رسول اسلام (ص) نے ولایت کی تفسیر بیان فرمادی تھی۔

إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ [ سوره المائدة:۵۵]
تمھارا ولی صرف الله، اس کا رسول ہے اور وہ صاحب ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکات دیتے ہیں۔

مسلمانوں کا ایک بڑا گروہ یہ خیال کرتا ہے کہ قرآن کریم میں حضرت علیؑ کی ولایت کا ذکر نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر قرآن میں اللہ حضرت علیؑ کی ولایت کا ذکر کرتا تو تمام صحابہ اس کو قبول کرلیتے۔ صحابہ کا حضرت علیؑ کو بلافصل خلیفہ نہ ماننا یہ بتاتا ہے کہ نہ اللہ نے نہ اس کے رسولؐ نے امت سے حضرت علیؑ کی ولایت کا ذکر کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر مرسل اعظم (ص) نے بحکم خدا حضرت علیؑ کی خلافتِ بلافصل کا اعلان کیا ہوتا تو صحابہ کی اتنی بڑی تعداد اس حکم کو کس طرح فراموش نہ کرتی۔

در حقیقت ان سادہ لوح افراد کی بات کی بنیاد ہی غلط ہے. یہ لوگ صحابہ کے عمل کو بنیاد بناکر قرآن و سنّت کو اس پر پرکھنے کی غلطی کر رہے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ صحابہ نے بارہا حکم خدا اور حکم رسولؐ کی نفی کی ہے. واقعہء قرطاس اور اسامہ کے لشکر میں شامل ہونے سے انکار کر دینا اس بات کی دو بڑی مثالیں ہیں ۔اس کے علاوہ حضرت علیؑ سے بعض صحابہ کا بغض رکھنا بھی تاریخ کی کتابوں میں درج ہے۔ ویسے بھی قرآن میں اللہ عزوجل نے رسولؐ کا اتباع کرنے کا حکم دیا ہے صحابہ کا نہیں۔ شائد یہی سبب تھا کہ امیرالمومنینؑ نے متعدد مواقع پر مجمعء عام میں صحابہ سے اپنی خلافت و ولایت کا اقرار لیا ہے۔

مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ عثمان کے دور میں ایک مرتبہ مہاجرین و انصار کے مجمع میں امیرالمومنینؑ نے لوگوں کو قسم دلاکر سوال کیاکہ کیا تم اس بات سے لا علم ہو کہ جب یا ایھا الذین امنوا اطیعوا ا للہ و اطیعوا الرسول و اولی الامر آمنکم…., انما ولیکم اللہ و رسولہ… جیسی آیتیں نازل ہوئی تھیں تو لوگوں نے آنحضرتؐ سے سوال کیا :”یا رسول الله (ص) کیا یہ ولایت کچھ خاص مومنوں کو حاصل ہے یا سب کے لیے ہے؟” اس کے بعد الله عزوجل نے اپنے نبیؐ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو ولایت کی تعلیم دیں اور ان کے لیے ولایت کی اسی طرح تفسیر بیان فرمائیں جس طرح آپؐ نے نماز، روزہ، زکات اور حج کے متعلق تفسیر و تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔”

پھر حضور اکرم (ص) نے غدیر خم میں مجھے منصبِ ولایت پر مبعوث کیا اور میری ولایت کا اعلان کیا۔ اس وقت ابوبکر و عمر کھڑے ہوئے اور رسول اسلام (ص) سے ان دونوں نے پوچھا: “کیا یہ آیتیں خاص علیؑ کے لیے ہیں؟” آنحضرت (ص) نے جواب دیا:”ہاں! علیؑ کے لیے اور قیامت تک آنے والے ان کے اوصیاء کے لیے یہ آیتیں مخصوص ہیں۔” ان دونوں نے دوبارہ سوال کیا:” یا رسول الله (ص) آپؐ اس ولایت کو ہمارے لیے بیان کیجیے۔” نبی اکرم (ص) نے جواب دیا :”علیؑ میرا بھائی ہے، میرا وزیر ہے، میرا وارث ہے، اس امت میں میرا وصی اور میرا خلیفہ ہے۔ میرے بعد علیؑ تمام مومنوں کے ولی (سرپرست) ہیں۔ ان کے بعد ان کے فرزند حسنؑ ، ان کے بعد حسینؑ، پھر ان کے بعد حسینؑ کی اولاد میں یکے بعد دیگرے نو (٩) افراد مومنوں کے ولی ہوں گے۔ یہ سب قرآن کے ساتھ ہیں اور قرآن ان کے ساتھ ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہ ہوں گے حتیٰ کہ میرے پاس حوض کوثر تک نہ آجائیں۔”

مولا علیؑ کی یہ بات سن کر وہاں موجود تمام لوگوں نے گواہی دی: “ہاں! ہم نے رسول اسلام (ص) کو عوام الناس کو حضرت علیؑ کے خلیفہء بلافصل ہونے کی خبر دیتے سنا تھا۔”
(تفسیر نور الثقلین ج ٢، ص ١٩١)

اس واقعہ سے بخوبی معلوم ہوجاتا ہے کہ اصحاب کی ایک بڑی تعداد، کہ جو میدان غدیر میں موجود تھے، کو حضرت علیؑ کی بلافصل خلافت کا علم تھا۔ یہ جو دعوی ہے کہ اگر معلوم ہوتا تو مان لیتے یہ صرف ایک بہانہ ہے۔
اس طرح کی روایات اہل تسنّن کی کتابوں میں تواتر کے ساتھ موجود ہیں۔ مثلاً ایک موقعہ پر آنحضرت (ص) نے خود مولا علیؑ سے ارشاد فرمایا :…وَأَنْتَ خَلِيفَتِي فِي كُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ بَعْدِي “.
اے علیؑ!…تم میرے بعد ہر مومن کے لیے میرے خلیفہ ہو
حوالہ :
الشيباني، عمرو بن أبي عاصم الضحاك (متوفاي287هـ)، السنة، ج2، ص565۔

اس حدیث کو بزرگ اہل تسنّن علماء مثلا شیخ البانی نے بھی ‘حسن’ قرار دیا ہے (السنہ: ج ٢ ص ۵٦۵)۔ اس کے باوجود بھی یہ علماء حضرت علیؑ کی بلافصل خلافت کے قائل نہیں ہیں۔