زیارت عاشورہ کا مختصر تعارف

ائمہ اہل بیت علیہم السلام نے اپنے شیعوں پرجوعنایتیں فرمائ ہیں ان میں وہ علوم بھی ہیں جو انسان اپنی جد و جہد سے کبھی حاصل نہیں کرسکتا۔ تاویلات و تفاسیر آیات قرآنی کے ساتھ ساتھ دعاوں اور زیارتوں کا ایک بیش قیمت ذخیرہ بھی اس میں شامل ہے۔ ائمہ معصومینؑ کی تعلیم کردہ زیارتین صرف عقیدتوں سے بھرے جملے نہیں ہیں، بلکہ رموز اہلبیتؑ ہیں۔ ان زیارتوں کے پڑھنے والوں کو نہ صرف یہ کہ خدا کی قربت حاصل ہوتی ہے، بلکہ اس کی معرفت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔اس حقیقت کی روشن مثال یہ ہے کہ قرآن کی آیتیں بتاتی ہیں کہ شہید زندہ ہوتا ہے۔
وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ
(آل عمران: 169)

جو لوگ راہ خدا میں قتل کردیے گئے ہیں ان کو مردہ نہ شمار کرو بلکہ وہ زندہ ہیں اور وہ اپنے رب کے یہاں سے رزق پارہے ہیں۔

یہی سبب ہے کہ ہمارے شیعہ مذہب میں ائمہؑ کی زیارتیں پڑھی جاتی ہیں۔ان زیارتوں میں ہم اپنے امام سے براہ راست خطاب کرتے ہیں۔ اٙلسّٙلٙامُ عٙلٙیْکٙ یٙا اٙبٙاعٙبْدِ اٙللّٰہٙ” سلام ہو آپ پر اے ابا عبد اللہ (الحسین علیہ السلام)۔ اسی طرح ہم دیگر ائمہ کی زیارتوں میں بھی اس طرح کے کلمات پیش کرتے ہیں۔

یوں تو ہر معصوم کے لیے مخصوص زیارتیں نقل ہوئیں ہیں، مگر سب سے زیادہ مخصوص زیارتیں سبطِ اصغر امام حسینؑ کے لیے منقول ہوئ ہیں مثلًا روز عرفہ کی زیارت، روز عید فطر وقربان کی خصوصی زیارت،روز عاشور واربعین کی زیارت وغیرہ۔ ان تمام زیارتوں میں زیارت عاشورا کو ایک خصوصی امتیاز حاصل ہے۔ اس کی فضیلت میں بطور نمونہ ایک روایت نقل کر رہے ہیں :حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے قریبی صحابی جناب صفوان سے فرمایا:”اے صفوان! اس زیارت کو اور اس دعا کو برابر پڑہا کرو، میں خدا کی طرف سے اس بات کی ضمانت لیتاہوں کہ جو اس زیارت کو دور یا نزدیک سے پڑھےگا تو اس کی زیارت ضرور قبول ہوگی، اس کا سلام سید الشہداء علیہ السلام تک ضرور پہنچےگا اور جب بھی وہ خدا سے کوئ حاجت طلب کرے گا وہ پوری ہوگی۔” اسی روایت میں صادق آل محمد علیہم السلام نے یہ بھی بتلایا ہے کہ در اصل یہ زیارت فرمان خدا اور حدیث قدسی ہے۔ اس زیارت کے پڑھنے کی تاکید حضرت ولی عصر (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف) نے بھی فرمائ ہے۔

اس زیارت میں جہاں آپؑ کے بلند مرتبہ کا ذکر ہے اور آپؑ کی مصیبت کا ذکر ہے وہیں آپ کے قاتلوں سے بیزاری اور براءت کا بھی ذکر ملتا ہے۔ بلکہ زیارت عاشورا میں صرف سرکارِ سید الشہداء علیہ السلام کے قاتلوں اور دشمنوں سے ہی بیزاری اور براءت کا ذکر نہیں ہے بلکہ تمام اہلبیت علیہم السلام کے دشمنوں سے بھی براءت کا تذکرہ ہے۔

