باغ فدک کی آمدنی کتنی تھی؟؟

 

قرن اول سے اسلام میں باغ فدک کی زمین کی ایک تاریخی حیثیت رہی ہے۔ حضور اکرم (ص) کی رحلت کے بعد سے زمین کے اس خطّے پر غاصبین خلافت کا غاصبانہ قبضہ رہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ خلفاء کی حمایتی اس معاملہ کی
اہمیت کو کم کرنے کی ہمیشہ سے کوشش کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خلیفہ اول کو باغ فدک سے کوئ خاص دلچسپی نہیں تھی کیونکہ اس سے ہونے والی آمدنی بہت کم تھی ، ان کا مقصد صرف یہ تھا کہ مسلمانوں کو ان کا حصّہ مل جائے۔ اس مضمون میں ہم ان کے اس جملہ کی پڑتال کریں گے کہ کیا واقعًا باغ فدک کی در آمد بہت کم تھی جو خلیفہ اول کو اس میں کوئ دلچسپی نہ تھی؟؟؟
اس سوال کے جواب کے لیے ہم طرفین کی کتابوں سے ایک مختصر جائزہ پیش کر رہے ہیں:-
• باغ فدک کی سالانہ در آمد چوبیس ہزار (٢۴٠٠٠)دینار، اور ایک دوسری روایت کے مطابق ستر ہزار (٧٠٠٠٠) دینار تھی۔ (سفینة البحار ج ٢ ص ٣۵١، ناسخ التواریخ، حصہ فاطمہ زہرا (س) ص ١٢١)

• ابو داوٴد کہتے ہیں کہ جس وقت عمر بن عبدالعزیز خلیفہ ہوا اس وقت فدک کی در آمد چالیس ہزار (۴٠٠٠٠) دینار تھی۔ (سنن ابی داوٴد، کتاب الخراج ح ٢۵٨٠)

• معتزلی عالم ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ عمر بن عبد العزیز نے جب فدک اپنے قبضہ میں لیا اور یہودیوں سے آدھے حصے کی قیمت کا حساب کتاب کیاگیا تو ان کے آدھے حصے کی قیمت پچاس ہزار (۵٠٠٠٠) درہم ہوئ۔ (شرح نہج البلاغہ ج ۴ ص ١٠٨)

• یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ رسولِ اسلام (ص) کے زمانے میں فدک کی درآمد سے ہی لشکر اسلام کے اخراجات پورے کیے جاتے تھے۔ یہ بات باغ فدک کی مالی اہمیت کو واضح کرتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ خلیفۂ دوم، اس وقت ابوبکر پر برس پڑے جس وقت خلیفہ اول نے جناب فاطمہ (س) کو فدک لوٹانے کے لیے دستاویز لکھ دیا تھا۔ عمر نے اس دستاویز کو جناب سیدہ (س) سے جبرًا چھین لیا اور پھاڑ دیا اور ابوبکر سے غضبناک انداز میں کہا:” اگر تم فدک، فاطمہ (س) کو واپس کردیتے ہو تو پھر لشکر و فوج کے اخراجات کہاں سے پورا کروگے؟ اگر فدک فاطمہ (س) کو دے دیتے ہو تو دشمن سے دفاع کرنے والی فوج کا خرچ کہاں سے پورا ہوگا جبکہ پورا عرب تم سے برسر پیکار ہے؟ (سیرة الحلبیہ ج ٣ ص ۴٨٨)

پس عمر کے ان جملوں سے یہ بھی ثابت ہے کہ فدک کی آمدنی کوئی معمولی آمدنی نہیں تھی بلکہ پورے عرب سے ٹکرلینے کے لیے اس کی درآمد پر انحصار کیا جارہا تھا۔ ارباب حکومت جانتے تھے اگر فدک جناب فاطمہ (س) کے قبضے میں رہا اور وہ اس کو اپنے پیروکاروں پر خرچ کرتی رہیں تو موجودہ حکومت کے مخالفین کی طاقت روز بروز بڑھتی رہے گی اور وہ موقع پاکر حکومت سے ٹکر لینے پر آمادہ ہو جائیں گے۔

اگر واقعًا خلیفہ اول کو باغ فدک میں دلچسپی نہ ہوتی یا ان کی نظر میں اس زمین کی کوئ اہمیت نہ ہوتی تو وہ اس زمین کے عوض جناب فاطمہ (س) کی ناراضگی مول نہ لیتے۔ احادیث سنن و صحاحہ بتاتی ہیں کہ ابوبکر و عمر دونوں کو اس بات کا علم تھا کہ جناب فاطمہ (س) کی ناراضگی رسول الله (ص) کی ناراضگی ہے۔ اس کے باوجود ان دونوں نے اتنی جسارت کی کہ سیدہء عالم کی زمین غصب کرلی اور اس پر سینہ زوری یہ کہ انھیں سے زمین کی ملکیت کے شواہد مانگنے لگے۔ یقینًا مقدمہ فدک حق کو باطل سے جدا کرنے والا مقدمہ ہے۔ اگر اس میں کوئ یہ فیصلہ کرتا ہے کہ دخترِ رسولؐ (نعوذ باللہ) حق پر نہ تھیں تو اس نے خدا و رسولؐ کی ناراضگی مول لی ہے اس لئے کہ متفقہ حدیث رسول ع ہے “جس نے فاطمہ سلام اللہ علیہا کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی..”

مسلمانوں کو کم از کم ان باتوں پر کان دھرنا چاہئے۔