Janatul baqi

حدیثوں میں خروج وہابیت کی پیشنگوئ

خداوند عالم نے انبیاء کو انسانوں کی ہدایت کے لئے بھیجا تو انھیں ہر طرح کا اور ہر چیز کا کمال عطا کر کے بھیج. پرودگار عالم نے انبیاء کو وہ معجزات و کرامات بھی دیے جن کے ذریعہ وہ اپنی نبوت ورسالت لوگوں سے منوا سکیں۔ انھیں کمالات میں کمالِ علم بھی تھا۔ انبیاء کرام نہ یہ کہ ہر چیز سے واقف ہوتے تھے بلکہ گزشتہ و آئندہ کے بارے میں بھی با خبر ہوتے تھے۔ اللہ تعالی انھیں اپنے غیب کے علم سے بھی آگاہ کر دیتا تھا۔ اللہ کا کوئ نمائندہ اس کمال سے محروم نہیں۔

اللہ تعالی نے اپنے آخری نبی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی غیب کے علم سے آگاہ کیا ہے، خواہ وہ قیامت سے متعلق معلومات ہو یا قیامت سے قبل کی نشانیاں، غیبت امام مہدی (عج) ہو یاظہور امام اور ظہور امام سے قبل خروج دجال و دیگر علامتیں ہوں،نہ جانے ایسی کتنی پیشنگوئیاں ہیں جو نبی اکرم (ص) کی طرف سے بیان ہوئ ہیں اور سب حقیقت ثابت ہوئ ہیں۔

انھیں میں ایک پیشنگوئ 12 ویں صدی ہجری میں وادئ بنی حنیفہ میں ایک شخص کےخروج کے بارے میں ہے، جس کی کئ علامتیں بتائ گئ ہیں۔

اس بات سے دنیا بخوبی واقف ہے کہ وہابی فرقہ محمد بن عبد الوہاب کے باطل و گمراہ خیالات پر مشتمل فرقہ ہے، جسے محمد بن عبد الوہاب نے محمد بن سعود (آل سعود) کی مدد سے عرب کے مشرق ومغرب میں بزور طاقت اور قتل و خونریزی نیز دل دہلا دینے والے مظالم برپا کر کے مسلط کیا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ محمد بن عبدالوہاب ابتداء ہی سے مدعئ نبوت،مسیلمہ کذاب،سجاح،اسود عسنی، طلیحہ اسدی، جیسے بے دین لوگوں کی کتابیں بڑے شوق اور انہماک سے پڑھنے کا عادی تھا۔

مفتی محمد عبد القیوم قادری نے ‘تاریخ نجدو حجاز’ میں لکھا ہے کہ”اس کے دل میں بھی شوق تھا کہ دعوئ نبوت کا اظہار کرے چنانچہ اس نے اپناا دعوئ نبوت تو زیر زمین رکھا مگر ظاہر میں اسی نہج پر کام کرتا رہا۔ اس کو کھل کر تو دعوی نبوت کے اظہار کا موقع نہ مل سکا لیکن اس نے نبوت کے طور طریقے اپنا رکھے تھے۔ اس کے ہم عقیدہ جو لوگ باہر سے ہجرت کر کے آتے ان کو یہ ‘مہاجرین’ کہتا، اوراپنے شہر والوں کو انصارکہتا۔۔۔۔”
(تاریخ نجد و حجازص 140)

ان باتوں کی تائید تو خود اس کے خیالات و نظریات سے بھی ہوتی ہے، یہی سبب ہے کہ جب کوئ پیغمبر اسلام (ص) پر درود پڑہتا تھا تو اسے تکلیف ہوتی تھی وہ اس بات کو سخت نا پسند کرتا تھا۔

بہرحال اس چھوٹے سے مضمون میں احادیث کی روشنی میں اس کی تحریک و خروج کا جائزہ لینا چاہتے ہیں تاکہ باطل و گمراہ فرقہ کے چہرے سے نقاب اٹھ جائے اور مسلمان آگاہ ہو جائے۔