مثلاً اس جملے میں تو ظاہرًا زائر امام حسین علیہ السلام سے خطاب کر رہا ہے مگر لعنت تمام اہلبیتؑ کے دشمنوں پر کررہاہوتاہے۔
فٙلٙعْنٙ اٙللّٰہُ اُمّٙةً اٙسّٙسٙتْ اٙسٙاسٙ الظُّلْمِ وٙالْجٙوْرِ عٙلٙیْکُمْ اٙہْلٙ الْبٙیْتِ۔
پس اللہ لعنت کرے اس قوم پر جس نےآپ اہلبیتؑ پر ظلم و جور کی بنیاد ڈالی۔

اس جملے میں لعنت ہر اس شخص کے لیے کی گئ ہے جس نے کربلا کے واقعہ کے لیے بنیاد رکھی ہے۔ جس نے یزید ملعون کو بادشاہ بنایا اس پر لعنت، جن لوگوں نے یزید کی کسی طرح بھی حمایت کی ان پر لعنت ہے، جن درباری یا غیر درباری علماء نے فرزند رسولؐ سے جنگ کو جائز قرار دیا ان پر لعنت بھی کی گئ ہے۔ ایک جگہ ہم پڑھتے ہیں
لٙعٙنٙ اٙللّٰہُ اُمّٙةً دٙفٙعٙتْکُمْ عٙنْ مٙقٙامِکُمْ وٙ اٙزٙالٙتْکُمْ عٙنْ مٙرٙاتِبِکُمْ الّٙتِیْ رٙتّٙبٙکُمْ اٙللّٰہُ فِیْہٙا

اللہ لعنت کرے اس قوم پر جس نے آپؑ اہلبیت کو آپؑ کے مقام سے ہٹادیا اور اس مرتبہ سے گہٹا دیا جس پر اللہ نے آپؑ کو فائز کیا تھا۔

اس جملے میں ان غاصبینِ خلافت کا بھی شمار ہے جنہوں نے اہلبیتؑ کو مسلمانوں کی رہبری سے روکا ہے۔ آپ پر ظلم کرنے والے تمام افراد کو یہ لعنت اپنے شکنجے میں لے لیتی ہے جنھوں نے آپ پر ظلم کرنے والوں کا ساتھ دیا ہے۔
لٙعٙنٙ اللّٰہُ الْمُمٙہّٙدِیْنٙ لٙہُمْ بِالتّٙمْکِیْنٙ مِنْ قِتٙالِکُمْ
اللہ لعنت کرے اس قوم پر جس نے آپؑ پر ظلم کرنے والوں کے لیے زمین ہموار کی-

اس طرح اہلبیت علیہم السلام کے قاتلوں پر مجموعی طور پر لعنت کی گئ ہے۔ جبکہ سید الشہداء کے قاتلوں پر خصوصی طور پر نام لیکر لعنت کی گئ ہے۔ ان میں یزید، عمر ابن سعد ، عبید اللہ ابن زیاد، شمر بلکہ ان کی آل کو بہی شامل کیا یے جیسے آل ابو سفیان، آل زیاد،آل مروان ،لعنت اللہ علیہم اجمعین ۔

اس زیارت میں زائر کے لیے دعائیں بھی ہیں کہ خدا اس کو اہلبیت علیہم السلام کی طرح زندگی گزارنے کی توفیق عطا کرے اور انھیں کے راستے پر موت بھی دے۔ آخرت میں ان کی شفاعت سے نوازے اور آخرت کی ہر منزل پر اہلبیت کی ہم نشینی پر ثابت قدم رکھے، کہ یہی عقیدہ ولایت وبرائت، تقرب خدا اور کامیابی کا ضامن ہے۔