوی میں امام حسین علیہ السلام کی عزاداری رسول اللہ صلی اللہ…
بخش سوم: مقام گریہ اور آنسو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت…
دوسرا حصہ: قرآن اور پیغمبروں کی نظر میں رونے اور آنسوؤں کی اہمیت 1 ـ…
مقدمہ: یہ بات واضح ہے کہ عزاداری اور خوشی منانا ایک فطری امر ہے جو…
تاریخ میں ہمیشہ وہابیت کی طرف سے حضرت امام حسین علیہ السلام کے قیام اور…