شیخ محمد بن عبد الوہاب سن 1703 ء میں نجد کی جنوبی جانب وادئ حنیفہ کے ایک مقام عینیہ میں پیدا ہوا۔
اب آیئے دیکھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجد کے بارے میں کیا فرمایا ہے:
عبد اللہ بن عمر کہتے ہیں:میں نے نبئ اکرم (ص) سے سنا جبکہ حضور (ص) مشرق کی جانب کھڑے تھے۔ آپؐ نے (مشرق کی جانب) اشارہ کر کے فرمایا:”اس جگہ سے شیطان کا سینگ طلوع ہوگا”
(جامع مسند صحیح بخاری ج۲ ص۱۰۵۰)

یہ وہی نجد یے جس کے جنوب میں وادئ حنیفہ کا ایک خاص مقام ہے جسے عینیہ کہتے ہیں، اور یہ وہی جگہ ہے جہاں مسیلمہ کذاب پیدا ہوا تھا۔

اب آپ غور فرمائیں نجد کتنی نا مسعود جگہ ہے جو رسولؐ اللہ کی دعا سے محروم ہوئ اور فرمایا وہاں سے فتنے اٹھیں گے اور زلزلے آئیں گے۔ جو جگہ نبئ رحمتؐ کی دعا سے محروم رہی ہو وہاں قیامت تک کبھی خیر و برکت کی صبح نمودار ہو ہی نہیں سکتی۔

تاریخ گواہ ہے کہ نجد میں سب سے پہلا فتنہ مسیلمہ کذاب نے دعوائے نبوت کر کے برپا کیا،جو نجد کے جنوبی وادی حنیفہ کے مقام عینیہ میں پیدا ہوا۔ دوسرا بڑا فتنہ گیارہ سو سال بعد ٹھیک اسی جگہ شیخ نجدی محمد بن عبد الوہاب نے کھڑا کیا جس کے نا پاک وجود نے مسلمانوں کے عقائد کو متزلزل کر دیا۔ یہ بڑا قیامت خیز زلزلہ تھا جس کے جھٹکے سن 1115ھ سے لے کر آج تک محسوس ہو رہے ہیں،اور اسلام ومسلمانوں کی تباہی و بدنامی کا یہ سلسلہ اور کہاں تک جاےگا، خدا ہی جانتا ہے۔

1115ھ میں اٹھنے والا یہ ایسا تباہ کن زلزلہ تھا جس نے تمام اولیائے الہی اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے تمام مشاہد و ماثر کو زمین بوس کر دیا،جنت البقیع کے تمام مزارات مقدسہ کو شہید کر کے زمین کے برابر کر دیا۔

صاحب تاریخ نجدو حجاز ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
“یہ وہ فتنہ تھا جس نے ریگ زارِ عرب کو خون سے نہلا دیا۔ طائف سے کربلا تک اور مکہ سے مدینہ تک کوئ حرم اپنی اصلی حالت میں نہ رہا حتیٰ کہ رحمۃ للعالمینؐ کے گنبد خضرا کی زرنگار چھت تک برباد کر دی گئ، قبر انور سے چادر اتار لی گئ۔۔۔۔۔۔”
آج مسلمانوں کا بہت بڑا طبقہ ان حقائق سے نا واقف ہے جس کی بنا پر وہ قرآن واسلام اور توحید وسنت کا دم بھرنے والوں کے مکر و فریب کے جال میں پھنس جاتا ہے۔ جبکہ حضور اکرم (ص) نے اس کے باطل و گمراہ ہونے کے بارے میں پہلے ہی سے آگاہ کر دیا تھا۔

علامہ سید احمد دحلان لکھتے ہیں:حضور اکرم (ص) نے فرمایا:”کچھ لوگوں کا(عرب کے)مشرق کی جانب سے خروج ہوگا، وہ لوگ قرآن تو پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترےگا۔ وہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر کمان سے نکل جاتا ہے اور دوبارہ واپس نہیں آتا۔ اسی طرح وہ لوگ بھی ہیں جو دین میں دوبارہ نہیں داخل ہو سکتے۔ ان کی یہ علامت ہوگی کہ وہ سر منڈایا کریں گے۔۔۔
(خلاصۃ الکلام فی بیان امراء البلد المرام ص۲۳۵)

