yazid

یزید ابن معاویہ کے متعلق مسلمانوں کا موقف:

مسلمانوں کی تاریخ میں آپ کو بہت سے ظالم و جابرسلاطین اور بادشوں کا ذکر ملے گا۔ مگر جتنا بڑا جرم یزید ابن معاویہ کا ہے اتنا کسی اور کا نہیں۔ اس کی حکومت تین سال رہی اور ان تین سالوں میں نہ صرف یہ کہ اس نے مسلمانوں میں بے گناہ مقدس ہستیوں کا خون بہایا بلکہ بڑے بڑے جرائم بھی انجام دیے۔ اس کی افواج نے اس کے حکم پر مدینہ منوّرہ پر حملہ کیا، مسجد نبویؐ کی بے حرمتی کی اور بہت سے اصحاب و تابعین کا خون بہایا پھر مکّہ پر حملہ کیا اور خانہ خدا ‘کعبة اللہ’ کو آگ لگائ۔ کربلا میں سبط اصغر امام حسینؑ اور ان کے خاندان کے افراد کو شہید کرنا اور ان کے اہل حرم کو قیدی بناکر کوفے اور شام کے بازاروں میں پھرانا اور سر دربار لے آنا اس کا سب سے بڑا جرم ہے۔ مختصر یہ کہ اپنے دور حکومت میں یزید نے اسلام کی تمام مقدس چیزوں کی حرمت کو پامال کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کےجیسا بد کردار ، فاسق، فاجر اور ظالم بادشاہ آپ کو تاریخ انسانیت میں نہیں ملے گا۔

تمام عالم اسلام اس بات کو قبول کرتا ہے کہ یزید کی حکومت کا دور تاریخ اسلام کا سب سے زیادہ سیاہ دور تھا، مگر خود یزید کے بارے میں مسلمانوں میں اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔ مکتب اہلبیت اہل تشیع کے نزدیک یزید کھلا ہوا دشمن اہلبیت اور ناصبی ہے اس لیے وہ کافر ہے اور بنص قرآن اس پر لعنت کرنا مستحسن عمل ہے۔ نہ صرف یزید بلکہ جو بھی یزید کے فعل سے راضی ہوا وہ بھی لعنت کا مستحق ہے۔ شیعوں کے یہاں یہ ایک اصولی بات ہے جس پر تمام شیعہ علماء اتفاق رکھتے ہیں۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کا یہ قول شیعوں کے عقیدے کا ایک اہم جز ہے: من شك في كفر أعدائنا والظالمين لنا فهو كافر. “جو ہمارے دشمنوں اور ہم پر ظلم کرنے والوں کے کفر پر شک کرے وہ خود کافر ہے۔”
(الاعتقادات: 103)

بحار الأنوار – ج ٨ – ص ٣٦٦ پر علامہ مجلسی نے اس قول کو نقل کیا ہے اور بزرگ شیعہ علماء کا اس حدیث کے معتقد ہونے کا ذکر بھی کیا ہے۔ لہٰذا یزید کے بارے میں شیعوں کی کتابوں میں لعنت کے سوا آپ کو کچھ نہیں ملے گا۔
اس موضوع پر اہل تسنن کے یہاں آپ کو اختلاف رائے نظر آے گا۔ ایک گروہ یزید کو واقعہ کربلا کے لیے پوری طرح ذمہ دار مانتا ہے اور اس پر لعنت کرنے کے حق میں ہے۔
وہ اہل تسنن علماء جو یزید کو قتل حسینؑ کا مجرم شمار کرتے ہیں اور اس پر لعنت کرنے کو جائز سمجھتے ہیں ان کی ایک کثیر تعداد ہے۔ ان میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں۔
علامہ جلال الدین سیوطی، فقہا میں امام مالک، امام شافعی، امام ابو حنیفہ، امام أحمد بن حنبل۔ ان کے علاوہ علامہ تفتازاني، المناوي، سبط ابن الجوزي،الشهاب الآلوسي، البرزنجنی، ابن حجر ہيثمي، ابو الفرج ابن الجوزی وغیرہ۔
اہل تسنن کا دوسرا گروہ جو اس پہلے گروہ سے اختلاف رکھتا ہے وہ یزید کوصرف ایک بادشاہ کی طرح دیکھتا ہے اور اس کو ایک مسلمان ، فاسق بادشاہ کے طور پر تسلیم کرتا ہے اور ان کی نظر میں اس پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے۔
اس گروہ کے علماء ابن کثیر، ابن تیمیہ وغیرہ یزید کو کربلا کے واقعے کے لیے ذمہ دار نہیں مانتے بلکہ اس کی طرف سے وکالت بھی کرتے ہیں۔ (ان شاء اللہ کسی دوسرے مضمون میں ان کی اس باطل فکر پر تبصرہ کیا جائے گا۔)

کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ امام غزالی بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ یہ گروہ یزید کے لیے لعنت کرنے کو جائز نہیں مانتا بلکہ اس کے لیے ‘رضی اللہ’ اور رحمہ اللہ’ استعمال کرتا ہے۔ تیسرا گروہ وہ ہے،جو یزید کو مجرم تو مانتا ہے مگر اس پر لعنت کرنے سے گریز کرتا ہے۔ اس کے نزدیک یزید پر لعنت کرنا جائز تو ہے مگر خاموشی اختیار کرنا ہی بہتر ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ جو گروہ یزید کی حمایت کرتا ہے اور اس کو اتنے بڑے بڑے جرائم انجام دینے کے باوجود مسلمان سمحھتا ہے یہ وہی گروہ ہے جو محسن اسلام جناب ابوطالبؑ کی عظیم خدمات اور سرورِ کائناتؐ کے لیے جاں نثاری کے باوجود ان کو کافر تصور کرتا ہے۔ واضح ہے کہ یہ گروہ صرف بنی امیہ کا پیرو ہے اور ان کا حمایتی ہے۔ اتنا ہی نہیں اس گروہ کے علماء اپنے علاوہ بقیہ تمام اسلامی فرقوں کو کافر اور بدعتی شمار کرتا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس گروہ کو نہ اسلام کی سمجھ ہے اور نہ مسلمانوں سے ہمدردی. یہ وہ لوگ ہیں جو طرح کے افراد کو گلے لگانہ میں کوی مضایقہ نہیں سمجھتے ایسے افراد کسی نہ کسی بہانہ سے ایک دن شیطان کو بھی قابل احترام جاننے لگیں تو حیرت کی بات نہ ہوگی.