حدیث ’’لا نُو رِثُ‘‘ کی حیثیت

بنتِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا نے جب اپنے بابا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی میراث کا مطالبہ کیا تو حاکم وقت اور خلیفۂ اوّل ابوبکر نے کچھ بھی دینے سے انکار کر دیا اور ایک الگ ہی قولِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیان کیا:

نحنُ مَعَا شِرُ الاْنبِیاءِ لَانَرِثُ وَلاَ نُوْ رِ ثُ مَا تَرَکْنَاہُ صَدْ قَۃً
ہم گروہ  انبیاء نہ میراث پاتے ہیں نہ ہی  کوئی میراث چھوڑتے ہیں بلکہ جو بھی ہمارا مال واسباب بچتا ہے وہ اُمت کے لئے صدقہ ہوتا ہے۔

جناب سیدہ سلام اللہ علیہا نے اس حدیث کو قبول نہیں کیا۔ بلکہ اس کے مقابل قرآن کی آیات کو بطورِ استدلال پیش کیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ حدیث صحیح ہے؟ آئیے اس کا جائزہ لیا جائے۔ کسی بھی حدیث یا روایت کے صحیح یا غلط ہونے کے کچھ معیار متعین ہوتے ہیں۔اُن میں سب سے اہم یہ ہے کہ وہ قرآن و سنت کے مطابق ہو۔کیا یہ حدیث اس معیار کو پورا کرتی ہے؟

(۱)قرآن میں انبیاء کی میراث کا ذکر ہے:

سورۃ اانبیاء؍۸۹:
وِ ذَکَرِیَا اِذْ ناَ دَیٰ ربَّہُ ربِّ لاَ تَذَرْنیٖ فرداً وَاَنْتَ خَیْرُ الوَارِثِیْنَ

جب زکریا نے اپنے رب سے دعا کی کہ اَے میرے پروردگار مجھے تنہا نہ چھوڑ (لاوارث نہ رکھنا) تُو بہترین وارث ہے۔

اگلی آیت میں اس دعا کا جواب ہے کہ اللہ نے اُن کی دعا کو قبول کیا اور انہیں ایک فرزند جناب یحییٰ علیہ السلام کی صورت میں عطا کیا۔ جو اُن کے وارث ہوئے۔ اس طرح جناب زکریا علیہ السلام نے میراث چھوڑی جو جناب یحییٰ علیہ السلام کو ملی۔اور دونوں نبی ہیں۔ لہٰذا بحوالہ قرآن یہ بات غلط ہے کہ انبیاء نہ میراث پاتے ہیں اور نہ میراث چھوڑتے ہیں۔سورۂ مریم کی آیات ۸ تا ۵ میں بھی اسی دعا کا  ذکر ہے۔ اِن میں بھی جناب یحییٰ علیہ السلام کوجناب زکریا علیہ السلام کا وارث بتایا گیا ہے۔ بلکہ یہ وراثت آل یعقوب میں دیگر انبیاء میں بھی منتقل ہوتی رہی ہے۔ اسی طرح قرآن نے  جناب سلیمان علیہ السلام کو جناب داؤد علیہ السلام کا وارث بتایا ہے اور نہ صرف یہ کہ اُن کا علم و نبوت عطا کی بلکہ جناب داؤد علیہ السلام کی حکومت کے وارث بھی جناب سلیمان ہوئے۔

(سورۂ نمل؍ آیات نمبر ۱۷-۱۶)

(۲)علم و اصول احادیث

اگر علم و اصول احادیث پر تولا جائے تب بھی یہ قول جو رسول ؐ اللہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے یہ ضعیف نظر آتا ہے۔ اس کی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں:

۱)    یہ حدیث ’’لا نورث‘‘ خبرِ واحد ہے یعنی اِسے صرف ابوبکر نے ہی نقل کیا ہے اور اس واقعہ سے پہلے کسی نے بھی اس قول ک نہ سُناہے اور نہ نقل کیا ہے۔

(شرح نہج البلاغہ جلد۴؍ صفحہ ۸۲۔ ابن ابی الحدید معتزلی)

۲)    اگر یہ قول میراث کو صحیح مان لیا جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کے ورثاء یعنی ازواج نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  اور اہلبیت اطہار علیہم السلام کو اس کا علم ہونا چاہیے تھا۔خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  کو چاہیے تھا کہ اسے کم از کم اپنی بیٹی کو بتا دیتے۔اتنی اہم بات کا اُن کی صدیقہ طاہرہ بیٹی کے علم میں نہ ہونا اس قول کے غلط ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔

۳)    اہل تسنّن کے علماء اس بات کا بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ فدک کے اسباب میں سے خلیفہ اوّل و دوّم نے برابر اولادِ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو خراج دیا ہے اور اولادِ رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  نے اُس کو راضی خوشی قبول بھی کیا ہے۔ اب اگر فدک میراث نہیں ہے تو صدقہ ہے اور صدقہ آلِ رسول علیہم السلام پر حرام ہے۔ تو اُنھوں نے دیا کیوں اور آلِ نبی علیہم السلام نے قبول کیوں کیا؟

۴)    تاریخ بتاتی ہے کہ متعدد مواقعوں پر خُلفاء نے فدک کو اولادِ فاطمہ سلام اللہ علیہا کو لوٹایا ہے۔ مثلاً عمر بن عبد العزیز، مامون رشید وغیرہ……اس سے یہ طے ہے کہ جناب سیدہ سلام اللہ علیہا کا دعویٰ صحیح تھا اور فدک اُن ہی کی ملکیت ہے۔

۵)    جہاں شیخین دفن ہیں اس جگہ کو حُجرۂِ عائشہ کہا جاتا ہے۔ بلکہ خلیفۂ دوم نے رسول کے قریب اپنی مرقد بنوانے کے لئے عائشہ سے اجازت بھی لی کیونکہ ان کے حساب سے وہ  مقام حُجرۂِ عائشہ  ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ رسولؐ کی میراث جب بیٹی کو نہیں ملی تو بیوی کو کیسے ملی؟ یہ حجرۂ عائشہ کیسے ہو سکتا ہے؟

۶)    تاریخ کے پنّوں پر یہ بھی ملتا ہے کہ خلیفۂ سوم عثمان نے عائشہ کا حصہ بیت المال سے بند کر دیا۔ جب اُنھوں نے مطالبہ کیا تو جواب میں عثمان نے اس کا سبب یہ حدیث بیان کی کہ انبیاء کی میراث نہیں ہوتی۔ اس پر عائشہ سخت ناراض ہوئیں اور عثمان کو بُرا بھلا کہا۔

مختصریہ کہ یہ حدیث ہر لحاظ سے بے بنیاد اور فرضی ہے۔ اس کا جواز نہ قرآن کی آیتوں میں ہے اور نہ ہی سنّتِ انبیاء کرام میں میراث  نہ دینے کا  چلن رہا۔ حتیٰ کہ خود خُلفاء کے عمل اس قول کی مخالفت کرتے ہیں۔