زیارت عاشورہ کے جملوں میں ہم یہ فقرہ “عٙظُمٙتْ مُصِیْبٙتُکٙ” ‘یا ابا عبد اللہ الحسینؑ! یعنی یا امام حسین آپ کی مصیبت عظیم ہے’ ، پڑھتے ہیں.’ یعنی امام حسینؑ کی شہادت زمین و آسمان کے ساتھ ساتھ تمام مومنین کے لیے سخت مصیبت والا واقعہ ہے۔ معصومین علیہم السلام کے اقوال میں بھی ہمیں یہ جملہ ، “لٙا یٙوْمٙ کٙیٙوْمِ الْحُسٙیْنِ” (“ہم اہلبیتؑ پر کوئ دن امام حسینؑ کے دن کی طرح سخت نہیں گزرا “) نظر آتا ہے ، اس جملے سے یہ بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ امام حسین کے مصایب سب سے زیادہ ہیں۔ آل رسول ہمیشہ ہمیشہ سے ہر دور میں بادشاہوں کے ظلم و جور کی شکار رہی ، مگر کربلا کے مصائب ان سب سے زیادہ سخت تھے۔ بیشک کیوں نہ ہو روز عاشورہ فرزند رسولؐ کو ان کے اصحاب کے ہمراہ کربلا کے تپتے میدان میں پیاسہ شہید کردیا گیا۔ ان کی لاش کی بے حرمتی کی گئی۔ چار پہر میں آل ابی طالبؑ کے اٹھارہ افراد قتل کردیے گئے اور بعد قتل ان کی لاشوں کو بے گور و کفن چھوڑ دیا گیا۔ ظالموں نے یہیں پر اکتفا نہ کی ۔بعد قتل حسین و اصحاب حسین آل اطہار پر ان کی خواتین کو اسیر بنایا اور ان کو قیدیوں کی طرح شہر شہر ، بازاروں اور درباروں میں پھرایا گیا۔ یقینًا اس سے بڑی مصیبت کیا ہوسکتی ہے!! مگر افسوس اس سے بڑا نہ سہی مگر اس کے ہم پلہ ایک اور سخت مصیبت والا دن اہلبیتؑ نے دیکھا ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے صحابی مفضّل سے فرمایا،”کوئ دن کربلا میں ہماری آزمائش کے دن کی طرح نہیں یعنی کوئ دن روز عاشور کی طرح ہمارے لیے مصیبت والا نہیں تھا سوائے روز سقیفہ کے کہ اس دن علیؑ و فاطمہؑ کے گھر کے دروازے پر آگ اور لکڑی کو جمع کیا گیا تاکہ ان دونوں کو اور ان کے بچوں حسن ،حسین ، زینب اور ام کلثوم علیہم السلام کو گھر کے اندر جلا کر مار دیا جائے۔ اس دن ہماری دادی فاطمہؑ کے شکم پر ملعون نے ایسی بے حرمتی کی جس کی وجہ سے محسنؑ بطن مادر ہی میں شہید ہوگئے۔ اس طرح یہ دن (بھی) ہمارے لیے بہت زیادہ مصیبت والا دن قرار پایا ہے ….۔”
(عوالم العلوم ج ۱۱، ص ١١٨۵)
اسی کتاب میں مؤلف نے اس روایت کو کچھ الفاظ کے رد و بدل کے ساتھ یوں نقل کیا ہے:
امام جعفر صادق علیہ السلام سے مفضل نے سوال کیا تھا کہ ,”فرزندِ رسولؐ آپ اہلبیتؑ پر سب سے زیادہ مصیبت والا دن کون سا تھا؟” مفضل کے سوال کے جواب میں امام صادق علیہ السلام نے جواب دیا: “…کوئ دن ہمارے لیے کربلا کی طرح سخت آزمائش کا دن نہ تھا (روز عاشورہ) مگر یہ کہ سقیفہ کا دن جس دن امیر المومنین، فاطمہؑ، حسن و حسین و زینب و ام کلثوم علیہم السلام کے گھر پر آگ لگائ گئ ان سب کے سمیت فضّہؓ بھی اس گھر میں موجود تھیں۔ اس دن ملعونوں نے محسنؑ کو بطنِ مادر میں پیر مار کر شہید کردیا۔
یہ دن ہمارے لیے سب سے بڑی مصیبت والا دن ہے، اس دن کو ہم کبھی بھلا نہیں پائیں گے کیونکہ اس دن کے مصائب بڑے عظیم و سخت ہیں۔”
( عوالم العلوم ج ۱۱، ص ۵۶۷)
یاد رہے یہ واقعہ مدینہ میں رسول الله (ص) کی رحلت کے تین دن کے اندر پیش آیا تھا۔ آنحضرتؐ جس دروازے پر آکر سلام کیا کرتے تھے اسی کو مسلمانوں نے اپنے ظلم و ستم کا نشانہ بنایا۔ ان لوگوں نے اپنے دلوں میں موجود بغضِ اہلبیتؑ کا اظہار کیا اور بیتِ علیؑ و فاطمہؑ کے دروازے کو جلادیا۔ اتنا ہی نہیں اس ظالم نے دخترِ رسولؐ کے شکم مبارک پر اپنے پیر سے اس طرح حملہ کیا کہ محسنؑ آپؑ کے بطن میں شہید ہوگئے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ مسلمان علماء کی اکثریت نے جس طرح کربلا میں ظلم کرنے والوں سے کنارا کشی اختیار کی اسی طرح دختر رسولؐ پر ظلم کرنے والوں سے کنارا کشی نہیں کی۔ اگر وہ ایسا کرتے تو آج مسلمانوں میں اتنا اختلاف نہ ہوتا۔ دوسری طرف اہلبیتؑ کے چاہنے والے شیعوں کو بھی روز سقیفہ کے سانحات کے ذکر کا خاص اہتمام کرنا چاہیے جس طرح وہ روز عاشورہ کو مناتے ہیں تاکہ دشمنِ زہراء دنیا کے سامنے بے نقاب ہو اور لوگ یزید کی طرح اس سے بھی بیزاری کریں۔