مسلمانوں میں دہشت گردی کا بیج کس نے بویا؟

ساری دنیا اس بات کا اعتراف کرتی ہے کہ اسلام ایک امن پسند دین ہے۔ ہر مذہب کےغیرجانبدار مفکّرین اور انصاف پسندافراد اسلام کی تعلیمات کی قدر کرتے ہیں۔ اس دین میں ہر ایک کے حقوق کا خیال رکھا گیا ہے۔ اس دین نے اپنے ماننے والوں کو نہ صرف انسان کا ہی ناحق خون بہانے سے روکا ہے بلکہ بے زبان جانوروں کو بھی اذیّت دینے سے منع کیا ہے۔ اتنا ہی نہیں’انسانی حقوق’ کاجتنا بلند معیار اسلام میں ہے اتنا کسی اور مذہب میں نہیں ہے۔ اہل اسلام کی تو تعریف ہی اس طرح کی جاتی ہے کہ مسلمان وہ شخص ہے جس کے اعضاء و جوارح سے دوسرے افراد امان میں ہوں۔ کسی کو برا کہنا تو دور کسی کے بارے میں برا سوچنے پر بھی اس دین میں پابندی لگائ گئ ہے۔
المیہ یہ ہے کہ جو افراد اسلام کی تعریف کرتے ہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اسلام سب سے بہتر مذہب تو ہے مگر اس کے پیروکار ہونے کا دعویٰ کرنے والوں میں ہی سب سے بدتر افراد پائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ اسلام کے نام پر ساری برائیاں کر گزرتے ہیں۔ بدقسمتی تو یہ ہے کہ آج لفظِ مسلمان کے ساتھ خون خرابا، دہشت گردی اور آتنک واد کے لیبل جڑ گئے ہیں۔ ایک داڑھی والا شخص جس کے ماتھے پر سجدے کے نشان بھی ہوں اسے لوگ وحشت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ آخر یہ حالات کیوں ہوئے ہیں؟آخر یہ دہشت گردی کا ماحول کس نے بنایا ہے؟
یہ کہنا کہ اس میں اسلام دشمن طاقتوں کا ہاتھ ہے- شائد کچھ حد تک صحیح بھی ہو۔ مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ کچھ حکومت کے بھوکے نام نهاد مسلمانوں نے ہی اسلام کے نام پر دہشت گردی پھیلائ ہے۔ جی ہاں!!اس کی وجہ خود مسلمان ہیں۔ آج کے دور میں داعش اور طالبان اس کی زندہ مثالیں ہیں۔
تاریخ کی کتابوں میں مسلمانوں میں سب سے پہلا دہشت گردی کا واقعہ ہم بعد از وفات رسولؐ دیکھتے ہیں۔ یہ واقعہ آپؐ کی رحلت کے فورًا بعد رونما ہوا – جب عمر اور ان کے حامی خلیفہ اوّل ابوبکر کے لیے جبرًا بیعت طلب کر رہے تھے۔ انھوں نے اس معاملے میں کسی کے ساتھ کوئ رعایت نہیں کی۔ حتیٰ کہ خود جگر گوشۂ رسولؐ اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلم جناب فاطمہ صلوات الله علیہا کے گھر پر بھی حملہ کیا گیا۔ ان کو اور ان کے کمسن بچّوں کو ان کے گھر میں زندہ جلا دینے کی کوشش بھی کی گئ۔ یہ دہشت گردی کا پہلا واقعہ ہے۔ یہ واقعہ نہ صرف یہ کہ اہل تشیّع کی کتابوں میں درج ہے بلکہ اہل تسنّن کی مستند کتابوں میں بھی نقل کیا گیا ہے۔ یہ وہ واقعہ ہے جس نے اسلام میں آتنکواد کی بنیاد رکھی ہے۔
اس دردناک واقعہ کو بطور استدلال ہم اہل تسنّن کے عالم ابن قتیبہ کی كتاب الإمامة والسياسة المعروف بتاريخ الخلفاء سے نقل کررہے ہیں:
إنّ أبابكر رضي اللَّه عنه تفقّد قوماً تخلّفوا عن بيعته عند علي كرم اللَّه وجهه، فبعث إليهم عمر فجاء فناداهم و هم في دار علي، فأبوا أن يخرجوا فدعا بالحطب، و قال: والذي نفس عمر بيده لتخرجنّ أو لأحرقنها علي من فيها، فقيل له: يا أباحفص انّ فيها فاطمة، فقال: وإن.إلي أن قال:
ثمّ قام عمر فمشي معه جماعة حتي أتوا فاطمة فدقوا الباب فلما سمعت أصواتهم نادت بأعلي صوتها: يا أبت [يا] رسول اللَّه، ماذا لقينا بعدك من ابن الخطاب، و ابن أبي قحافة، فلما سمع القوم صوتها و بكاءها انصرفوا باكين.
(ابن قتيبة: الامامة و السياسة)
جب ابوبکر کے لیے بیعت طلب کی جارہی رہی تھی تو اس موقع کچه لوگوں نےبیعت کی مخالفت کی اور وه سب حضرت علی کے پاس جمع تهے تو عمر کو علیؑ کے گھر بھیجا گیا۔عمر علیؑ کے گھر پر آۓ اور ان کو ابوبکر کی بیعت کرنے کے لیے بلایا مگر سب نے گھر سے باہر آنے سے انکار کردیا اس پر عمر نے کہا: قسم اس ذات کی کہ جس کی قدرت میں عمر کی جان ہے!میں اس گھر کو اس کے اہل کے ساتھ جلا دوں گا۔ اس سے کہا گیا:۔۔۔اس گھر میں فاطمہؐ بھی ہیں۔ عمر نے جواب دیا: پھر بھی میں جلا دوں گا۔ یہاں تک کہ عمر نے فاطمہؐ کے گھر پر حملہ کرنے کے لیے لکڑیاں منگوائ ۔ جب فاطمہؐ نے اپنے گھر کے دروازے پر اس ہجوم کا شور و غل سنا تو فریاد کرنے لگیں: ” اے بابا! اے رسول الله! (دیکھیے) آپؐ کے بعد عمر اور ابوبکر ہمارے ساتھ کیسا سلوک کر رہے ہیں۔”
جب آپؐ کی فریاد لوگوں نے سنی تو سب رونے لگے..۔

