اگر ابو جہل اسلام لے آتا تو کیا ہوتا؟؟

یہ ایک حقیقت ہے کہ اہل تسنن علماء کو جتنی عقیدت خلیفہء دوم عمر بن خطاب سے ہے اتنی شائد ہی کسی اور اسلامی شخصیت سے ہو۔ اس بے جا عقیدت کی کئ وجہ ہوسکتی ہے مثلاً یہ کہ ان کے دورِ حکومت میں اسلام پورے جزیرہء عرب پر چھا گیا اور ایران جیسی طاقتور حکومتیں بھی مسلمانوں کے ماتحت آگئیں۔ مگر اس سے بھی زیادہ اہم وجہ یہ ہے کہ عمر ہی مسلمانوں کے درمیان ‘سقیفائ خلافت’ قائم کرنے میں پیش پیش رہے۔ رسولؐ اللہ کی رحلت کے فورًا بعد عمر ہی نے سقیفہ میں جاکر انصار کے مجمعے میں ابوبکر کو خلیفہ بنوایا، ان کے بعد خود بھی حکومت کی اور جاتے جاتے بنی امیہ کی حکومت کی راہ ہموار کردی۔ چنانچہ شوریٰ کے تحت عثمان بن عفان کے لیے حکومت کی بساط بچھادی گئ۔ یہ بھی سچ ہے کہ اگر عمر بن خطاب نے شوریٰ کا انعقاد نہ کیا ہوتا تو طلحہ اور زبیر کے دل میں خلافت کی چاہت سر نہ اٹھاتی، جس کے نتیجے میں جنگ جمل واقع ہوئ جس میں تیس ہزار بے گناہ مسلمانوں کا خون بہایا گیا۔

بحر حال، سنّی علماء نے اپنے چہیتے خلیفہ عمر بن خطاب کے فضائل میں بہت سی احادیث جعل کی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ حضورؐ اکرم نے فرمایا کہ “اگر میرے بعد کوئ نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا” یا یہ کہ “عمر جنت کے چراغ ہیں” وغیرہ، وغیرہ۔
ان احادیث کا جائزہ لینا اور ان کی حقیقت پر تبصرہ کرنا ان شآء اللہ کسی اور موقع پر ہوگا مگر اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے لیے عمر کا اسلام لانا کوئ خاص اہمیت نہیں رکھتا تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ حدیث ہے جسے اہل تسنن عمر کی تعریف میں بیان کرتے ہیں۔
ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا “اللَّهمّ أعزّ الإسلام بأبي جهل بن هشام أو بعمر بن الخطّاب” اے اللہ اسلام کو ابو جہل بن ہشام یا عمر بن خطاب کے ذریعہ طاقت دے۔
(الاصابہ ج۴ ص ۴۸۵)

تبصرہ:-
• اس حدیث میں رسولؐ اکرم نے عمر بن خطاب کا تقابل ایک بہت بڑے کافر اور دشمن اسلام ابوجہل سے کیا ہے جو بات کوئ فضیلت کی حامل نہیں ہے۔

• دوسرے یہ کہ اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضرتؐ کو امید تھی کہ ان دونوں کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو طاقت ملے گی مگر افسوس، عمر نے اسلام لانے کے بعد ایسا کوئ کارنامہ انجام نہ دیا کہ مسلمانوں کو مکہ میں کوئ طاقت ملتی۔ بلکہ مسلمانوں کے حالات اور بدتر ہوتے چلے گئے۔

• اس روایت کو عبد اللہ ابن عباس نے نقل کیا ہے جو اس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے جب عمر نے اسلام قبول کیا تھا۔ عبد اللہ ابن عباس مکہ میں ہجرت کے تین سال بعد پیدا ہوئے جبکہ عمر نے ہجرت سے پہلے ہی اسلام قبول کرلیا تھا۔ اس لیے اس روایت کا صحیح ہونا مشکوک ہے۔

• ابوجہل، عمر کے مقابلے میں ایک قابل, بہادر اور باصلاحیت شخص تھا۔ ابوجہل نے جنگ بدر میں بہادری سے مسلمانوں کا مقابلہ کیا جبکہ عمر نے خود اپنے بارے میں بتایا ہے کہ وہ جنگ احد سے فرار ہوگئے تھے۔ اسی طرح جنگ خیبر میں بھی عمر نے جنگ سے فرار کیا۔
ظاہر ہے کہ عمر کے اس طرح جنگوں سے فرار ہونے سے اسلام کو کوئ تقویت نہیں ملی بلکہ لشکر اسلام کا حوصلہ پست ہوتا رہا۔

• ابو جہل بھلے ہی کافر تھا مگر اس کے علم کا چرچہ تھا۔ اس کو مکہ والے “ابو الحکم: حکمت کا باپ” کہتے تھے۔ (اس کا حقیقی نام عمرو بن ہشام مخزومی تھا) جبکہ عمر کے بارے میں ایسی کوئ بات تاریخ میں نہیں ملتی جس سے ان کے قابل ہونے کا اندازہ ہو سکے۔ لہٰزا یہ کہنا درست ہوگا کہ ابوجہل کا اسلام لانا مسلمانوں کو زیادہ فائدہ پہنچاسکتا تھا بہ نسبت عمر بن خطاب کے۔
• اس حدیث کے جملے میں عربی لفظ ‘اٙوْ’ استعمال ہوا ہے جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یا تو ابوجہل اسلام لے آے یا عمر اسلام لے آے۔ مرسل اعظم (ص) ان دونوں میں سے کسی ایک کے مسلمان ہو جانے پر مطمئن تھے۔ یہ شان نبوت کے خلاف ہے کیونکہ آنحضرتؐ کے لیے قرآن کہتا ہے کہ آپؐ ہر ایک کے لیے ہدایت کے متمنی اور کوشاں تھے۔ (سورہ توبہ:١٢٨)

غور طلب ہے کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ دعا ابو جہل کے حق میں قبول ہوتی تو کیا زیادہ بہتر ہوتا؟؟
چونکہ روایت میں لفظ ‘او’ آیا ہے جس کے معنی ‘یا’ کے ہیں اس لیے یہ سوال مناسب ہے کہ اگر عمر ابن خطاب کی جگہ پر ابوجہل اسلام لے آتا تو کیا ہوتا؟؟
شائد دین اسلام میں بہت سی بدعتیں رائج نہ ہوتیں۔
اہلبیتؑ رسولؐ پر اتنے مصائب نہ ڈھائے جاتے جتنے ‘سقیفائ حکومتوں’ نے اہلبیتؑ پر کیے ہیں۔

آخر میں اس حدیث کو بیان کرنا بہت مباسب ہوگا کہ کسی شخص نے امام محمد باقر علیہ السلام سے اسی حدیث کے بارے میں سوال کیا۔ کیا آنحضرتؐ نے یہ حدیث ارشاد فرمائ ہے : اللهم أعزّ الاسلام بأبي جهل أو بعمر ؟؟
فقال أبو جعفر : والله ما قال هذا رسول الله قطّ ، إنّما أعزّ الله الدين بمحمّد عليه الصلاة والسلام ، ما كان الله ليعزّ الدين بشرار خلقه.
امام محمد باقر علیہ السلام نے جواب دیا: ہرگز نہیں! رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسا ہرگز نہیں فرمایا۔ اللہ نے اپنے نبی محمد صلوات اللہ و سلامہ علیہ کے ذریعہ سے اپنے دین کو عزت و تقویت دی ہے۔ خدا کو اس کام کے لیے شریر ترین خلق کی کوئ ضرورت نہیں ہے۔
(تقریب المعارف ٢۴٦)