یہ بات سب جانتے ہیں کہ محمد بن عبد الوہاب اپنے پیروکاروں کو سر منڈانے کا حکم دیتا تھا اور زائرین مدینہ کی اس وقت تک جان نہیں چھوٹتی تھی جب تک وہ سر نہیں منڈا لیتے تھے۔ اور اس سے پہلے کوئ بھی مسلک سر منڈانے کو لازم و فرض قرار نہیں دیتا تھا۔ اس سے ظاہر ہوا کہ حدیث پیغمبر (ص) میں جن کے دین سے نکلنے کی خبر دی گئ ہے اس کا ایک روشن مصداق شیخ محمد بن عبد الوہاب اور اس کے ایجاد کردہ فرقے کی راہ پر چلنے والے وہابی افراد ہیں۔

آخر میں ایک اور واضح حدیث پیش کرتا چلوں جس سے بات بالکل روشن ہو جائے گی کہ یہ فرقہ گمراہ،باطل اور خرافات سے زیادہ کچھ نہیں، جس کا اسلام سے کوئ تعلق نہیں ہے۔

ابن عباس کہتے ہیں،حضور اکرم (ص) نے فرمایا: بارہویں صدی ہجری میں وادئ بنی حنیفہ میں ایک شخص کا خروج ہوگا جس کی ہیئت کذائ بیل کی طرح ہوگی اور وہ خشکی کا تمام چارہ کھا جائےگا، اس زمانے میں قتل و خوں ریزی بہت ہوگی اس کے پیروکار مسلمانوں کا مال حلال سمجھ کر لوٹ لیں گے اور مسلمانوں کے قتل عام کو حلال سمجھ کر ان کے قتل پر فخر کریں گے،یہ ایسا فتنہ ہوگا جس میں ذلیل ابھر کر سامنے آجائیں گے اور پست درجے کے لوگ ان کی خواہشات کی پیروی کریں گے جیسے کتا اپنے مالک کے پیچھے دم ہلاتا پھرتا ہے۔۔۔۔۔
(خلاصۃ الکلام فی امراءالبلد المرام ص345)

حدیث شریف کا ایک ایک فقرہ قابل غور اور مقام عبرت کا حامل ہے۔ اگر آج اس فرقہ کا بخوبی جائزہ لیا جائے تو اس حدیث کے بے شمار شواہد مل جائیں گے جو اس بات کی تائید کریں گے کہ حضور اکرم (ص) نے اس گمراہ اور فتنہ پرورفرقہ کے وجود میں آنے سے چوادہ سو سال قبل ہی خبر دے دی تھی۔ در اصل یہ بارگاہ احدیت میں اولاد آدمؑ کو گمراہ کرنے کے لئےابلیس ملعون کی طرف سے کھائ جانے والی قسم کی بھر پور طریقہ سے حمایت و تائید ہے کہ “اے شیطان! بنی آدم سے انتقام میں اپنے کو اکیلا نہ سمجھنا!!” شاید اسی لیے اس فرقہ کو مسلمانوں کی نہ نماز دکھائ دیتی ہے اور نہ صاحبان ایمان کا ایمان، انھیں نہ مسجدوں سے محبت ہے نہ قرآن و اسلام کی تعلیمات سے لگاؤ،نہ نبئ رحمت سے الفت ہے اور نہ اہلبیت نبیؑ سے مودت ، جبھی تو انھوں نے تمام اولیائے الہی ،انبیاء ومرسلین، اور ائمہ معصومین علیھم السلام کے قدیم زمانہ سے چلے آرہے مقدس گنبد و بابرکت مزارات کو بلاخوف و خطر زمین بوس کردیا ہے اور مکہ و مدینہ کے مقدس مشاہدۂ مشرفہ کو زمین کے برابر کر دیا ہے اور آج تک نہ ان کی تعمیر کا انتظام کیا اور نہ تعمیر کی اجازت دیتے ہیں۔ ایک طرف اصحاب با وفا کی قبریں ویران ہیں،تو دوسری طرف پیغمبرؐ کی لخت جگر اور جانشینانِ مصطفی (ص) کے مزارات سنسان کہ کوئ چراغ جلانے والا بھی نہیں ہے۔

خدایا! وارث بقیع امام مہدی (عج) کو جلد ظاہر فرما دے تاکہ وہ اہلبیت علیہم السلام اور بنی آدم پر ہونے والے مظالم کا انتقام لے سکیں پھر حقیقی دین اسلام کا قیام ہموار ہو جائے۔

Short URL : https://saqlain.org/7bom