جناب فاطمہ سلام الله علیہا پر جو ظلم ہوا اس کا متعدّد سیرت نگار اور تاریخ دان اہل تسنّن علماء نے اعتراف کیا ہے اور اپنی کتابوں میں بھی اسے نقل کیا ہے۔ جناب فاطمہ علیہا السّلام کے گھر پر آگ لگائے جانے کا ذکر مختلف انداز میں مستند اور معتبر کتابوں میں آیا ہے۔اس واقعہ کو نقل کرنے والےمورّخین کی ایک طویل فہرست ہے جنھوں نے اسے کم و بیش اپنی تالیفات میں جمع کیا ہے۔ ان میں سے ہم یہاں کچھ کا ذکر کر رہے ہیں:-
1) محمد بن جرير الطبري(۲۲۴- ۳۱۰) :- التاريخ والتفسير
2) ابن عبد ربه :العقد الفريد ،باب:
«الذين تخلّفوا عن بيعة أبي بكر»
3) أبوعمرو يوسف بن عبداللَّه بن محمد بن عبد البر (۳۶۸- ۴۶۳ ه) :«الاستيعاب في معرفة الأصحاب»
4) احمد بن عبد العزیز الجوہری: كتاب السقيفة
5) ابن ابي الحديد: شرح نهج البلاغة
6) إسماعيل بن علي المعروف بأبي الفداء (المتوفّي عام ۷۳۲ ه) كتاب: المختصر في أخبار البشر
7) جلال الدين عبدالرحمن السيوطي (۸۴۸- ۹۱۱ ه) كتاب: مسند فاطمة
8) علي بن حسام الدين المعروف بالمتقي الهندي (المتوفّي عام ۹۷۵) كتاب:كنزالعمال
9) ابن أبي شيبة: المصنف
10) ولي اللَّه بن مولوي عبدالرحيم العمري، الدهلوي، الهندي، الحنفي (۱۱۱۴- ۱۱۷۶ ه) کتاب: إزالة الخفاء
11) عمر رضا كحالة من الكتاب المعاصرين اشتهر كتاب:أعلام النساء۔
اس واقعہ کے بعد جناب فاطمہ سلام الله ان دونوں- ابوبکر و عمر سے سخت ناراض رہیں۔ اس ناراضگی کا ذکر اوراس واقعہ کی طرف اشارہ دیگر کتابوں میں بھی ملتا ہے- جیسے یہ کہ خود ابوبکر نے اپنی زندگی کے آخری لمحات میں اپنے کیے ہوئے ظلم کا اعتراف کیا ہے۔
یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ ہر قوم کے افراد اپنے پیشوا کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں۔ اس واقعہ نے امّت مسلمہ پر ایک گہرا اثر چھوڑا ہے اور روز اول سے ہی مسلمان حاکموں نے اسی طرح مسلمانوں پر ظلم کیا ہے۔ بنی امیہ اور بنی عبّاس کی تاریخ خون خرابے سے بھری پڑی ہے۔ اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آج جو دہشت گردی اسلام کے نام پر ہورہی ہے ان سب کی بنیاد وفاتِ سرورِ کائنات کے بعد ہی پڑگئ تھی۔

Short URL : https://www.saqlain.org/g1c2