Jannatul baqi

بزرگان دین کی قبور پر تعمیر قائم کرنا سنّت صحابہ ہے۔

مسلمانوں میں ایسے بہت سے فقہی اور عقائد پر مبنی مسائل پاۓ جاتے ہیں ، جن کی بابت فقہاء اور علماء کے اقوال میں اختلاف ملتے ہیں ۔ اہل تسنّن ،جو اپنے آپ کو ایک جماعت تصوّر کرتے ہیں، ان کے چاروں اماموں کے اقوال میں پنجگانہ نماز سے لےکر حج تک کے ارکان میں متعدد معاملات میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ کہیں یہ اختلاف معمولی ہے تو کہیں بہت زیادہ مگر جہاں تک بزرگان دین کی قبور پر تعمیر کا مسئلہ ہے ، اس معاملے میں صرف اہل تسنّن ہی نہیں ، شیعہ فقہاء میں بھی اس بابت کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔ وہ اس لیے کہ ان سب کے پاس عقلی و نقلی دلائل کے علاوہ یہ دلیل بھی موجود ہے کہ مسلمانوں نے صدر اوّل ہی سے بزرگ شخصیات کی قبروں پر عمارات بنائ ہیں۔ اور مسلمانوں کی یہ عملی سیرت ہے جو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے زمانہ میں شروع ہوئی تھی اور آج تک باقی و جاری ہے۔ اس مختصر مقالہ میں ہم ان متعدد شواہد میں سے چند ایک کو بطور نمونہ پیش کر رہے ہیں۔

• سمہودی نے اپنی کتاب ”وفاء الوفاء“ میں ذکر کیا ہے کہ مسلمانوں نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے جنازہ کو ایک چھت والے حجرہ میں دفن کیا ، وہ اس حجرہ سے ایک خاص رغبت رکھتے تھے…
(وفاء الوفا بأخبار دار المصطفى: ج٢، ص ۴۵٨ فصل ٩.)

• بلاذری نے روایت کی ہے کہ جب زوجہ رسولؐ زینب بنت جحش کا بیسویں حجری میں انتقال ہوا تو اس وقت کے خلیفہ عمر نے ان کے جنازہ پر نماز پڑھی اور ان کی قبر پر ایک خیمہ بنایا ۔
(انساب الاشراف: ج ١ ص ۴٣٦)
یہ خیمہ اس لئے نہیں بنایا گیا تھا کہ گرمی کی وجہ سے دفن کرنے میں آسانی ہو بلکہ اس لئے بنایا گیا تھا کہ ان کے خاندان والے اس کے سایہ میں بیٹھ کر ان کے لئے قرآن کریم پڑھیں اور دعا کریں۔

• محمد بن محمود بن نجار (متوفی ۶۴۳ ھ) نے ”اخبار مدینة الرسول“ میں لکھا ہے : بقیع کے شروع میں ایک قدیمی اور بلند قبہ بنا ہے جس کے دو دروازے ہیں جن میں سے ایک دروازہ روزانہ زیارت کے لئے کھلتا ہے (مجلة العرب شمارہ ۵-٦)

• سمہودی (متوفی ۹۱۱ ھ) نے بقیع کی تعریف میں لکھا ہے : بقیع میں بہت سے قبہ بنائے گئے ہیں، ان میں سے ایک قبہ عقیل بن ابی طالب اور پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی بیویوں سے منسوب ہے جس میں عباس، حسنؑ بن علیؑ․․․ کی قبریں ہیں اور ان کی قبروں پر ایک خوبصورت قبہ ہے ۔ ابن نجار نے کہا ہے : ․․․․ وہ قبہ بہت بڑا، بلند اور قدیمی ہے ، اس کے دو دروازہ ہیں جن میں سے ایک دروازہ روزانہ کھلتا ہے ۔ مطری نے کہا ہے : اس قبہ کو خلیفہ ناصر احمد بن مستضیئی نے بنوایا تھا ۔ عباس اورحسنؑ بن علیؑ کی قبریں زمین سے بلند ہیں جو ایک خوبصورت پتھر سے چھپی ہوئی ہیں جس کا رنگ زرد ہے۔
(وفاء الوفا ج ٣ ص ٩١٦)

• دنیا کی سیر کرنے والے ابن جبیر (متوفی ۶۱۴ ھ) نے اپنے سفر نامے میں بقیع کی تعریف اس طرح لکھی ہے : مالک کی قبر کے سامنے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بیٹے ابراہیم کی قبر ہے جس کے اوپر سفید قبہ بنا ہوا ہے اور اس کے داہنی طرف عمر بن خطاب کے بیٹے کی قبر ہے اور اس کے برابر عقیل بن ابی طالب ، عبداللہ بن جعفر اور اس کے سامنے رسول اللہ (ص) کی بیویوں کے مقبرے ہیں اور وہیں پر ایک چھوٹا سا بقعہ ہے جس میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے تین فرزند دفن ہیں ۔ اور عباس بن عبدالمطلب اور حسنؑ بن علیؑ کا مقبرہ بلند ہے جو کہ بقیع کے نزدیک ہے ۔ اور ان دونوں کی قبریں زمین سے بلند ہیں اور خوبصورت پتھروں سے چھپی ہوئی ہیں ۔ پیغمبر اکرم (ص) کے بیٹے ابراہیم کی قبر بھی ایسی ہی ہے ۔ اس قبہ کے نزدیک ایک حجرہ ہے ، جو آنحضرت (ص) کی بیٹی فاطمہ (س) سے منسوب ہے جو ”بیت الحزن “ کے نام سے مشہور ہے ․․․ بقیع کے آخر میں عثمان کی قبر ہے ، جس کے اوپر چھوٹا اور مختصر قبہ ہے اور اس کے نزدیک حضرت علیؑ کی والدہ فاطمہؑ بنت اسد کی قبر ہے (رحلة ابن جبیر در سال ۵٧٨)

ان تمام باتوں سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ قرن اوّل ہی سے اسلامی معاشرے میں بزرگان دین کے مقبرے بنانے کا رواج رہا ہے اور اس فعل کو کبھی بدعت یا شرک نہیں سمجھا گیا بلکہ بزرگان دین کے مزارات تعمیر کرنے اور ان کی زیارت کے لیے جانے کو ایک مستحب عمل تصوّر کیا جاتا رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ خود کو ‘سلفی’ کہنے والے وہابی اسلاف کی اس سنّت کی مخالفت کرتے ہیں اور بزرگان دین کے مزرات کا احترام کرنے کے بجائے انھیں منہدم کرنے کو عین اسلام سمجھتے ہیں۔