حضرت امام علی ابن محمد النقی علیہما السلام کا اسم گرامی علی تھا اور کنیت ابو الحسن الثالث تھی۔ آپ کے مشہور القاب میں نجیب، مرتضی،عالم، فقیہ، ناصح، امین، طیب، نقی اور ہادی وغیرہ کا تذکرہ کیا جاتا ہے ۔ آپ کی ولادت مدینہ منورہ سے کچھ دور صریا نامی ایک مقام پر ہوی- آپ کی والدہ کااسم گرامی جناب سمانہ ہے۔
آپ کا انتہائی بچپن کا زمانہ تھا جب آپ کے پدر بزرگوار کو حاکم وقت نے بغداد طلب کر لیا اور ان کو زہر دغا سے شہید کر دیا۔ باپ کے زیر سایہ تعلیم و تربیت نہ پانے کی بنا پر بعض افراد کو ہمدردی کا خیال پیدا ہوا ۔ اور عبید اللہ جنیدی کو آپ کا معلم قرار دیا گیا لیکن چند دنوں بعد جب جنیدی سے بچہ کی رفتار تعلیم کے متعلق سوال کیا تو اس نے کہا کہ لوگوں کا خیال ہے کہ میں اسے تعلیم دیتا ہوں ، خدا کی قسم میں اس سے علم حاصل کرتا ہوں اور اس کا علم اور فضل مجھ سے کہیں زیادہ ہے ۔ “واللہ ھذا خیر اھل الارض”
(نقوش عصمت بحوالہ کتاب الوصیہ )
ثقتہ الاسلام شیخ کلینی نقل کرتے ہیں کہ امام علی نقی علیہ السلام نے نوفلی سے فرمایا کہ پروردگار عالم کے تہتر اسم اعظم ہیں جن میں سے ایک آصف بن برخیا کو عطا کیا گیا تھا جس کے طفیل میں انہوں نے بلقیس کو چشم زدن میں ملک سبا سے حضرت سلیمان کی خدمت میں پہونچا دیا- جب کہ ہمیں ان میں سے بہتّر اسماء عطا کیے گئے ہیں- لہذا ہمارے عجاءب و غراءب کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا- رب العالمین نے ایک اسم اعظم ہم سے بھی مخفی رکھا ہے ، یہ اس کی ربوبیت کا خاصہ ہے-
جب آپ کی عمر مبارک بارہ سال کی تھی تو آپ ابو ہاشم کے ساتھ سر راہ کھڈے تھے کہ وہاں سے تر کوں کی فوج کا گزر ہوا- آپ نے ان میں سے ایک سپاہی سے خطاب کیا اور اس سے اسکی مادر ی زبان ترکی میں بات چیت شروع کر دی- وہ حیران ہو گیا اور کہنے لگا کہ آپ نے مجھ سے اس طرح گفتگو کی جیسے میرے والدین مجھ سے بات کرتے ہیں- یقیناً آپ کوی ولیء خدا ہیں-
علامہ محمّد باقر نجفی لکھتے ہیں کہ بادشاہ روم نے خلیفہ وقت کو خط لکھا کہ میں نے انجیل میں پڑھا ہے کہ جوشخص اس سوره کو پڑھے جس میں یہ سات حروف نہ ہوں وہ جنّت میں جایگا- ث، ج، خ، ز، ش، ظ اور ف- میں نے انجیل و زبور کا اچھی طرح مطالعہ کیا لیکن اس قسم کا کوئی سوره نہیں ملا- آپ ذرا اپنے علماء سے پوچھیں شاید یہ سوره آپ کی کتاب قرآن میں ہو- خلیفہ نے بہت سے علماء کو جمع کیا اور اس سوال کو ان کے سامنےرکھ دیا، سب نے بہت دیر تک غور کیا مگر کوئی تسلّی بخش جواب نہ دے سکا- جب خلیفہ تمام علماء سے مایوس ہو گیا تو امام علی نقی علیہ السلام کی طرف توجّہ کی – جب آپ کے سامنے یہ مسلہ رکھا گیا تو آپ نے بلا تاخیر جواب دیا کہ وہ سوره حمد ہے- اب جب غور کیا گیا تو جواب بالکل صحیح تھا- خلیفہ نے کہا یا ابن رسول الله کیا اچھا ہوتا کہ آپ اسکی وجہ بھی بتا دیتے- آپ نے فرمایا یہ اس لئے ہے کیونکہ یہ سوره رحمت کا ہے – یہ حروف اس میں اس لئے نہیں ہے کیونکہ ث سے ثبور ہلاکت تباہی، بربادی کی طرف، ج سے جہنم کی طرف، خ سے خیبت یعنی خسران کی طرف، ز سے زقوم یعنی تھوہڑ کی طرف ش سے شقاوت کی طرف، ظ سے ظلمت کی طرف، ف سے فرقت کی طرف تباور ذہنی ہوتا ہے اور یہ تمام چیزیں رحمت و برکت کے منافی ہیں-
خلیفہ نے یہ تفصیلی جواب بادشاہ روم کو بھیج دیا، باد شاہ اس جواب سے بہت مسرور ہوا اور فورن مسلمان ہو گیا اور مرتے دم تک مسلمان ہی رہا-
(نقوش عصمت)
اس کے علاوہ آپ کا اپنے شیعوں کے لئےایک بیش قیمتی تحفہ زیارت جامعہ ہے- اس زیارت میں اہل بیت علیھم السلام کے مناقب و فضاءل بیان ہوءے ہیں-
اگر چہ امام ہادی علیہ السلام کی زندگی بہت ہی سخت اور مخفیانہ تھی اور امامؑ علمی کام انجام دینے کے لیے آزاد نہیں تھے، اس لحاظ سے امام محمد باقرؑ اور امام صادقؑ کے زمانہ اور آپ کے زمانہ میں بہت زیادہ فرق پایا جاتا ہے لیکن امامؑ ان حالات میں بھی مناظرات، مکاتبات، سوالوں اور شبہات کا جواب دیتے اور منحرف کلامی مکاتب کے مقابل میں صحیح فکر کو بیان کرتے تھے اور بزرگ راوی اور محدثین کی تربیت کرتے تھے اور اسلامی علوم و معارف کی ان کو تعلیم دیتے تھے اورانہوں نے اس بزرگ میراث کو بعد والی نسلوں تک منتقل کیا ہے.
بزرگ عالم دین شیخ طوسی نے اسلامی مختلف علوم کے سلسلہ میں آپ کے شاگردوں کی تعداد ١٨٥ نقل کی ہے.
اس گروہ کے درمیان بہت ہی برجستہ شخصیات اور علمی و معنوی چمکتے ہویے چہرے نظر آتے ہیں جیسے فضل بن شاذان، حسین بن سعید اہوازی، ایوب بن نوح، ابوعلی (حسن بن راشد)، حسن بن علی ناصر کبیر، عبدالعظیم حسنی (شہر رے میں مدفون) اور عثمان بن سعید اہوازی۔ ان میں سے بعض نے کتابیں بھی تالیف کی ہیں اور ان کی علمی اور معاشرتی خدمتیں رجال کی کتابوں میں نقل ہویی ہیں.